سیاست و اقتدار کے مراکز میں دُشنام طرازی کا کلچر نیا نہیں ہے، اور نہ ہی جاوید لطیف اور مراد سعید نے کوئی انوکھا کام کیا ہے۔ اس کے ڈانڈے غالباً ہمارے گورنر جنرل غلام محمد صاحب تک ملتے ہیں۔ موصوف مغلوب الغضب ہو کر گالیاں بکنے کے عادی تھے۔ اور ایسا کرتے ہوئے ان کے دہن سے باقاعدہ کف اُڑتی تھی۔ جسے ان کی خوبصورت سیکریٹری مس بورل فوراً اپنے رومال سے صاف کرنے کی کوشش کرتی اور اکثر ناکام رہتی۔ برطانیہ میں ہمارے ایک مذہبی رہنما ہیں جو مخالف فرقے والوں کو گالیاں دینے کو اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے گالی جب تک پنجابی میں نہ ہو اور منہ بھر کر نہ دی جائے مزہ ہی نہیں آتا۔ ایک پیر صاحب نے تو دوران حج و عمرہ ایک مخصوص مسلک والوں کو گالیاں دینا جائز قرار دیا تھا۔ پچھلے دنوں جب ایک مذہبی گروہ نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو ساری دنیا نے گالم گلوچ کا شاہ کار مظاہرہ دیکھا۔ آج کل ہمارے ایک اور معروف مذہبی رہنما اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ اکثر ایسے عالم میں اپنی بے بسی کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کاش میرے پاس تمہارے لائق کوئی تگڑی گالی ہوتی۔ بات ہو رہی تھی سیاست و اقتدار کے ایوانوں کی، غلام محمد صاحب غالباً اس دُشنام طرازی کے بانی ٹھہریں گے۔ اور قومی سطح پر اس دُشنام طرازی کا کوئی پہلا نشانہ تھا تو وہ مادر ملت تھیں۔ جب کراچی میں صدر ایوب خان کے خلف الرشید نے ایک جلوس نکالا، جس کا انجام مہاجروں پر پہلے پہل تشدد سے ہوا، اس جلوس میں مادر ملت کا نام لے کر وہ وہ گالی بکی گئی جس کو احاطہ تحریر میں لانا تو دور کی بات احاطہ خیال میں بھی لانے سے دل و دماغ آج بھی تپ سے جاتے ہیں۔ اس کے بعد شہید بھٹو تھے جنہوں نے اس کام کو اپنے مخالفین پر برتا۔ وہ سر عام اصغر خان کو آلو خان کہا کرتے۔ مفتی محمود صاحب تک کوئی بھی اُن کے نشانے سے بچ نہ پاتا۔لیکن انہوں نے اس کام کو کبھی حد سے بڑھنے نہیں دیا۔ اس کے بعد جنرل ضیا صاحب کا دور آتا ہے، موصوف روکھی پھیکی گالیوں کے قائل ہی نہیں تھے وہ سیدھے سیدھے چمڑی اُدھیڑ دینا ہی مناسب سمجھتے تھے۔ جب انہوں نے جمہوریت کا مستقبل میاں نواز شریف کی شکل میں دریافت کیا تو میاں صاحب نے اس کام کو باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے خلاف کردار کشی کی ایک منظم مہم چلائی گئی، اور ہیلی کاپٹروں سے غلیظ پرچے گرائے گئے۔ہیلی کاپٹر کا اس مقصد کے لیے استعمال دنیا میں غالباً پہلی بار کیا گیا۔ رہے ہمارے خفیہ والے تو وہ اس کام میں پیر اُستاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب بھی ایسا کوئی کام کرتے ہیں ہمیشہ پکا کرتے ہیں، اور کوشش کرتے ہیں کہ ایک تیر سے نشانے کم از کم دو ہوں۔ وہ اس سلسلے میں ہوائی گالی اور ضائع ہو جانے والے پمفلٹ کے قائل نہیں ہیں، وہ کم از کم کتاب لکھواتے ہیں تاکہ سند تادیر باقی رہے۔ بات ہو رہی تھی میاں نواز شریف کے دور کی، انہوں نے اپنی مخالف جماعت کی معزز عورتوں کے خلاف نہ صرف باقاعدہ تحریری منظم مہم چلائی بلکہ ایوان میں بھی انہیں نشانہ بنانے کا بندوبست فرمایا۔ شیخ رشید نے انہی کے دور میں دشنام طرازی میں اپنا نام قومی سطح پر منوایا۔ اس سلسلے میں شیخ موصوف کو ان کی مکمل اشیر باد حاصل تھی، جیسے آج کل جاوید لطیف اور کچھ دوسروں کو حاصل ہے۔لیکن ایک بات ماننا پڑے گی، کہ میاں صاحبان نے اس کام میں کبھی اپنے لب ودہن آلودہ نہیں ہونے دیے۔ انہوں نے جب بھی ایسا کام لیا ہمیشہ دوسروں سے لیا اور جب بھی ان کے حواریوں نے تمام حدود کو پھلانگا کبھی ان کی سرزنش نہیں کی جیسے آج کل پورے میڈیا کے یک زبان ہونے پر بھی جاوید لطیف کے بارے میں نہیں کر رہے۔ میاں صاحب کے بعد قومی سیاست کے اُفق پر ہمارے کپتان اُبھرے۔ انہوں نے اُبھرتے ہی اس گرتے پڑتے اور کسی حد تک کمزور ہوتے سلسلے کو اپنے ساتھ اُبھارا۔ اس حد تک کہ اب امتیاز کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ وہ خود کتنا اُبھرے اور ان کی دُشنام طرازی کتنا؟۔ جاوید لطیف کے سلسلے میں ان کی جماعت کی اعلیٰ قیادت کی مکمل خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی مکمل اشیر باد اس کے ساتھ ہے۔ دُشنام کے بعد دوسری جنس جس میں ہم ہمیشہ سے خودکفیل رہے، وہ غدار سازی ہے۔ یہ وہ آتش دان ہے جسے ہم نے کبھی بجھنے نہیں دیا۔ اس کار بد کا پہلا نشانہ بھی مادر ملت ہی تھیں۔ اُن کے بعد کونسا ایسا سول حکمران ہے جو اس کا نشانہ نہیں بنا، البتہ جنرل یحییٰ جیسے قومی پرچم اوڑھ کر لحد میں اُترے اور جنرل ضیا کو مسجد کے صحن میں جگہ ملی۔حسین حقانی اپنی تمام تر لیاقت و قابلیت کے باوجود کبھی بھی عام پاکستانی کے دل میں جگہ نہیں بنا پائے۔ غالباً اس میں اُن کی موقع پرستی کا دخل ہے یا کھرے پیشہ ورانہ کردار کا۔ اُن کے حالیہ مضمون میں دو جملے صرف ایسے ہیں جو ہمارے بعض حلقوں کو ہضم نہیں ہو رہے۔ حالانکہ اس تحریر کا اس خاص وقت کا انتخاب جب ٹرمپ انتظامیہ اپنا پلو ہر کسی کے ہاتھ میں دینے سے کترا رہی ہے،مقصد صاف سمجھ آ رہا ہے۔ وہ دو معترضہ جملے یہ تھے کہ ہم نے اوبامہ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کیا، پاکستانی خفیہ ایجنسیوں اور عسکری اداروں کے تعاون کے بغیر۔ کیونکہ اوبامہ انتظامیہ ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں تھی۔ یہ بات ہر گز قابل ستائش اور پاکستان کے شایان شان نہیں تھی۔ اوبامہ سے پہلے صدر کلنٹن اس بات کو اپنی سوانح عمری میں لکھ چکے تھے۔ کیا ماضی میں خفیہ ایجنسیوں اور عسکری اداروں نے اپنی پالیسیاں مرتب اور فیصلے کرتے وقت سول حکومت کے اعلیٰ ایوان کو اعتماد میں لیا؟۔ اس پر ایک نیا کمیشن بنانے سے پہلے ایبٹ آباد حملے پر بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ تو عوام کے سامنے لے آیئے۔ کیا اُسامہ اور اس کی جماعت پاکستان کا قیمتی اثاثہ تھے؟۔ جسے غیروں کے ہاتھ سونپ کر سول حکومت نے پاکستان کے ساتھ غداری کی؟۔کمیشن کمیشن کھیلنے سے پہلے صرف ایک بات طے کر لی جائے کہ سول اور عسکری قوتیں اہم قومی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہم آہنگ رہیں گی تو اس سے بڑھ کر پاکستان کی اور خدمت کیا ہو گی؟۔ کیا پاکستان اپنے اعلیٰ سول اور عسکری اداروں سے اپنے حق میں یہ اُمید دل میں پال سکتا ہے؟۔
فیس بک کمینٹ