مفادات کے منافی کام نہ کرسکے اور حکومت تو پھر حکومت ہوتی ہے جس کا مینڈیٹ پر عمل پہلی ترجیح ہوتا ہے مگر یہاں تو آوے کا آوے ہی بگڑا لگ رہا ہے،اول تو اپوزیشن نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں اور جو ”متحدہ اپوزیشن“ہے وہ تنقید در تنقید،الزام در الزام اور چیخ و پکار کے فارمولے پر عمل پیرا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومتی ترجمان بھی روزانہ کے حساب سے وقت نکال لیتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں یعنی نہلے پر دھلا ہیں کیوں نہ ہوکہ گزشتہ تین سے زائد دہائیوں سے یہی تو حکومت اور اس کے اقدامات کا دفاع کرتے آرہے ہیں اب ان کی باتوں کا اعتبار کتنا ہے یہ تو عوام کو ہی بہتر معلوم ہے مگر یہ بات مسلمہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ کسی بھی ”رہنما“کو سڑک پر لانے کی ہمہ وقت صلاحیت رکھتے ہیں اور اب کی مرتبہ بھی شاید یہی ہونے جارہا ہے،یہی وجہ رہی ہوگی کہ مذکورہ ”پنچھی“بولیاں بولنا شروع ہوچکے ہیں انجام دور نہیں لیکن اپوزیشن کا کردار بھی دیکھ لیں کہ وہ بھی تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرح محض وزیر اعظم ہی بننا چاہتے ہیں۔موجودہ حالات میں ملک کو چلانے کا روڈ میپ نہیں ہے،ان کے پاس بھی دو سو افراد ماہرین پر مشتمل معاشی ٹیم نہیں ہے اگر ہوتی تو یقینا وہ موجودہ ٹیم کی عوام اور ملک دشمن معاشی پالیسیوں کا تکینکی محاسبہ اور مثبت حل پیش کرتیں ابھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کو محض لفظی احتجاج کی بجائے وہ ثابت کرتے کہ جون میں پیش کئے جانے والے بجٹ میں جو اعداد و شمار دئیے گئے تھے اس میں تیل پر محصولات کی مد میں 450ارب روپے حاصل کرنے کا ہدف شامل ہے۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدا لحفیظ شیخ نے بجٹ تقریر کے بعد پریس کانفرنس میں نشاندہی کی تھی کہ ہم یہ ٹارگٹ عوام پر بوجھ ڈالے بغیر آسانی سے حاصل کرلیں گے،پھر انہی دنوں پٹرول لیوی میں اضافہ کردیا جو دراصل نان ٹیکس محاصل ہے اور باہم رضا مندی اور مشورہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمد نہیں کی گئی فرنس آئیل غائب اور بجلی کی پیداوار متاثر ہوئی۔اشک شوئی کے طور پر کھربوں روپے مالیت کی بین الاقوامی کمپنیوں پر چند کروڑ روپے کا جرمانہ کیا مگر تیل مارکیٹ میں نہیں آسکا اور تمام تر تیل سٹاک کرلیا گیا صرف پاکستان اسٹیٹ آئیل کو بوجوہ مارکیٹ میں موجود رکھا گیا اور تاریخی نقصان سے دوچار کیا گیا اور پھر وہی کچھ کر ڈالا جس کیلئے یہ تمام کہانی گھڑی گئی تھی،پٹرولیم مصنوعات میں فی لیٹر تاریخی اضافہ کردیا۔مگر یہ یہیں نہیں رکے گا ابھی مزید اضافہ ہونا ہے کیونکہ کورونا بحران کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا،جو معاشی سرگرمیوں پر منفی اثر اور مہنگائی کا سبب ہوگا۔اب یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ تحریک انصاف کی معاشی ٹیم عوام کے ساتھ کس قدر مخلص ہے جو ملکی معیشت کو بند گلی میں دھکیل رہی ہے اور محض ایک گھنٹے میں پٹرولیم کمپنیوں کو اربوں روپے کا منافع دلوا دیا۔ابھی تو ایل پی جی اور گیس کی اضافی قیمتوں کی کہانی الگ ہے جبکہ ایسے وقت میں جب ملک بھر میں کرونا وائرس سے نہ صرف خوف و ہراس ہے بلکہ معاشی سرگرمیاں مانداور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے،ملکی معیشت منفی سے منفی جار ہی ہے۔عام آدمی کی قوت خرید تقریبا ختم ہورہی ہے۔حکومت کی طرف براہ راست غریب اور بے آسرا لوگوں میں راشن کی تقسیم پر پابندی نے ایک ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ ضبط تحریر میں لانا مشکل ہے مگر کیا کہئے کہ تقریبا دو سال ہونے کو ہیں مگر حکومت مثبت کارکردگی دکھانے کی بجائے آج بھی تمام تر ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈالنے سے باز نہیں آرہی کوئی ان سے پوچھے کہ گزشتہ 72سالوں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جو ان دو سالوں میں ہوچکی ہے غربت کی لکیر مزید نیچے جاچکی ہے،دینے والے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہورہے ہیں مگر اس کے باوجود نہ صرف جان بچانے والی ادویات بلکہ عام استعمال کی ادویات کی قیمتوں میں اس وقت بھی ساٹھ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے، مال بردار ومسافر ٹرانسپورٹ نے کرایوں میں من مانا اضافہ کردیا ہے،بجلی کی لوڈ شیڈنگ سخت گرم موسم میں وبال جان بن رہی ہے حالانکہ ہفتہ میں دو دن مکمل چھٹی اور شام سات بجے مارکیٹیں اور بازار بند ہونے سے بجلی کی کھپت میں نمایاں کمی ہوئی ہے مگر سرکلر ڈیبٹ میں اضافے اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی اور فرنس آئیل کی عدم دستیابی نے معاملات کو الجھا کر رکھ دیا ہے جو تحریک انصاف کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کررہا ہے اور اس وقت پارٹی کے اندر حکومت کی اپوزیشن ہورہی ہے،نظریاتی اور تبدیلی کی توقع پر ووٹ دینے والے اس وقت پریشان تو ہیں ہی لیکن اب نالاں بھی ہورہے ہیں۔
لیکن دوسری طرف حکومتی ترجمان اور وزیرا عظم عمران خان خود کو مثبت اور مضبوط مستقبل کا نقشہ دینے کی بجائے ایک مرتبہ پھر ”کنٹینر“والی باتوں کو دہرا رہے ہیں اور ان دوسالوں کی ناکامیوں کا ملبہ بھی سابق حکومتوں کے سر چڑھانے کی زبانی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں مگر توجہ طلب امور پر دھیان نہیں دے رہے ہیں کچھ اتحادی تو اعلانیہ چھوڑ چکے ہیں جو بچے ہیں وہ مستقبل کی پلاننگ میں مصروف ہیں،پارٹی کی اپنی ٹکٹ پر جیت کرآنے والوں نے بھی سر اٹھانا اور تنقید کرنا شروع کردیا ہے جو اظہار کررہے ہیں کہ منتخب نمائندوں کے ہوتے ہوئے ایسے لوگوں کو اہم اور کلیدی عہدوں پر بٹھایا گیا ہے جو عوام کو جواب دہ نہیں ہیں اس لئے وہ عوامی نمائندوں کی بات سنتے ہیں اور نہ عام آدمی کی تکلیف کا خیال کرتے ہیں۔بجٹ کے سلسلہ میں وزیر اعظم عمران خان کے عشائیہ میں کئی ناراضیاں سامنے آئیں ہیں بلکہ بڑا اہم اعتراض سامنے آیا ہے کہ وباء کی وجہ سے جہاں ملک بھر میں ہر چھوٹے بڑے اجتماع پر پابندی ہے تو پھر وزیرا عظم نے ارکان پارلیمنٹ کو عشائیہ کیسے دے دیا،اس کا منفی اثر عوام پر آئے گا اور لوگ دیکھا دیکھی اجتماعات منعقد کرنے کی کوشش کریں گے جو و با ء کے پھیلنے کا موجب ہوسکتا ہے پہلے ہی متعدد عالمی ادارے اور ریسرچ یونیورسٹیاں پاکستان میں اس حوالے سے ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے پر نالاں ہیں اور وارننگ بھی دے چکے ہیں۔
اسی طرح پی آئی اے طیارہ حادثہ کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرنے اور اس میں ائیر لائن پائلٹس اور گراؤنڈ تکینکی عملہ،ائیر ٹریفک کنٹرول اور ائیر کرافٹ انجینئرنگ پر تمام تر ملبہ ڈالنے اور اسے میڈیا میں عام کرنے پر عالمی میڈیا نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے،سول ایوی ایشن کی عالمی تنظیم نے الگ تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ کچھ ائیر لائنز نے پاکستانی عملہ فی الفور گراؤنڈ کردیا ہے ایک طرف کرونا وائرس کے کنٹرول پر ڈھیلی گرفت اور اب سول ایوی ایشن میں یہ الزامات یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ کہیں یورپی اور دوسرے ممالک پاکستانی مسافروں پر مغربی پابندیاں نہ عائد کردیں،لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اندرونی و بیرونی سیاسی خلفشار کی وجہ سے اسے سنجیدہ نہیں لے رہی ٹھیک اسی طرح کہ اس وقت قیمتی زر مبادلہ بھجوانے والے پاکستانی مڈل ایسٹ اور دوسرے ممالک سے واپس آرہے ہیں،درآمدات خطرناک حد تک کم ہوچکی ہیں اس برآمدات نہ ہوئے برابر ہیں ایسے میں زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر چلے گئے ہیں تو اس کو سنجیدگی سے کون لے گا۔کیا حکومت کا کام صرف ماضی کے حکمرانوں پر تنقید کرنا ہی رہ گیا ہے۔اب آگے کیا ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ادھر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی تشکیل میں تحریک انصاف کے اندر دو دھڑے پیدا ہوگئے ہیں جو ایک مرتبہ پھر جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام پر نئی سیاسی کچھڑی پکانے کیلئے پر تول چکے ہیں اور لگتا ہے یہ تو شیرازہ ہی بکھر رہا ہے
فیس بک کمینٹ