پاکستانی جمہوریت کا اصل المیہ یہ ہے کہ اسے آج تک جمہوری انداز سے برتا ہی نہیں گیا۔زیادہ وقت تو غیر جمہوری قوتوں نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کیے رکھا۔ جمہوریت کو پنپنے کا کوئی موقع ہی نہیں دیا۔ جب ہرطرف سے ناکامی نے گھیرا تنگ کیا تو دنیا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جمہوریت کا ڈھونگ رچایا گیا۔ ایسے وقت ایک بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ مراعات یافتہ جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقے کو جمہوریت کے نام پر اس طرح مسلط کیا جائے کہ جمہوریت بدنام ہو اور عوام اس سے مزید متنفر۔اس کے لیے کیا کیا ہتھکنڈے اختیار کیے گئے ؟ کس طرح مذہب کو آلہ کار کے طور پر برتا گیا؟ یہ ایک الگ اور دلفگار موضوع ہے۔ اس وقت ہمارا موضوع حکمران جماعت اور اس کے زیر سایہ ملک اور عوام کی حالت زار ہے۔ سورج کے مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں غروب ہونے جیسی سچائی یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف اپنی سیاسی جدوجہد سے نہیں بلکہ غیر جمہوری قوتوں کی اشیر باد سے سیاست کے افق پر اُبھرے۔ عوام نہیں بلکہ جنرل جیلانی، جنرل ضیا الحق، جنرل حمید گُل کی پے درپے مہربانیوں سے انہوں نے سیاست کے درجات طے کیے۔ جب میاں صاحب کا سورج سیاسی آسمان کے نصف النہار پر چمکنے لگا تو انہوں نے عوام کا معیار زندگی بلند کر کے جمہوری سیاست کے قدم مضبوط کرنے کی بجائے محض اپنے اقتدار کو وسعت دینے اور مطلق العنانیت کی نئی سے نئی راہیں تلاش کرنے کی خاطر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی۔ جس کی وجہ سے انہیں اقتدار سے دو مرتبہ ہاتھ دھونے پڑے۔ اپنے سابقہ دونوں ادوار میں انہوں نے اداروں کو جمہوری طرز عمل سے مضبوط بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔بلکہ اس کے برعکس ان کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی۔ سپریم کورٹ کو اپنے ارادوں کی راہ میں رکاوٹ محسوس کیا تو اس پر لاٹھیاں ڈنڈے لے کر چڑھ دؤڑے۔ یہ پوری بیسویں صدی کے اندر جمہوری بندوبست میں ایک سیاہ ترین مثال تھی۔ ایسا سیاہ داغ جو آج تک ہماری شاندار جمہوری جدوجہد کے ماتھے پر قائم ہے اور مٹائے نہیں مٹ رہا۔ تیسری دفعہ اقتدار میں آکر بھی انہوں نے اداروں کو مضبوط بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ مثلاً پولیس ، انتظامیہ ، عدلیہ ، سے لے کر محکمہ مال ، تعلیم ، صحت سب سے کھلواڑ کیا۔ انہیں پہلے سے بھی زیادہ برباد کیا۔ پولیس ، تھانہ کچہری، تحصیل، ہسپتال ، سکول ، وہ جگہیں ہیں جہاں عوام کا روز مرہ کا واسطہ ہوتا ہے۔ انہیں اس حد تک برباد کیا کہ تعلیم اور صحت عوام کی رسائی سے ہی دُور چلے گئے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ وہاں نہ بستر ہے نہ دوا،عوام نجی ہسپتالوں کے اندر بیٹھے ہوے بھیڑیوں کے ہاتھوں کھال کھنچوانے پر مجبور ہیں۔ ڈلیوری سے لیکر اپنڈکس کے معمولی آپریشن کے لیے بھی پچاس ہزار سے ایک لاکھ وصولے جاتے ہیں۔ اس طرز حکومت سے چھ کروڑ عوام غربت کی سطح سے نیچے جا چکے ہیں۔ یعنی ان کی یومیہ آمدن تین سو رپوؤں سے بھی کم ہے۔پوری توجہ بڑے بڑے میگا سٹائل منصوبوں پر دی جا رہی ہے۔ جہاں سے جھولیاں بھر بھر کر کمیشن کھرا کیا جاتا ہے۔ اپنے زر خرید کرائے کے اخبار نویسوں سے اس ’’ شاندار‘‘ ترقی پر قصیدے لکھوائے جاتے ہیں۔ بڑے بڑے عہدے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بجائے زاتی و خاندانی وفاداریوں کی بنیاد پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔ جمہوری طرز عمل کی بجائے شاہی طرز پر زندگی گزارنے والے اس حکمران خاندان کی بیرون ممالک جمع کی گئی دولت کے ڈھیروں میں سے صرف ایک ڈھیر پر اعلیٰ عدلیہ سوال پوچھ رہی ہے تو ان سے برداشت نہیں ہو رہا۔ ایک تصویر پر سیاپا برپا ہے۔ ذاتی وفا اور تعلق کی مضبوط سنہری ڈؤر سے بندھے قلم کار اور ممبران اسمبلی باقاعدہ سینہ و سر پیٹ پیٹ کر اس ’’ ظلم ‘‘ کے خلاف دہائی دے رہے ہیں۔ نوحے لکھے جا رہے ہیں اور بین ڈالے جا رہے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے زیر بندوبست تھانوں اور کچہریوں میں عوام روزانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔ ان کی اپنی مرضی سے مقرر کروائے گئے پولیس افسران ان کے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں ؟۔ کاش ذاتی مفاد کی خاطر اپنے ضمیر گروی رکھ دینے والے اس طبقے کو اس طرف بھی توجہ دینے کا وقت ملتا۔حسن اور حسین نواز شریف کو ٹھنڈے کمرے میں کُرسی پر بٹھا کر صرف اتنا پوچھا جا رہا ہے کہ بالغ ہونے سے بھی پہلے وہ ارب پتی کیسے بن گئے؟۔ایک ایک سال میں اپنے والد محترم کو پچاس پچاس کروڑ کے تحفہ جات وہ کہاں سے ادا کرتے ہیں؟۔ وہ والد گرامی جس وقت ان کے بچے ارب پتی بن چکے تھے ایک لاکھ سے بھی کم ٹیکس کیوں ادا کر رہے تھے؟۔ اس پر اتنا واویلہ؟ اتنا شور؟ اتنی گرد؟ کہ سوال پوچھنے والے افسران اور اُن کے بچوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں کھلم کھلا دی جا رہی ہیں، اور اس پر شرم محسوس کرنے کی بجائے اس کو درست ثابت کرنے پر بے ڈھنگی دلیلیں اور بدبودار کالم لکھوائے جا رہے ہیں۔ واہ صاحب واہ۔ یہ ہے وہ جمہوریت جسے آپ ملک کا مستقبل قرار دے رہے ہیں؟۔ جمہوریت اگر ایسی ہی ہوتی ہے تو دنیا کے دیگر کسی کونے کھدرے میں اس کی مثال پیش کر سکتے ہیں آپ ؟۔جی ہاں جمہوریت پر ہمارا ایمان ہے مگر بخدا یہ جمہوریت نہیں جمہوریت کے لبادے میں بدترین فسطایت اور فاش ازم ہے۔ جو عوام کو ہر گز قبول نہیں۔جاتے جاتے مضبوط معیشت کا حال بھی سُن لیں۔ امسال آٹھ ارب ڈالر کے قرضوں سمیت آپ کے پچھلے چار سال کا مجموعی قرضہ پینتیس ارب ڈالر ہو جائے گا، جو پچھلے پینسٹھ سالوں کے مجموعی قرضوں سے بھی زائد ہے، نو سو بیس ارب روپے دفاعی بجٹ، ترقیاتی مد میں ایک ہزار ارب، اور مجموئی قرضوں کی کوئی قسط نہیں بلکہ صرف سود کی مد میں ایک سال کے اندر تیرہ سو چھیاسٹھ ارب روپے ، اور اس پر آپ کے ناجائز اور شاہانہ اخراجات کی وہ شرمناک طویل فہرست جس کو پڑھ کر ہی غصے اور ہیجان کی کیفیت سے عوام کی نسیں تن جاتی ہیں۔ اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔وہ تبدیلی کے خواہش مند ہیں مگر اتنے باشعور ہو چکے ہیں کی وہ تبدیلی کی خاطر آپ کو ایک سیاسی شہادت کا موقع دینے کے حق میں نہیں۔ اور نہ ہی اس مرتبہ اعلیٰ عدلیہ جیسے اداروں کو غنڈہ گردی کا شکار ہونے دیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ ملک و قوم کی بہتری کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ ہے ووٹ کا راستہ۔ اس دن کا انہیں شدت سے انتظار ہے۔ ووٹ کی طاقت سے جمہوریت کے لبادے میں فاشسٹ قوتوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکنے والا دن۔
فیس بک کمینٹ