دو دن پہلے عورتوں کا عالمی دن منایا گیا، عورت کے مقام پر بات ہوئی۔ اس کی جدوجہد کا ذکر بھی ہوا۔ لیکن بہت بنیادی باتوں کو نظر انداز کیا گیا۔ سب سے بنیادی بات جو نظر انداز ہوئی وہ یہ تھی کہ عورت اصل میں ہے کیا؟۔ ہر دوسرے شخص نے اسے رشتوں کے حوالے سے معتبر قرار دیا۔ وہ بیٹی ہے، وہ بہن ہے، وہ بیوی ہے، وہ ماں ہے، مذہب نے جنت کو ماں کے قدموں تلے بیان کیا ہے۔ مذہب نے اسے بہت حقوق عطا کیے ہیں۔ کیا یہی عورت کی تعریف ہے؟۔ کیا عورت انہی حوالوں اور رشتوں کا نام ہے؟ ۔ایک بنیادی بات جسے منہ سے بولتے ہوئے بہت ساری زبانوں پر لکنت سی طاری ہونے لگتی ہے۔ وہ یہ کہ عورت بیٹی، بہن، بیوی اور ماں بعد میں ہے سب سے پہلے وہ ایک انسان ہے۔ کیا مرد کی بات کرتے وقت ہم اسی دلیل کا سہارا لیتے ہیں؟۔ وہ بیٹا ہے، بھائی ہے، شوہر اور باپ ہے؟ ۔رہا مذہب کا معاملہ تو بے شک مذہب بالخصوص اسلام نے عورت کو وہ حق دیا جو اس سے پہلے اُس معاشرے میں اسے حاصل نہیں تھا۔ عصر حاضر کی عظیم مستشرقہ کیرن آرم سٹرانگ نے برملا لکھا ہے، کہ آج سے چودہ سو برس قبل کی عرب قبائلی سو سائیٹی میں عورت کو میراث میں سے حصہ دینا، اس کے حقوق کی بات کرنا ایک عظیم انقلاب تھا۔ لیکن کیا مذہب نے ایسا کہا ہے کہ عورت کو جو حقوق ملنے تھے وہ مل چکے اب قیامت تک اسے مزید کی خواہش نہیں کرنی چاہیے؟۔ کیا آج کا مرد بھی اُنہی حقوق پر اکتفا کیے بیٹھا ہے جو اُسے قدیم معاشرے میں حاصل تھے؟۔ کچھ خوف خدا کیجیے۔عورت موٹر کار یا سکوٹر نہیں چلا سکتی، بینک میں اپنے نام پر اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتی، ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتی، شناختی کارڈ پر تصویر چسپاں نہیں کر سکتی، بلکہ سرے سے شناختی کارڈ ہی نہیں لے سکتی، کسی سے براہ راست مخاطب نہیں ہو سکتی، اکیلی گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی حتیٰ ٰ کہ میکے بھی شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی، اس کے نام پر جائداد نہیں بنائی جا سکتی، وہ کورٹ کچہری نہیں جا سکتی، وہ گھریلو یا سماجی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی، وہ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی، سربراہ مملکت نہیں بن سکتی، کیا یہ سب کچھ ہمارے ہاں کھلم کھلا بغیر کوئی شرمندگی محسوس کیے سر عام نہیں ہو رہا؟۔ کیا یہ ساری حدیں مذہب نے مقرر کی ہیں؟۔ کیا ہمارے ہاں دو قسم کے اخلاقی ضابطے رائج نہیں ہیں؟، ایک عورت کے لیے دوسرا مرد کے لیے؟، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج جتنے بھی مذہبی معاشرے ہیں بالخصوص اسلامی معاشرے وہاں عورت کی حیثیت مال جیسی ہے؟۔ پوری معلوم انسانی تاریخ میں نظر دوڑا لیجیے، عورت آپ کو مظلوم ہی نظر آئے گی۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس وقت رائج تمام چھوٹے بڑے مذاہب زرعی دور میں تخلیق ہوئے۔ اُس دور کی اپنی سماجی مجبوریاں تھیں، مرد گھر سے لیکر سماج کی ہر سطح پر حکمران تھا۔ مذاہب نے براہ راست مرد کی حکمرانی میں دخل نہیں دیا۔لیکن جتنا ممکن تھا عورت کے حقوق کی بات ضرور کی۔ بالخصوص اسلام نے اس سلسلے میں انقلابی قدم اٹھائے۔ لیکن جوں ہی مذاہب کے بانیان نے دنیا چھوڑی اور مذاہب پر اشرافیہ کا کنٹرول ہوا۔ اشرافیہ نے وہ حقوق بھی سلب کر لیے جو مذاہب کے عظیم بانیان اسے دے کر گئے تھے۔ اسلام میں یہی کچھ ہوا۔ اور رہی بات علما و فقہا کی تو وہ اس وقت بھی بادشاہوں کے کاسہ لیس تھے آج بھی ہیں۔ جنہوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ آئمہ آل بیت ؑسے کسی ایک کو بھی طبعی موت نصیب نہیں ہوئی۔ سب کے سب زہر وخنجر و تلوار کا شکار ہوئے۔ چار خلفائے راشدین میں سے تین شہید ہوئے۔ آئمہ اربعہ کا حال بھی یہی ہوا۔ امام ابو حنیفہ و امام مالک جیسے جید اماموں کو سرعام کوڑوں سے پیٹا گیا۔ ہاتھ پاؤں میں رسیاں باندھ کر گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ ان سب کا قصور یہ تھا کہ مطلق العنانیت کے خلاف تھے۔ البتہ علما ہر دور میں خوب مزے میں رہے۔ سوائے مٹھی بھر تعداد کے اکثریت ماشاللہ ہمیشہ بادشاہوں اور حکمرانوں کی کاسہ لیس ہی رہی۔ حکمرانوں کا ہراول دستہ بن کر عوام کی زندگی کو جہنم بنائے رکھا۔ بنی اُمیہ، بنی عباس، بنی عثمان سے لیکر سلاطینِ برصغیر تک اور سلاطین برصغیر سے لیکر سلاطین مغلیہ تک اور سلاطین مغلیہ سے لیکر حضرت امیرالمومنین جنرل ضیا جنت مکانی تک ان کا کردار یہی رہا۔ آج بھی جمہوریت اور عوامی شعوروترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے تو یہی طبقہ ہے۔ عورت کے بارے میں ان کے خیالات آج بھی وہی ہیں جو بنی اُمیہ کے دور میں تھے۔ ہمارا سماج شروع سے جاگیر دارانہ رہا ہے اور گزشتہ چالیس سال سے مولویانہ ہے۔ عورت اس سماج میں ایک فروختنی جنس جیسی ہے۔ امرتا پریتم کیسے موقعے پر یاد آئی۔ اس نے لکھا تھا، ہمارے سماج میں مرد کو اگر جنسی تسکین کا لپکا نہ ہو تو وہ عورت کو روٹی کے دو نوالے بھی نہ دے۔ ہمارے سماج میں آج عورت کے پاس کچھ ہے تو وہ مرد کا دیا ہوا ہر گز نہیں بلکہ اس کا اپنی جدو جہد سے حاصل کیا ہوا ہے۔ وہ امریکہ کی روزہ پارکس ہو یا پاکستانی عاصمہ جہانگیر اور ملالہ یوسف زئی۔ مجھے بچپن ہی سے یہ جاننے کا اشتیاق تھا کہ عورت ہے کیا؟۔ خدا اُن کی روح کا خیال رکھے میرے مرحوم چچا کاظم حسین جو کتابوں کے رسیا تھے۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ عورت کا مقام کیا ہے؟۔ کہا یہ کیسا سوال ہے؟۔ کیا کسی نے سوال کیا کہ مرد کا مقام کیا ہے؟۔عورت کا مقام وہی ہے جو مرد کا ہے، دونوں انسان ہیں۔ بلکہ انصاف تو یہ ہے کہ انسان ہونے کے ناطے مرد سے بہت اونچا۔ معلوم تاریخ کو چھوڑو، پچھلی بیسویں صدی کا دھیان کر لو، پہلی و دوسری عالمی جنگ سے لیکر1947ء ،ان انسانیت سوز واقعات میں عورت کا حصہ کتنا ہے ؟۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب مجھے فقیر وں درویشوں کی صحبت میں بیٹھ کر تصوف کو سمجھنے کا خیال آیا۔ ایک فقیر کی کُٹیا میں بیٹھا ہوا تھا۔ سنہری شام کے پہلو سے فقیر کے مچ کا دھواں اُٹھ رہا تھا۔ میں نے پوچھا، عورت کیا ہے؟۔ کہا مجھ سے کیا پوچھتے ہو کیا مجھے کوئی کتاب پڑھتے یا مسجد میں واعظ سنتے دیکھا ہے؟۔کہا اسی لیے تو پوچھا ہے کہ جو گیان اور دھیان سے ملتا ہے وہ خطاب و کتاب میں کہاں۔ جو دانش عطا کرتی ہے وہ ملاں کے واعظ میں کہاں؟۔ مسکرائے ، پھر دھیرے سے لب کھولے، کہا زندگی کو تخلیق کرنے والے دو ہیں۔ ایک لا وجودی ہے جو اوپر بیٹھا ہے دوسرا وجودی ہے جو اس دھرتی پر رہتا ہے۔ وہ عورت ہے۔ میری ماں میرا دوسرا رب ہے۔ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ معلوم نہیں دھرتی کے اس رب کو خود کو انسان ثابت کرنے کے لیے اور کتنی صدیوں کا کٹھن سفر طے کرنا ہے؟۔
فیس بک کمینٹ