وطن عزیز میں جب بھی کوئی بڑا انسانیت سوز حادثہ رونما ہوتا ہے ایک خاص قسم کا مائینڈ سیٹ فوراً کونوں کھدروں سے اس طرح نمودار ہوجاتا ہے جیسے گرمیوں کی شاموں میں گاؤں کے کچے صحنوں سے بنڈے سیٹیاں مارتے نکل آتے ہیں ۔جسے میرے نزدیک اوریائی مائینڈ سیٹ کا نام دے دینا چاہیے بلکہ اسے ان کے نام ٹریڈ رجسٹر کر دینا چاہیے تاکہ جملہ حقوق محفوظ رہیں ۔اس قبیلے کی اکثریت تو بقول اسد مفتی صاحب کشور حسین شاد آباد میں ہی بستی ہے مگر اس جنس کے کچھ دانے آپ کو مغربی ممالک میں بھی مل جاتے ہیں ۔ ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی عقل و شعور کے ساتھ شریکہ پال لینے والے اور باقی کی ساری زندگی اس پر سختی سے کار بند رہنے والے اس طبقے کو جوں ہی خبر ملتی ہے کہ فلاں جگہ یہ واقعہ رونما ہو گیا ہے یہ فوراً زیادہ تر تکبیر ،امت اور حکایات جیسے رسالوں اور اخباروں کا مرتب کیا ہوا ریکارڈاور کچھ اخبار نویسوں کے کالموں کے تراشے کھول کر بیٹھ جاتے ہیں ۔مثلا پچھلے دو دنوں سے ہم قصور میں مسل کر کوڑے میں پھینک دی جانے والی اپنی بیٹی کو رو رہے ہیں اور حکمرانوں کو توہ پھٹ کر رہے ہیں ۔یہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ جناب یہ کوئی صرف پاکستان میں ہی نہیں ہو رہا بلکہ یورپ اور برطانیہ میں بہت بڑے پیمانے پر یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔خدا کے بندو برطانیہ یورپ سکنڈے نیویا میں بچیوں کی نوچی کھسوٹی ہوئی لاشیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے نہیں ملتیں ۔جو صرف قصور کے کوڑے سے اب تک دس برآمد ہو چکی ہیں اور نہ ہی نوزائیدہ بچوں کی کتوں گیدڑوں کی آدھ کھائی نعشیں گندگی کے ڈھیروں سے ملتی ہیں اور نہ ہی یہاں کا کوئی ملا انہیں حرامی قرار دے کر سنگ سار کرنے کا فتویٰ دیتا ہے ۔یہاں ایسے بچوں کو حرامی نہیں انسان کا بچہ سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی ایسے بچوں کو سنبھالنے والوں کے خلاف کوئی پادری ملا کوئی بات کرتا ہے ۔ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں آج بھی پتہ چلے کہ فلاں یورپ کے ملک نے اپنا ویزہ آسان کر دیا ہے تو پہلی فرصت میں اس کے لیے بھاگ دوڑ کریں گے ۔ ارے میرے اچھے اور وطن کی محبت میں شیرے میں جلیبی کی طرح ڈوبے ہوئے بھایئو یہ آپ سے کس نے کہا ہے کہ یورپ اور امریکہ برطانیہ جرائم فری خطے ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں مجرم کلف لگے کپڑے پہن کر سر عام گھوم نہیں رہے ہوتے ۔ریاستیں نیند کی گولیاں کھا کر میٹھی نیند سو نہیں رہی ہوتیں ۔خاص کر بچوں کے معاملے میں یہ لوگ بہت ہی حساس واقع ہوئے ہیں ۔ابھی پچھلے دنوں برطانیہ کے شہر بولٹن میں میرے ایک دوست کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا ہے ۔ ان کے سب بچے میرے سامنے پلے بڑھے ہیں میں نے انہیں کبھی بچوں کو جھڑکتے ہوئے بھی نہیں دیکھا حالانکہ یہ کام اس لکھنے والے سے اکثر سرزد ہو جاتا ہے ۔ہوا یہ کہ وہ مارکیٹ میں خریداری کر کے واپس پارکنگ کی طرف جا رہے تھے ان کا چار سالہ چھوٹا بیٹا بار بار چھوٹے بھائی کے ساتھ واکر میں بیٹھنے کی ضد کر رہا تھا وہ بار بار ریڑھی کو کھینچ رہا تھا باپ نے اسے ایک ہاتھ سے ہلکا سا تھموکہ لگا دیا پاس کوئی گورا کھڑا تھا اس نے متعلقہ محکمے کو فون کر کے ان کی گاڑی کا نمبر بتا دیا ۔ وہ وہاں سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد جب گھر پہنچے تو متعلقہ محکمہ پولیس کے ساتھ ان کے گھر کے باہر موجود تھا ۔ اچھے خاصے گھنٹوں پر طول طویل بحث مباحثے کے بعد انہیں قدرے یقین آیا کہ یہ تشدد کا واقعہ نہیں تھا پھر بھی انہوں نے ماں باپ کو وارننگ دی اور کچھ کورس تجویز کیے ۔یہ ہے مغرب جناب والا ۔ ان سے گزارش صرف اتنی ہے کہ مغرب سے کیڑے نکالنے کی بجائے اپنے گلے سڑے معاشرے پر توجہ دیں اور سب کے ساتھ مل کر پاک سر زمین کے نام والے جنگل کو انسانی بستی بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں ۔مغرب والے دوسروں سے زیادہ اپنے عیبوں پر نظر رکھتے ہیں اور ان کے سدھارنے کے لیے دن رات جتے رہتے ہیں ۔ دوسروں کو چھوڑ اپنی نبیڑ تو
فیس بک کمینٹ