پنجاب گورنمنٹ کے ایک بچگانہ سے چہرے والے ترجمان کا کہنا ہے اختلافی نوٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ہوتی ہے جناب بہت ہوتی ہے۔اختلافی نوٹ فیصلہ نہیں ہوتا لیکن جلد یا بدیر عوام کا فیصلہ یہی اخلافی نوٹ ہی بنتا ہے۔ یہ بھی بنے گا اور جلد ہی آپ کو اس کی سیاسی ، سماجی اور اخلاقی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ بھٹو شہید کو آج اُن کے سیاسی مخالفین بھی شہید قرار دیتے ہیں۔ عوامی سطح پر یہ فیصلہ کس نے کیا تھا؟۔ اُسی اختلافی نوٹ نے حضور، جس کی اہمیت سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے آپ۔ بھٹو کو سزا دینے والے پینل میں شامل ایک کوتاہ قد جج نے بعد میں اعتراف کیا تھا کہ ہم غلطی پر تھے اختلاف والے درست تھے۔یہ ہوتی ہے تاریخی فیصلوں پر لکھے جانے والے اختلافی نوٹ کی اہمیت۔ اکرم شیخ فرماتے ہیں یہ کوئی مقدمہ تھا ہی نہیں۔اسے مقدمہ میڈیا نے اور حزب اختلاف نے بنایا۔ واہ جناب واہ۔ ریاست کی نصف آبادی کو غربت کی کھائی میں گرا کر بیرون ملک دولت کے ڈھیر لگانے والے حکمرانوں کے خلاف عوام کی طرف سے عدالت میں کی گئی فریاد آپ کے نزدیک اس قابل ہی نہیں ہے کہ مقدمہ کہلوا سکے؟۔ایک صاحب نے بڑی دُور کی ہانکی، کہا اختلافی نوٹ قرآن کی کسی آیت یا حدیث سے شروع کرتے ؟۔ قرآن کی پہلی وحی جس مقام پر اُتری اس مقام کی قسم ہے، اگر قرآن ان حکمرانوں کے حلق سے ایک انچ بھی نیچے اُترا ہوتا تو عوام کے منہ سے نوالے چھین کر بیرون ممالک یہ دولت کے ڈھیر نہ لگاتے۔چلیں آئیں آپ کی یہ خواہش بھی پوری کر دیتے ہیں قرآن اور حدیث کے حوالے سے۔ کیا قرآن نے جمع کیے گئے سونے اور چاندی کو بروز حشر پگھلا کر انہی کی پیشانیوں کو داغ دینے کااعلان نہیں کیا؟۔ ماریو پزو نے تو کل یہ بات کی ہے، آج سے چودہ سو سال پہلے ممبر کوفہ پر شہر علم نبوتﷺ کے دروازہ علی ابن ابی طالب نے کیا نہیں کہا تھا، جہاں بھی دولت کا ڈھیر دیکھو گے اس کی تہہ میں حرام پاؤ گے، حوالہ نحج البلاغہ۔ بہت اونچے سُروں میں کہا جا رہا ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے تمام ثبوت رکھے جائیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو عدالت کے روبرو کیوں نہیں رکھے گئے کہ اس جھنجھٹ سے جان آپ کی چھوٹ جاتی۔ ہمارے ایک مراعات یافتہ طبقات کے مراعات یافتہ اعلیٰ درجے کے صحافی فرما رہے تھے بلکہ عوام کو گمراہ کر رہے تھے کہ جے آئی ٹی میں شامل بشمول آئی ایس آئی کے کوئی ایسی مہارت ہے ہی نہیں۔ نہیں جناب معاملہ اب مزید تحقیق و تفتیش کا نہیں ہے بلکہ طے کیے گئے تقریباً بارہ تیرہ سوالات کے جوابات مانگنے کا ہے۔ جو مدع الیہ کے پاس ہیں ہی نہیں۔ اگر ہوتے تو اب تک دیے جا چکے ہوتے۔ جو دیے ہیں وہ قوم کے سامنے ہیں۔ اور ان میں تضادات کسی دیہاتی سکول کا پانچویں چھٹی جماعت کا بچہ بھی تلاش کر سکتا ہے۔میں پچھلے سات سال سے انگلستان میں مقیم ہوں، لندن شہر میں۔ پاکستانیوں نے جن قیمتی فلیٹوں کا سنا ہے وہ اس لکھنے والے نے دیکھے ہیں۔ بیالیس ملین پونڈ یعنی چار کروڑ بیس لاکھ پونڈ جو پاکستانی روپوں میں 600 کروڑ سے زائد بنتے ہیں۔ یہ قیمت پرانی ہے اب اس سے بڑھ چکی ہے۔ یہ وہ دولت ہے جوبیرون ملک صرف انگلستان میں جمع کی گئی دولت کے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ انشاللہ وہ وقت بھی جلد آئے گا جب پاکستانیوں کو لندن سے مانچسٹر تک بہتی ہوئی گنگا کا سراغ بھی ملے گا۔ آپ مشرقی لندن میں الفورڈ کے عظیم جڑواں ٹاورز کے نیچے چند گھڑیاں کھڑے ہو جائیں اور ان 30منزلہ سربفلک ٹاورز کے مالکوں کا کسی سے بھی پوچھ لیں ؟ چار سال ہونے والے ہیں آپ کے مسلسل اقتدار کو عوام پنکھے کی ہوا کو ترس رہے ہیں۔ صحت اور تعلیم یہ وہ بنیادی ادارے ہیں جو ریاست ہر لمحہ اپنی نگرانی میں رکھتی ہے۔ غیر جمہوری حکمرانوں کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مسلسل مجرمانہ غفلت سے انہیں تباہ و برباد کر دیاہے۔ آج ان کا حصول اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ عوام کی رسائی سے باہر ہیں، ابھی تک آپ نے پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد نہیں کیا۔ اور نہ کبھی کریں گے۔ کس منہ سے آپ اچھی گورنس کا ڈھول پیٹتے ہیں؟۔ لاہور کے قلب میں دن دیہاڑے دو عورتوں سمیٹ 14بے گناہ مار دیے جاتے ہیں ۔ ابھی تک آپ ذمہ داری کا تعین نہیں کر سکے بلکہ مجرمانہ مداخلت سے اس کی رپورٹ نشر نہیں ہونے دئے رہے۔ اُدھر خیبر پختون خواہ میں مشال خان کا بے گناہ قتل ہوتا ہے ، اس مظلوم کی قبر کی مٹی سوکھنے سے پہلے تمام ذمہ داران جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے ہیں۔ ہر وہ شخص جس نے مشال خان کو ایک پتھر بھی مارا ہوتا ہے آج کٹہرے میں کھڑا ہے۔ یہ ہوتا ہے نتیجہ پولیس کو سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد کرنے کا۔ لیکن ہمیں معلوم ہے اگر آپ کو خدا نخواستہ میرے قلم کے منہ میں خاک عوام نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر ایک موقع اور دے دیا تو پھر بھی آپ ایسا نہیں کریں گے۔ کیونکہ آپ اداروں کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کا مطلب اپنے پاؤن اکھڑنا سمجھتے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کو ترستے میرے لوگو ان حکمرانوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے بے تحاشہ دولت جمع کرو وقت آنے پر مخصوص طبقات پر اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر عوام کے ووٹ بٹور لو، یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ پچھلے ہفتے کراچی پریس والوں کو پنجاب حکومت کی طرف سے اڑھائی کروڑ کا چیک جاری ہوا ہے۔ جس کی کاپی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، اس کے اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ بڑے بڑے نامور لکھاری اپنے اپنے قلموں کے اُستروں کی دھار کو تیز کر کے تمہاری واحد اُمید کا گلا کاٹ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تمہاری وہ واحد اُمید ایک غیر روایتی سیاست دان ہے، جو جھوٹ نہیں بولتا۔ جو بدعنوان نہیں ہے، جو بدعنوانی کے تند طوفان کے سامنے اکیلا ڈٹا کھڑا ہے۔ اصغر خان جیسے بہتر انسان کو تم اپنی غفلت کے سبب ضائع کر چکے ہو اسے ضائع نہ ہونے دینا، اسے ضائع نہ ہونے دینا میرے اچھے لوگو۔
فیس بک کمینٹ