کوویڈ۔19(کورونا وائرس)کی تیسری لہر نے ملک بھر میں اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے،مثبت مریضوں کی تعداد میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اضافہ ایک خطرناک رجحان ہے جس سے اموات کی شرح بڑھ رہی ہے اور اب تک 14ہزار سے زیادہ شہری اس کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ اب حکومت لاک ڈاؤن سمیت ایس اوپیز پر سختی سے عمل درآمد کا فیصلہ کرچکی ہے جلسے،جلوس سمیت تمام سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات اور شادی بیاہ پر مکمل پابندی عائد کردی گئی،ماسک کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے نہ پہننے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہے۔کورونا وائرس کی تیسری لہر سے پوری دنیا میں ایک مرتبہ پھر نہ صرف خوف و ہراس پھیل چکا تو دوسری طرف مختلف ممالک نے دوبارہ اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کردی ہیں حتی کہ فضائی سفر کو بھی محدود کردیا گیا ہے ترقی یافتہ اور امیر ممالک ویکسین خرید کر اپنے شہریوں کو تیزی سے لگوا رہے ہیں مگر غریب ممالک ابھی تک منہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کا کیا بنے گا۔خصوصا پاکستان میں اس حوالے سے بہت خدشات پائے جارہے ہیں کہ ایک طرف وفاقی اور صوبائی حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ انہیں دوست ملک چین سے لاکھوں کی تعداد میں ویکسین خوراکیں موصول ہوچکی ہیں جس کیلئے بتایا گیا کہ صحت سے متعلقہ فرنٹ لائن ورکرز اور ساٹھ سال سے زیادہ افراد کو ترجیح بنیادوں پر لیا جائے گا،پنجاب حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ لاہور،ملتان،راولپنڈی سمیت بڑے شہروں میں ”واک“ان ویکسنیشن کی سہولت دی جارہی ہے لیکن درحقیقت یہ سہولت محض صوبائی دارالخلافہ لاہور تک ہی محدود نظر آئی ہے کیونکہ فیصل آباد اور ملتان سمیت دوسرے شہروں میں ایسی کسی سہولت کے کوئی مراکز ہیں اور نہ آثار۔ ملتان انتظامیہ اور محکمہ صحت کے ذمہ داران کا موقف ہے کہ انہیں کچھ خوراکیں موصول ہوئی تھیں جو اب ختم ہوچکی ہیں اور اب یہ اگلے ہفتے کے بعد ہی ممکن ہوسکے گا اگر پنجاب حکومت انہیں فراہم کرتی ہے۔
دوسری طرف موبائل ایپ 1166پر اگر 60سال سے زیادہ افراد بھی شناختی کارڈ نمبر بھیج رہے ہیں تو انہیں یہ بتایا جارہا ہے کہ ضلعی ویکسی نیشن سینٹر آنا ہوگا لیکن اس میں وقت اور تاریخ کا نہیں بتایا جارہا،وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ایک ”نجی“دورے پر دو دن ملتان میں اپنے گھر رہے اور دورے کو ”پکا“کرنے کیلئے انہوں نے ضلعی ویکسنیشن سنٹر کا دورہ کیا جہاں توقع کے عین مطابق انتظامیہ اور محکمہ صحت کے اپنے کار خاص لوگوں کو بیڈ پر لٹا کر اچھی کارکردگی کی سٹوری سناد ی گئی اور اب حالت یہ ہے کہ بقول سرکاری ذمہ داران کے یہاں ویکسین ختم ہوچکی ہے یعنی ہوابن چکی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار،جو جنوبی پنجاب یا سرائیکی وسیب کی ”ازلی محرومی“کی وجہ سے اس منصب پر پہنچے ہیں وہ بھی اپنے پیش رو سیاست دانوں کی طرح اپنے علاقے کو ہی ڈچ کررہے ہیں عام آدمی کیلئے ان کے پاس وقت ہی نہیں البتہ لشاری والا جنگل بھی ضرورت کے تحت خالی کروا لیا ہے اور فورٹ منرو میں ہاؤسنگ سکیم اور سیمنٹ فیکٹری کی تنصیب بھی رک نہیں سکی،ہاں البتہ ماضی کی طرح ترقیاتی فنڈز کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا ہے ٹھیک اسی طرح کورونا ویکسین کے ساتھ بھی شاید ہوچکا ہے کہ حصہ دے کر واپس منگوا لی ہو۔اب جنوبی پنجاب کے باسیوں کی کب سنی جائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
ادھر پیپلز پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی،سینیٹر بننے،چیئرمین کا انتخاب ہارنے کے بعد سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر بننے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو بظاہر پیپلز پارٹی کی سیاسی برتری نظر آرہی ہے مگر اس میں پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنا بھی شامل رہے گا کہ چیئرمین کیلئے انہیں ہرانے والوں نے اپوزیشن لیڈر بنوانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اگر نمبر گیم کے حوالے سے غور کریں تو (ن)لیگ ہی اہل تھی لیکن کیا ہواس سیاسی انداز کا کہ جس میں اکلوتے ووٹ والے وزیر اعلیٰ،وزیر اعظم اور وزیر بن جاتے ہیں اب اس میں پی ڈی ایم اپنی سیاسی ساکھ اور ساتھ برقرار رکھ پاتی ہے کہ نہیں یہ کہنا بھی قبل از وقت ہوگا کہ سیاست کے بزر جمہر کبھی بھی پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ویسے دیکھا جائے تو سید یوسف رضا گیلانی نے جب سیاست کا آغاز کیا تھا تو ضلع کونسل کے رکن بننے کے بعد چیئرمین ضلع کونسل بھی منتخب ہوگئے تھے اور سید فخر امام کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کے باوجود کہ وہ اس وقت جنرل ضیاء الحق کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے اسی کارکردگی کی بنیاد پر یہ بعد میں 1988ء کے غیر جماعتی انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وفاقی وزیر رہے پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بے نظیر بھٹو کی پہلی کابینہ کے وزیر مقرر ہوئے،1993میں بے نظیر بھٹو کے دوسری مرتبہ اقتدار میں یہ قومی اسمبلی کے سپیکر ریکارڈ ووٹوں سے بنے اور پھر وقت نے انہیں سہولت دی تو وزیر اعظم بھی ریکارڈ ووٹوں سے منتخب ہوگئے اب ان کی منزل ایوان صدر ہوسکتی ہے جس کیلئے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا کہ ملکی سیاست میں تقریبا تمام سیاستدانوں کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہے تو ایسی صورت میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ادھر (ن)لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے پیپلز پارٹی کے اس رویہ پر سخت تنقید کی ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)سے الحاق کرکے پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے راہیں جدا کرلی ہیں اور عملی طور پر ایک علیحدہ اتحاد کی بنیاد رکھ دی ہے جس سے ہمارے اتحاد کو سخت دھچکا لگا ہے وہاں پیپلز پارٹی کو بھی سیاسی نقصان کا سامنا ہے کیونکہ عوام نے اس عوامل پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔گو سید یوسف رضا گیلانی اچھے آدمی ہیں لیکن انہیں پی ڈی ایم کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا،انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ عمران خان نے چین اور سعودی عرب کو ناراض کردیا ہے امریکہ ہمیں اہمیت نہیں دے رہا جس سے ہماری اخلاقی پوزیشن کم ہورہی ہے جس کیلئے یکجا ہونا ضروری ہے،اب یہ پیغام (ن)لیگ نے کس کس کو دیا ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود نے (ن)لیگ کی سیاست کے خاتمے کا دعویٰ کردیا ہے اور کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پی ڈی ایم قائم رہے لیکن سلیکٹڈ کہنے پر افسوس ہے،ادھر سپریم کورٹ کی طرف سے بلدیاتی اداروں کی بحالی کی خبر کے دو دن بعد لیگی چیئرمینوں نے میئر نوید ارائیں کے ساتھ میٹرو پولٹین کارپوریشن کے دفاتر پر دھاوا بول دیا اور از خود میئر کا عہدہ سنبھال لیا جبکہ ڈپٹی میئرز منور احسان قریشی اور حاجی سعید احمد انصاری نے بھی دفاتر پر قبضہ کرلیا۔اس موقع پر کارکنوں کی بھاری تعداد موجود تھی،تاہم ابھی تک یہ واضع نہیں ہوسکا کہ اب مقررہ وقت پورا ہونے کے بعد کیا ہوگا؟
فیس بک کمینٹ