ہمارے بہت سارے لکھنے والے اور دوسرے باشعور طبقات ایک بنیادی بات کا خیال نہیں رکھتے، وہ سیاسی جرنیلوں پر تنقید کرتے ہوئے فوج کا نام استعمال کرتے ہیں۔ فوج ایک ادارے کی حیثیت سے اس غیر احتیاطی رویے کے سبب بدنام ہوتی ہے۔ اصل ذمہ دار تو چند ایک اونچی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے وہ لوگ ہوتے ہیں سیاست کا خون جن کے منہ کو لگ چکا ہے۔ اور خدا لگتی کہیں تو سب جرنیل بھی قصور وار نہیں ہوتے، ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو مکمل طور پر ایک پیشہ ور سپاہی ہوتے ہیں۔ خوددار محب وطن اور اپنے حلف کی پاسداری کرنے والے۔ ہر جرنیل ایوب خان، یحیٰ خان، ضیا اور مشرف نہیں ہوتا۔ اب یہ دیکھنا ادارے کا کام ہے کہ ان جیسے کردار جنہیں کرنیلی سے ہی سبک دوش کر کے گھر بھیج دیا جانا چاہیے اعلیٰ سطح تک کیسے پہنچ جاتے ہیں، جہاں یہ لوگ ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ ساتھ اپنے ادارے کی ساکھ کو بھی ملیامیٹ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پھر بعد میں جنرل کیانی جیسے راست باز جرنیلوں کو نئے سرے سے ساکھ بحال کرنے کی بنیادیں استوار کرنا پڑتی ہیں۔ میں بات کر رہا تھا فوج کی، فوج ہے کیا؟۔ یہ بنیادی طور پر چھ ساڑے چھ لاکھ افراد پر مشتمل ایک خاندان جیسا ادارہ ہے، نیوی اور ایئرفورس دو چھوٹے بھائی ہیں، اور مکمل طور پر غیر سیاسی اور شریف النفس بھائی،بری فوج بڑا اور بالا دست بھائی ہے۔ یہ لاکھوں سپاہیوں ،لانس نائیکوں ،حوالداروں ،حوالدار میجروں ، نائب صوبیدواروں ،صوبیداروں، صوبیدار میجروں، آنریری کپتانوں پر مشتمل ادارہ ہے۔ جو الف سے ی تک عوام میں سے ہیں۔ ان کے مسائل اور عوام کے مسائل میں انیس بیس سے زیادہ کا فرق نہیں ، اس کے بعد بالائی سطح کے افسران آتے ہیں ، جنہیں ہم کمیشن افسران کہتے ہیں، ان میں سے ستر فی صد میجرکے رینک سے ریٹائر ہو جاتے ہیں، باقی کے تیس فی صد میں سے پچیس فی صد کرنیلی کے عہدے سے سبک دوش ہو کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔ یہ ہے جناب وہ فوج جو کسی بھی حوالے سے نہ کسی بدعنوانی میں ملوث ہے اور نہ ہی کسی غیر پیشہ ورانہ سرگرمی میں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ریٹائرمنٹ کے دوسرے دن سے ہی گھر چلانے کے لیے کسی مناسب نوکری کی تلاش میں پھر سے نکل پڑتے ہیں۔ پھر خرابی کہاں پر ہے؟۔ یہ صرف اعلیٰ سطح کے ایک خاص حصے میں موجود ہوتی ہے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سیاست سیاست کھیلتے ہیں، اور یہ کلب اب اس کام میں پیشہ ور سیاست دانوں سے زیادہ ماہر ہو چکا ہے۔لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ سیاسی شطرنج کے ان خود ساختہ ماہرین نے جب بھی آخری داؤ کھیلا ہمیشہ مات کھائی۔ مثلاً جب انہوں نے بھٹو جیسے قدآور لیڈر کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا، اس وقت بھٹو صاحب سیاسی حوالے سے کمزور ہو چکے تھے۔ وہ جن غیر جمہوری طور طریقوں کو اختیار کر چکے تھے اگر ان کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا جاتا تو نوے کی دہائی ختم ہونے سے پہلے ہی وہ اپنی زندگی میں ہی اس سطح تک پہنچ جاتے جہاں ان کی جماعت آج کھڑی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جب جنرل مشرف نے مشرف بہ سیاست ہونے کا ارادہ کیا اگر اس وقت ایسا نہ کرتے تو آج ہماری فصیلوں سے مسلم لیگ ن کے پرچم کافی دیر پہلے کے اُتر چکے ہوتے۔ آج پھر یہ کلب کچھ ایسا ہی سوچ رہا ہے، ان کے ایک بھونپو نے اپنے پروگرام میں اعلان کیا ہے، اب کی بار مارشل لاء آیا تو اصلی والا آئے گا۔ ملک کا وزیر اعظم سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ اس کا سیاسی وجود صرف تین ریشوں والی رسی سے بندھا جھول رہا ہے۔ ان میں سے ایک ریشہ بھی ٹوٹ گیا تو وہ سیاسی کھائی میں جا گرے گا۔ ایسے میں اسے ڈان لیک کی بندوق سے مارنے میں کونسی دانشمندی ہوگی؟۔ اور جہاں تک بات ہے ان نام نہاد سیاست دانوں کی، آخری تجزیے میں جمہوریت کے وجود کو اگر براہ راست کسی سے کوئی خطرہ ہے تو وہ یہی لوگ ہیں۔ اس لیے کہ عوام سے براہ راست کوئی رابطے میں ہوتا ہے یا عوام کے سب سے قریب تو وہ سیاست دان ہوتا ہے کوئی جرنیل نہیں۔ اس کے باوجود عوام سے مضبوط رشتہ استوار نہ کر سکنا یہ کس کی کمزوری ہے؟۔ اس چیز کے براہ راست ذمہ دار وہ سیاست دان ہیں جو اپنی اپنی پارٹیوں کے تاحیات بادشاہ سلامت ہیں۔ جنہوں نے پارٹیوں کو خاندانی راجواڑے بنا کر رکھ دیا ہے۔ جن کی جماعتوں کی عوام تک رسائی صرف علاقائی طور پر چند ایک چناؤ کے قابل لوگوں تک محدود ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کے گھر وں میں کسی سیاسی فلسفے یا اخلاق کی کوئی کتاب پڑھی پڑھائی نہیں جاتی۔ جو صرف مرغ بادِ نما ہوتے ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت اپنے بنیادی اصول و ضابطے کے تحت رائج ہے وہاں کوئی بھی طاقتور ادارہ اسے خوف زدہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک طرف اوپر والا پاٹ سیاست کا کھیل کھیلنے والے چند ایک جرنیل ہیں جو اپنے ادارے کی قوت کا غلط استعمال کرتے ہیں، دوسری طرف نچلا پاٹ انہی کی طرف سے پے در پے کبھی خفیہ کبھی اعلانیہ NROکے ذریعے مسلط کردہ بدعنوان سیاست دان ہیں ، جو عوام کے منہ سے نوالے چھین کر بیرون ممالک دولت کے ڈھیر لگاتے ہیں، یہ چکی کے دو پاٹ ہیں جن کے درمیان عوام پس رہے ہیں، سچ یہ ہے کہ یہ دونوں بے رحم ہیں ، آج پاکستان کا اقوام عالم کی برادری میں جو مقام ہے ، وہ نہایت شرمناک ہے۔ اس کے پاسپورٹ کی حیثیت دنیا کے200 ممالک کی فہرست میں 197نمبر پر ہے۔ کیا اس کے نیچے بھی کوئی اور کھائی ہے جس میں ہمیں گرنا ہے؟حکومت وقت سے ہم جیسوں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟۔ ہاں مگر نظام کو ہم بچانا چاہتے ہیں۔ وہ پارلیمانی جمہوری نظام جس کا پاکستان کے آئین نے عوام سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ہم اس حکومت سے گلو خلاصی چاہتے ہیں مگر ووٹ کے ذریعے۔ ملک و قوم کی نجات کا ایک ہی راستہ ہے ، وہ ہے آئین و قانون کی بالا دستی ۔جنرل باجوہ ایک صلح جو اور آئین کا احترام کرنے والے جرنیل بتائے جاتے ہیں۔ اب فیصلہ انہی کوکرنا ہے کہ۔ Notification is Rejected جیسے الفاظ آئین کے مطابق ہیں یا آئین کے منہ پر تمانچہ؟۔
فیس بک کمینٹ