اقتدار کے ایوانوں میں سازشیں ہوتی ہیں، خواہ وہ جمہوری ایوان ہوں یا غیر جمہوری۔ سازش اقتدار کے جنم لینے کے ساتھ ہی اُس کے گلے میں باندھ دی جاتی ہے۔ یعنی ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خاص کر اقتدار کے پہلو سے اُٹھنے والی سازش اتنی بے رحم ہوتی ہے کہ باپ کے ہاتھوں بیٹے کا قتل اور بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون کروا دیتی ہے۔ ایسی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔جب تک دنیا بادشاہت و آمریت کی چکی کے پاٹوں میں پستی رہی، اقتدار کا فیصلہ تلوار کے ہاتھ میں رہا۔ بلا شبہ تلوار اور سازش دونوں نے ہی مل کر بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ دُور کیوں جائیں اورنگ زیب عالمگیر اپنے سگے بھائیوں اور باپ سے کیسے پیش آئے یہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ تلوار اور سازش کے گٹھ جوڑ کی عبرت ناک مگر دلچسپ کہانی ہے۔مگر جب سے دنیا نے جمہوریت کا تجربہ کیا، اس کے نتائج خوشگوار دیکھے۔ اقتدار کا فیصلہ تلوار اور سازش سے نہیں بلکہ ووٹ کی قوت سے ہونے کا طریقہ رائج ہوا۔یہی وجہ ہے کہ دو صدیوں کے اندر اندر جمہوریت نے کرہ ارض کے بڑے حصے پر اپنا پرچم گاڑ لیا۔آج بھی جہاں جہاں جمہوریت نہیں ہے یا بہت کمزور ہے وہاں عوام کی زندگیاں تلخ ہیں۔ پاکستان کی گزشتہ تاریخ بھی جمہوری اور غیر جمہوری کشمکش کی تاریخ ہے۔ بلاشبہ پاکستانی قوم نے جمہوریت کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ یہ اُسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں اب اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی اب صرف ووٹ سے آئے گی۔گزشتہ دو حکومتیں ووٹ کی قوت سے تبدیل ہوئیں۔ تیسری حکومت اپنے وقت کے آخری حصے میں ہے۔ فوج سمیت ہر بڑے ادارے کا سربراہ منتخب حکومت کے حکم پر مقرر ہوا۔اس کے باوجود وزیراعظم کی صاحب زادی فرماتی ہیں کہ ہماری منتخب حکومت کے خلاف سازشیں رچائی جا رہی ہیں۔ میرے وزیراعظم والد کا سینہ ان رازوں سے اٹا پڑا ہے۔ ڈرو اُس وقت سے جب وہ ان رازوں سے پردہ اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں۔ انہیں مجبور مت کرو۔ سازشیں کرنے والے جانتے ہیں کہ وہ یہ راز اپنے سینے میں دفن رکھیں گے کیونکہ وہ محب وطن ہیں۔فوج سمیت ہر محکمے اور ادارے کا سربراہ انہیں جواب دہ ہے، کیا یہ بات غلط ہے؟۔ ابھی پچھلے دنوں آئی ایس پی آر نے اپنی ایک ٹویٹ کے الفاظ واپس لیے۔ہم سب نے اُس ٹویٹ پر اعتراض کیا تھا مگر جب وہ الفاظ واپس لیے گئے تو ہم نے اُس ادارے کی ستائش کی۔ یہ کس بات کی علامت تھی؟۔ کیا یہ جمہوریت کی مضبوطی اور سول بالا دستی کی علامت نہیں تھی۔ اس کے باوجود منتخب حکومت کے خلاف سازشیں رچائی جا رہی ہیں ؟۔ مگر کہاں پر۔ کیا جے آئی ٹی میں شامل فوج کے دو ذیلی اداروں کے نمائندے یہ کام کر رہے ہیں؟۔ مگر انہیں تو فوجی قیادت نے نہیں سپریم کورٹ نے مقرر کیا ہے۔تو کیا سپریم کورٹ یہ سازش رچا رہی ہے؟۔آپ عوام پر بات واضح کیوں نہیں کرتے؟۔ ابہام کیوں پھیلا رہے ہیں؟۔وزیر اعظم سمیت اُن کے ہر فیملی ممبر نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد ابہام پھیلایا۔ باہر نکل کر خطاب کیا۔ سوالات کا سامنا کرنے سے اعتراض کیا۔جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے پہلے کی لکھی اور رٹی رٹائی تقریریں فرمائیں اور پیٹھ موڑ کر وکٹری کے نشانات بناتے نظروں سے اوجھل ہوتے رہے۔مریم نواز صاحبہ کی تقریر کے دﺅران وزیراطلاعات صاف سنائی دینے والی سرگوشیوں میں سوالات نہ لینے کی ہدایات دیتی رہیں۔ کیا یہ جمہوری رویہ ہے؟۔ سب نے ایک بات زور دے کر کہی کہ ہمارا قصور کیا ہے۔ کیا آپ کو واقعی نہیں معلوم؟۔یا عوام کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں؟۔معمولی سے چھپر ہوٹل کے بیرے سے لے کر جنگل میں بکریاں چرانے والے چرواہے تک کو معلوم ہے کہ آپ پر الزام کیا ہے ، مگر حیرتوں کو بھی حیران کر دینے والی حیرت یہ ہے کہ خود آپ کو معلوم نہیں؟۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ اگر آپ کے سینے میں جمہوریت کے خلاف پکنے رچنے والی سازشوں کے راز محفوظ ہیں تو اس کا فائدہ کس کو پہنچ رہا ہے؟۔ کیا جمہوریت کو؟۔کیا عوام کو ؟۔کیا یہ حب وطن کی علامت ہے؟۔ وہ وطن جس کا مستقبل ہی جمہوریت سے وابسطہ ہے۔نہیں جناب عالی ان رازوں کو سینوں میں قید کر دینے سے ، ان پر گہرا پردہ ڈال دینے سے ، نہ جمہوریت نہ عوام کو اور نہ ہی ملک کو کوئی فائدہ ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اسے عوام سے چھپانے میں ہر گز کوئی بھلائی نہیں ہے۔اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آپ ایسا ابہام پھیلا کر دراصل عوام کو بے وقوف بنانے کے درپے ہیں۔ بات سیدھی اور صاف ہے۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانامہ آپ کے خلاف کوئی سازش نہیں ہے۔ کیا پوری دنیا کے دو سو سے زائد چوٹی کے صحافیوں نے ن لیگ کے خلاف سازش رچائی ہے؟۔یا اس کے پیچھے عمران خان ہے؟۔ یا دیگر حزب اختلاف؟ یا فوج اور اس کی کوئی ایجنسی؟۔ نہیں حضور یہ سازش نہیں کرموں کا پھل ہے۔چلیں آپ کو ایک چھوٹ دیتے ہیں۔ دو منٹ کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ مے فیر والے چھ سو کروڑ مالیت والے فلیٹ اور دیگر پہاڑ جتنی دولت سب کی سب آپ کے خون پسینے کی کمائی ہے۔ اس پر ٹیکس کا ایک دھیلا بھی واجب الادا نہیں ہے۔ تو کیا ایک حکمران اور اُس کے خاندان کے لیے اربوں کی دولت بیرون ملک منتقل کر کے وہاں کاروبار کرنا اور کروڑوں کا ٹیکس ادا کرنا زیبا ہے جبکہ اس کے اپنے عوام بھوکے مر رہے ہوں؟۔جس ملک کی پچاس فی صد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے بسر کرنے پر مجبور ہو اور باقی کی تیزی کے ساتھ ڈھلوان پر لُڑھک رہی ہو اس ملک کے ساتھ یہ کونسی محبت ہے جناب عالی؟۔نہیں صاحب نہ یہ سازش ہے اور نہ ہی سیاست۔ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ آپ سے پوچھیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟۔ مریم نواز صاحبہ نے ساری قوم کے سامنے یہ کہا ،میرے نام پر کوئی جائداد نہیں ہے۔ نہ ملک کے اندر نہ ہی باہر۔ ملک کے باہر لندن جیسے شہر کے قلب میں واقع اُن کے نام پر بہت کچھ اب ثابت ہو چکا ہے۔ انہوں نے پوری قوم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ جھوٹ کیوں بولا؟۔کیا انہیں اپنی اس غلط بیانی پر قوم سے معافی نہیں مانگنی چاہیے؟۔ قوم کی بیٹی اپنی قوم سے یہ حساب کب بے باک کر رہی ہے؟۔
فیس بک کمینٹ