اس ریاست کے بانی اور نہ ہی اُن کے ساتھ جدوجہد کرنے والوں کے دل و دماغ میں کوئی اس بارے ابہام تھا کہ پاکستان کا طرز حکومت کون سا ہو گا۔وہ پارلیمانی طرز جمہوریت پر ایمان رکھتے تھے۔ ایک عظیم قانون دان تھے اور قانون کی حکمرانی پر دل سے یقین رکھتے تھے۔لیکن ہماری بدقسمتی کہ دفتر قدرت نے انہیں اتنی مُہلت نہ دی کہ اپنی نگرانی میں ایک جمہوری آئین مرتب کروا جاتے۔یہ کام ریاست کے قیام کے چھبیسویں برس جا کر پایہ تکمیل تک پہنچا۔مقام شُکر ہے کہ آج ہمارے پاس گو زخمی سہی مگر ایک جمہوری آئین ہے۔بانی کے جلد اس دُنیا کو چھوڑ جانے اور پچیس برس تک کسی جامع آئین کے بغیر اس ریاست کا بہت نقصان ہوا۔ اس نقصان کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ پہلے عام جمہوری انتخابات ریاست کے قیام کے چوبیس برس بعد منعقد ہوئے ۔اسی دوران غیر جمہوری قوتوں نے خود کو بہت مضبوط بنا لیا تھا۔جب انہیں دنیا کو دکھانے کی خاطر بادلِ نخواستہ جمہوری لبادہ اوڑھنا بھی پڑا تو پوری کوشش کی کہ جمہوری قیادت مڈل کلاس کے پڑھے لکھے طبقے سے اُبھرنے نہ پائے۔اس کام کے لیے پہلے پہل جاگیر دار اشرافیہ کا انتخاب ہوا بعد میں یہ قرعہ سرمایہ دار اشرافیہ کے نام نکلا۔جب کھیت مزدور کا مقدمہ جاگیر دار کی عدالت میں اور فیکٹری ورکر کا سرمایہ دار کے روبرو تو نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکلا۔ آج نہ کھیت مزدور کے پاؤں میں جوتا ہے نہ فیکٹری ورکر کے جسم پر ڈھنگ کا لباس۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک عظیم سیاسی رہنما تھے۔انہوں نے قوم کو ایک متفقہ جمہوری آئین دیا،اور جمہوریت کو متعارف کروایا۔مگر شومئی قسمت وہ جمہوری کلچر کو پروان نہ چڑھا سکے۔لیکن مقتدرہ سے اتنا بھی برداشت نہ ہوا۔انہیں غیر جمہوری طریقے سے راستے سے ہٹایا گیااس حقیقت کو سمجھے بغیر کہ کسی بھی سیاست دان کو غیر جمہوری طریقے سے جب بھی ہٹایا گیا وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر اُبھرا۔سیاست اور سماجیات پر گہری نظر رکھنے والے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو غیر سیاسی طریقے سے ہٹانے کی سازش نہ رچائی جاتی تو وہ زیادہ سے زیادہ ایک اور الیکشن کی مار تھے۔ اُن کے غیر جمہوری طور طریقے انہیں تیزی سے غیر مقبول بنا رہے تھے۔مگر ہماری مقتدرہ نے سب کچھ سیکھا ہے سوائے تجربے سے کوئی سبق حاصل کرنے کے۔یہی تجربہ انہوں نے پے درپے میاں نواز شریف اور بے نظیر کے ساتھ دوہرایا اور ہر بار ایک جیسا نتیجہ دیکھ کر اور بار بار منہ کی کھا کر بھی سبق نہ سیکھنا تھا نہ سیکھا۔میاں نواز شریف اور نہ ہی اُن کی جماعت کبھی جمہوریت پسند تھے اورنہ ہی انہوں نے اپنے دل میں اس طرح کا کوئی روگ کبھی پالاتھا۔ لیکن شاباش صد شاباش ہماری مقتدرہ کو کہ ان کی مساعی جمیلہ اور بصیرت کاملہ کے سبب آج وہ جمہوری کشتی کے اکلوتے کھیون ہار بن کر اُبھر رہے ہیں۔ آج پاکستان کے متعلق اندرون اور بیرون ملک سب سے بڑا موضوع یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر سے جمہوریت خطرے میں ہے۔وہ لوگ بھی اس کے دفاع میں لنگر لنگوٹ کس رہے ہیں جنہوں نے اسے قدم قدم پر رسوا کیا تھا۔اب عوام اس حقیقت کو سمجھنے لگے ہیں کہ جمہوریت کی راہ میں اگر دو رکاوٹیں ہیں تو پہلے نمبر پر یہ نام نہاد جمہوری سیاسی قوتیں ہیں اور دوسرے نمبر پر کوئی اور ہے۔دنیا بھر کی کوئی بھی مقتدرہ سیاست دانوں سے کبھی بھی خوش نہیں رہی۔آج جہاں جمہوریت صدیوں سے پاؤں جمائے کھڑی ہے وہاں بھی نہیں۔مگر یہ سیاست دان ہوتے ہیں جو اپنے طرز حکمرانی ، طرز حیات ، دور رس بصیرت و بصارت سے جمہوریت کو پاؤں پر کھڑا رکھتے ہیں۔اپنی قوم اور ریاست کو بڑے بڑے طوفانوں سے نکال لاتے ہیں۔ کیا ہمارے سیاست دانوں نے کبھی کوئی ایسا مظاہرہ کیا؟۔یہ ٹھیک ہے کہ ملک انہوں نے دولخت نہیں کیا اور نہ ہی اسے جنگ وجدل اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا۔ مگر جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے میں کونسا کردار ادا کیا؟۔انہیں جتنا بھی اختیار ملا اس کی محدودیت اور تنگ دامنی کے باوجود عوام کی بھلائی کے لیے کونسا کارنامہ سرانجام دیا؟۔ انہیں صاف پانی ، سستی اور معیاری تعلیم، روزگار،انصاف ،اور علاج معالجے کی سہولیات دینے میں کتنے وسیع اختیارات کی ضرورت تھی؟۔ ان سے اتنا بھی نہ ہو سکا۔ اگر اتنا کچھ ہی کر جاتے تو آج عوام سے جمہوریت کے نام پر ہمدردی کی بھیک نہ مانگ رہے ہوتے۔انہیں اس حقیقت کی کب سمجھ آئے گی کہ مضبوط جمہوریت جمہور کے مضبوط ہونے سے ہوتی ہے۔جن لوگوں نے جمہوریت اپنی جماعتوں کے اندر گھسنے نہیں دی وہ اسے آج ملک میں نافذ کرنے کا علم بلند کر رہے ہیں۔تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ آج کے سیاست دان اور غیر جمہوری قوتیں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مہرے ہیں۔ غیر جمہوری قوتیں ایک سے حساب برابر کرنے میدان میں اُترتی ہیں تو دوسرا بڑھ کر اسے کندھا پیش کرتا ہے۔مسلم لیگ اور پی پی پی کی گزشتہ تیس چالیس سال کی کیا یہی تاریخ نہیں ہے؟۔اور آج خان صاحب بھی انہی کے نقش پا پر چل رہے ہیں۔جمہوریت کا راگ سب الاپتے ہیں مگر عوام پر بھروسہ کسی ایک کو بھی نہیں۔ان واقعات پر مجھ جیسا طالب علم بھی قلم اٹھائے تو کالم نہیں کتاب لکھ سکتا ہے ، کہ کب کب اور کہاں کہاں انہوں نے غیر جمہوری قوتوں کے اسپ تازی پر سوار ہو کر جمہوریت کے سینے میں نیزے گاڑے۔دولت کی طاقت سے سرشار سیاست دانوں اور بے مہار مقتدرہ کے ہاتھیوں کی اس بے چہرہ اور بے منزل لڑائی میں گھاس کُچلی جا رہی ہے۔ اب تو وہ اتنی کُچلی جا چکی ہے کہ اسے پھر سے ہرا ہونے کی اُمید بھی نہیں رہی۔کیا پانچ پانچ اور دس دس کروڑ کی گاڑیوں میں سوار سیاست دانوں اور اپنے اونچے بااختیار عہدوں کی طاقت سے سرشار افسروں کو اس بات کی فکر ہے کہ آئیندہ بیس سالوں تک ہماری آبادی چالیس کروڑ تک جا پہنچے گی؟۔آج پچاس فی صد سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے لڑھک چکی ہے اور باقی ڈھلوان پر کھڑی ہے۔خدا را پاکستان پر رحم کھایئے۔وہ پاکستان جس نے آپ کو اونچے عہدوں سے نوازا اور آپ کے گھر دولت سے بھرے۔مقتدرہ کب تک خود کو آئین اور قانون سے ماورا سمجھتی رہے گی اور سیاست دان کب تک اپنی ذات اور خاندان کے حصار میں قید رہ کر جمہوریت کے پر کترتے رہیں گے؟۔ آخر کب تک؟۔
فیس بک کمینٹ