گیارہ جولائی کی صبح سیالکوٹ کے نئے ہوائی اڈے پر اُترے تو گرما کے تپتے ہوئے جھونکوں نے استقبال کیا۔ مگر وطن کی مٹی کی خوشبو اور اپنوں سے گلے مل کر من ٹھنڈا ٹھار ہو گیا۔ چکوال پہنچتے پہنچتے شام ڈھل آئی۔جوں ہی اپنے گاﺅں چوہان کی طرف جانے والی ذیلی سڑک پر قدم رکھا تو نئی نویلی سڑک کا نکھرا ہوا روپ دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ چند کلو میٹر بعد یک لخت نئی سڑک نے اچانک ساتھ چھوڑ دیا، پرانی سڑک کے کھڈوں نے یاد دلایا کہ میاں تم دیہاتی ہو اپنی اوقات میں رہو۔ معلوم کرنے پر خبر ملی کہ اس سڑک کے درمیان والے چند کلو میٹر کو اس لیے چھوڑ دیا گیا کہ اس پر واقع گاﺅں موضع بھبھڑکے لوگوں نے پچھلے بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کو ووٹ نہ دینے کی گستاخی کی ہے۔ جس کی انہیں سزا دینابھی ضروری تھی۔ اس گاﺅں کے ایک سیاسی ورکر مہر ساجد بتا رہے تھے کہ ہمیں اس گستاخی کی قرار واقعی سزا مل رہی ہے۔لوگ نئی سڑک پر سپیڈ سے آتے ہیں جب اچانک قدموں تلے سے سڑک نکلتی ہے تو سنبھل نہیں پاتے۔ آئے روز ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ چند دن پہلے ایک انسان نے اسی وجہ سے اپنی دونوں ٹانگیں کھو کر ساری زندگی کی معذوری کو گلے لگایا ہے۔ کس دن ہمارے سیاست دان سیاسی طور پر بالغ ہوں گے۔ کس دن انہیں اس جمہوری سچائی کا علم ہوگا ، کہ جب آپ منتخب ہوجاتے ہیں تو پھر اُن لوگوں کے نمائندے بھی ہوتے ہیں جن لوگوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا ہوتا۔اس گاﺅں سے آگے میرے گاﺅں تک کی سڑک بھی نئی نئی تعمیر ہوئی ہے۔ جو سینیٹر جنرل عبدالقیوم صاحب کے کوٹے سے ہمیں ملی ہے۔ شکریہ جنرل صاحب۔ مگر اس سڑک کے اعلیٰ معیار پر سب سے دلچسپ تبصرہ میرے گاﺅں کے ایک کسان محمد اشرف گوندل نے کیا، اُس کا کہنا تھا کوئی جا کر جنرل صاحب کو بتائے کہ یہ سڑک اتنی مضبوط ہے کہ میری گدھی کے کھروں کی دھمک بھی برداشت نہیں کر پاتی۔ جانوروں کے کھروں سے اس پر بچھائی جانے والی بجری اُڑ اُڑ جاتی ہے، جنرل صاحب کوکسی دن دیگر قومی معاملات سے فرصت ملے تو اس سڑک پر بھی اپنی قیمتی گاڑی کے ٹائر چڑھا کر اس کی عزت میں اضافہ فرمائیں اور ہمیں ٹھیکے دار سے پوچھ کر بتائیں کہ چھ کروڑ کی رقم میں اتنی سکت کیوں نہیں ہے کہ کم از کم اس پر تارکول تو اصلی والی ڈالی جا سکتی۔دوسرے دن میں جنرل صاحب کے ہی گاﺅں میں منعقد ہونے والے سالانہ میلے پر گیا۔ اس لیے کہ عوامی رائے کو جاننے کے لیے میلوں ٹھیلوں سے بڑھ کر کوئی جگہ مناسب نہیں ہوتی۔ موضع پادشہان کا سالانہ میلہ چکوال کے علاقے میں اپنی تاریخ رکھتا ہے۔ حضرت شاہ چراغ چوہانوی رح کے ایک مُرید صوفی حضرت پیر شاہ کے دربار پر ہر سال گرمیوں میں منعقد ہوتا ہے۔ دو ہفتے پہلے ہی سٹال والے اپنا اپنا سامان باندھ کر یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔ میں شام کو وہاں گیا۔ تمام دکان دار اور ٹھیلوں والے اپنا اپنا سامان سجا رہے تھے۔ جلیبیاں اور اندرسے تلے جا رہے تھے۔ پھلائی کے پھولوں کی مہک اور گرما کرم جلیبیوں کی خوشبو نے پورے ماحول کو معتر بنا رکھا تھا۔ مجھے اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب وہاں کے دکان دار اور میلے پر آئے ہوئے قرب وجوار کے دیہاتی کسان سیاست پر بھی تبصرہ کر رہے تھے۔ یقین جانیں اُن کے تبصرے اور تجزیے بہت سارے ٹی وی ٹاک شوز سے زیادہ جان دار تھے۔ ان عوام کو معلوم ہے کہ کون سا ٹی وی اینکر اُن کے بھلے کی بات کرتا ہے اور کونسا حکمرانوں کے دربار کا حصہ بن کر انہیں گمراہ کر رہا ہوتا ہے۔ سب لوگ جے آئی ٹی کے ممبران کے حوصلے کی داد دے رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک ایسا دن بھی طلوع ہوگا جب ان طاقتور حکمرانوں سے جواب طلب کیا جائے گا۔ میں وہاں سے گھر آیا تو وہاں محلے گاﺅں برادری کی عورتیں اکٹھی بیٹھی تھیں وہاں بھی یہی تبصرے تھے۔ ایک خاتون نے مجھ سے سوال کیا کہ بیٹا عدالت سے ہمیں کوئی انصاف ملے گا یا نہیں۔ دوسری بولی کیا عدالت میں اتنی سکت ہے کہ اتنے طاقتور حکمرانوں کو جھیل سکے۔ وہاں پر میری بہن بولی جس کا سیاست سے دُور دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں سوائے نماز روزے اور مذہبی رسومات میں شرکت کے، کہ اگر جے آئی ٹی میں اتنی سکت ہے تو عدالت میں اتنی کیوں نہیں ہوگی۔ میں اپنی انگلیاں دانتوں میں دبائے گنگ سنتا رہا۔اب زمینی حقیقت جو میں نے ان تین چار دنوں میں دیکھی وہ یہ ہے کہ تمام سیاسی مہرے تو اپنی جگہ قائم ہیں، لیکن عوام اپنی رائے تقریباً بدل چکے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کی راے بھی سُنی جو گزشتہ تیس سال سے حکمران جماعت سے وابستہ ہیں مگر اب کہہ رہے ہیں کہ آخر ضمیر بھی کوئی شے ہوتی ہے۔ اب جب کہ حکمرانوں کا چہرہ کھل کر ہمارے سامنے آچکا ہے ہم اپنے ضمیر کو آخر کتنی مار ماریں۔ اور دیہاتی کسان کو جتنا اس حکومت نے کُچلا ہے شاید ہی کسی دوسری حکومت نے ان پر اتنا ظلم کیا ہو۔ جو حکومت ایک کسان کو بار دانہ دیتے وقت بھی اُس کی سیاسی وابستگی دیکھ کر معمولی سی بوری اُس کے ہاتھ میں تھمائے اُس حکومت کی قلبی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اب یہ کسان انتخابات والے دن پولنگ بوتھ میں جاکر تھانے کچہری کے نظام کو اپنے بے رحم پنجوں میں جکڑے ہوے روایتی سیاست دانوں کا کس حد تک مقابلہ کر پاتے ہیں ۔ یہ تو الیکشن والے دن ہی معلوم ہو سکے گا۔ تیسرے دن ٹی وی کے سامنے بیٹھنے کا موقع ملا تو وہاں پھر سے گمراہی کا سبق۔ کہ عدالت نواز شریف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر پائے گی یا نہیں؟۔ ان جاہلوں کو کم از کم سوال تو درست کر لینا چاہیے۔ جناب عدالت کا کام کسی کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ہی نہیں۔ اس کا کام الزامات کا فیصلہ کر کے کسی کو بے گناہ یا گناہ گار ٹھہرانا ہے۔ سیاسی مستقبل کا فیصلہ عوام کا کام ہے۔ نواز شریف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہم عوام نے کرنا ہے۔ اور وہ انشااللہ ہم کر کے رہیں گے۔ جب شہر کا مزدور اور دیہات کا کسان اپنی کمر کو سیدھا کر کے اور پیشانی سے پسینہ پونچھ کر کوئی سیاسی فیصلہ کرتا ہے تو ٹھیک ہی کرتا ہے۔ اسے یہ فیصلہ کرنے دیجیے ۔
فیس بک کمینٹ