جس دن طلاق واقع ہوئی تھی اس لکھنے والے نے جنگ لندن کے اگلے اتوار کو اس کتاب کے بارے میں پیش گوئی کی تھی ۔ کوئی اطلاع نہیں تھی کوئی خبر نہیں تھی کوئی رابطہ نہیں تھا ۔ بس ایک اندازہ تھا ۔ ریحام ان چند خوش قسمت عورتوں میں سے ہیں جن کا حسن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نکھرتا ہے ۔ یہ چاند اپنی اماوس کو اس وقت پہنچتا ہے جب دوسروں کے چاند گرہن کے گھیروں میں ہوتے ہیں ۔ وقت ان کے پہلو سے ہو کر گزر جاتا ہے۔ سیدھا ٹکراتا نہیں اگر ٹھہرتا بھی ہے تو پانی میں پارے کی طرح ۔خان بھی ایک ایسا ہی خوش قسمت مرد ہے ۔ جس کا مردانہ حسن گرمیوں میں رمضان کے سورج جیسا ہے ڈھلنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ ریحام کی پانچویں عشرے کی حدود کو چھوتی زندگی میں سب سے قیمتی وقت وہ دس ماہ کا وقت تھا جو خان کے پہلو میں کم اور قرب و جوار میں زیادہ بیتا ۔ دسمبر کی شدید سردیوں میں شروع ہونے والا یہ گرم جوش مگر بدقسمت وقت اگلے دسمبر کا چہرہ مگر دیکھ نہیں سکا ۔ ریحام بغیر کسی پیشگی اطلاع کے بہت اونچائی سے منہ کے بل گرائی گئی تھی ۔ انسان جتنی اونچائی سے گرتا ہے تکلیف بھی اتنی ہی سہتا ہے ۔ جب وہ کسی پہاڑ یا بلند عمارت سے گرتا ہے تو تکلیف کم ہوتی ہے ۔ روح بدن کے پنجرے سے جلد ہی آزاد ہو کر کھلی فضاؤں میں اڑان بھر جاتی ہے مگر جب کوئی اس اوتری دنیا کے کسی فراز سے نشیب میں گرتا ہے تو جسم و جاں کی نس نس میں درد اور تلخی گھل جاتے ہیں ۔ روح نہ جسم چھوڑتی ہے نہ سکون سے بیٹھ سکتی ہے ہر وقت پنجرے کی سلاخوں سے سر ٹکراتی پھڑپھڑاتی اور خود کو زخمی کرتی رہتی ہے ۔ ایسے وقت انسان زخمی درندے جیسا بن جاتا ہے جس پر بھی اسے شک ہو جائے کہ اس دھکے میں اس کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے اسے کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے ۔ ریحام کے زخموں پر وقت بھی مرہم نہیں بن رہا جو اکثر بن جایا کرتا ہے ۔ وہ خان کو تباہ و برباد کر دینے پر تلی ہوئی ہے ۔ کم از کم اس کے سیاسی وجود پر تو وہ کاری ضربیں لگانے کو بے چین ہے ۔ وہ لکھنا نہیں جانتی مگر جانتی تو بہت کچھ ہے ۔ اور اس جاننے کو تحریر کے فن میں ڈھالنے والے کہنہ مشق بزرگوں کی ہمارے ہاں کبھی کمی نہیں رہی کوئی مل گیا ہو گا ۔ کتاب ابھی دلہن بن کر عجلہ عروسی میں اتری نہیں کہ اس کی تباہ کاریوں کی دھوم مچا دی گئی ہے ۔ نوجوان حمزہ عباسی جیسا مرد احمق جس کا دوست بن جائے آسمانوں کو اس کی دشمنی سے پھر کیا لینا دینا ۔ ایک ایک پیرا گراف کو پڑھ پڑھ کر بے خبر دلوں میں بھی اشتیاق کی آگ بھڑکا رہے ہیں ۔ وہ لوگ بھی اب اسے پڑھنے کو بے چین ہیں جنہیں لکھنے پڑھنے سے کوئی علاقہ نہیں ۔ یہ لکھنے والا اپنے حلقہ احباب میں الحمدوللہ کتاب دوست کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ مجھے پچھلے دو دنوں سے بیسیوں ان لوگوں کے کتاب بارے فون آ چکے ہیں جنہوں نے زندگی میں بشمول اپنے نکاح ناموں کے کوئی شے دھیان سے نہیں پڑھی ۔ حمزہ کا موقف ہے کہ وہ اپنے اس طریقے سے کتاب کے پتے میں بھرا زہر نکال دیں گے ۔جب وہ منظر عام پر آ ئے گی تو کوئی اسے منہ نہیں لگائے گا ۔ اگر وہ دل سے اس پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں اپنے دل کو اسی حالت میں چھوڑ کر فوراً اپنے دماغ کا علاج کروا لینا چاہیے ۔ مسلم لیگ ن سے وہ بیان حلفی لینے پر مصر ہیں کہ وہ اس کتاب کو سیاسی اشو نہیں بنائے گی ۔ مسلم لیگ ن کو یہ بیان حلفی بقائمی ہوش و حواس پانچ سو روپے کے پیلے پکے کاغذ پر فوراً لکھ کر دے دینا چاہیے ۔ اگر ان کا یہ کام نوجوان اور متحرک حمزہ عباسی اپنے ذمے لے چکے ہیں تو پھر انہیں یہ درد سر لینے کی کیا ضرورت ہے ۔ مملکت خدا داد پاکستان میں غالباً یہ پہلی خوش قسمت کتاب ہے جس کو اپنی اصل شکل و صورت میں تخلیق سے پہلے ہی اتنی ملکی و بین الاقوامی شہرت نصیب ہوئی ہے ۔ اس کی تخلیقی و ادبی حیثیت کیا ہو گی تقریباً اس وقت یہ سوال کافی حد تک بے معنی ہو چکا ہے ۔ بہت سارے لوگ اپنے مچلتے ہوے دلوں کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اوپری منہ سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک انتہائی درجے کی گھٹیا کتاب ہے ۔ اسے شائع نہیں ہونا چاہیے ۔ انہیں شاید معلوم نہیں جس سوسائٹی میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے والی کتاب کا نام ۔ پارلیمنٹ سے بازار حسن تک ۔ ہے اس سوسائٹی میں کتاب کی تخلیقی و ادبی حیثیت پر بحث مباحثہ اپنا سر پھوڑنے والا عمل ہی ہو سکتا ہے ۔ اس کتاب سے خان کی سیاسی حیثیت کو کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا فی ا لحال کوئی اندیشہ نہیں ہے کیونکہ کتابیں اور کالم پڑھ کر اپنی سیاسی رائے قائم کرنے والے وقت سے ہم اتنے ہی دور ہیں جتنا ہمارا نصاب تعلیم عقل و شعور سے ۔ خان کو مطمئن رہنا چاہیے ۔
فیس بک کمینٹ