اعظم سواتی کا بنیادی تعارف ایک دولت مند انسان کا ہے ۔ ان پر الزامات ہیں کہ ان کی دولت ناجائز ہے ۔ امریکہ سے کمپنیاں بنا کر اور بعد میں انہیں ڈی فالٹر قرار دے کر انہوں نے دولت سمیٹی ۔ اسی دولت کے بل بوتے پر وہ جے یو آئی ف کے کوٹے سے سینیٹر بننے میں کامیاب ہوئے ۔ سینیٹر بن کر برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کے نام سے وہاں کی ڈگریاں دلانے کا جھانسہ دیا اور 2500 طلبا و طالبات سے فی کس 2000 پونڈ وصول فرمائے ۔ اب پونڈ اور بدقسمت روپے کا حساب لگا کر دیکھ لیں کہ یہ رقم کتنی بنتی ہے ۔ رقم وصول کی جا چکی ہے اور طلبا و طالبات اپنی ڈگریوں کی راہ دیکھ رہیں ہیں جو ابھی تک پاکستان نہیں پہنچ پائیں ۔ اس طرح انہوں نے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹی اور پاکستان پر بر سر اقتدار قوتوں کے کیمپ میں داخل ہوگئے جو اس وقت بدقسمتی سے واحد راستہ بن چکا ہے ۔ تعلیم کردار معنت خدمت ہنر تجربہ سب ناکام ٹھہرتے ہیں اور دولت اقتدار کے دروازے کھول دیتی ہے ۔ جب سماجی سیاسی مراتب مناصب کے لیے واحد قابلیت دولت ٹھہرے تو پھر قانون انصاف انسانیت شرافت کے لیے جگہ تنگ پڑ جاتی ہے ۔ اور اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔کل وہ سینیٹ میں بیٹھ کر ہمارا منہ چڑاتے تھے تو آج سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کی گدی پر بیٹھ کر سائنس اور ٹیکنالوجی کا منہ چڑاتے ہیں ۔ اعظم سواتی کے فارم ہاؤس نام کے محل کے ساتھ ۔ جی ہاں میں نے محل کا لفظ سوچ سمجھ کر برتا ہے ۔ مجھے یورپ امریکہ سمیت کسی بڑے سے بڑے فارم ہاؤس کا بیرونی گیٹ اس مذکورہ فارم ہاؤ س کی طرح کا دکھا دیں تو میں اپنے الفاظ واپس لے لوں گا ۔ اس کے بدلے میں یورپ کے کئی بادشاہوں کے محلات دکھا سکتا ہوں بشمول بکنگھم ہاؤس کے جن کے بیرونی گیٹ اس فارم ہاؤس کے گیٹ سے کمتر درجے کے ہیں ۔ جب اس محل کے عقب میں واقع جنگل میں ایک غریب گھرانے کی گائے چرتے چرتے اعظم سواتی کے فارم میں گھسنے کی جسارت کر بیٹھی تو یہ ہنگامہ شروع ہوا ۔ وہاں موجود عملے نے گائے کو فارم سے باہر نکالنے کی بجائے وہاں پابند کر لیا ۔ جب گائے کے مالک خاندان کو اس بات کا علم ہوا تو وہ اپنی گائے واپس مانگنے وہاں پہنچے ۔ یہ اس خاندان کی سربراہ عورت اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔ سربراہ مرد ایک کریانہ سٹور پر اپنی ملازمت پر تھا ۔ تنبیہ کر کے گائے واپس کرنے کی بجائے عورت اور بچوں کو بے عزت کر کے وہاں سے نکال دیا گیا ۔ جب معاملہ اعظم سواتی کے علم میں آیا تو اس نے اس معمولی واقعے کو سلجھانے کی بجائے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ۔ یہ صاحب اپنے گھر آتے مذکورہ خاندان کو اپنے دربار میں طلب کرتے کچھ بولنے کی بجائے بچوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر دیتے تو وہ الٹا اپنی غلطی تسلیم کرتے اور معذرت کر لیتے ۔ لیکن ایسا وہ کیوں کرنے لگے ۔ انہوں نے آئی جی اسلام آباد کو فون کیا ۔ آئی جی فارغ تھوڑا بیٹھا ہوتا ہے ۔ اس نے فون اٹینڈ نہیں کیا تو ان کی انا پر دوسری ضرب پڑی ۔ چنانچہ وزیراعظم کے زبانی حکم پر آئی جی کو فارغ خطی ملی ۔ آ ج تیسرا دن ختم ہو چکا ہے گھر کا سربراہ مرد اور عورت جیل میں اور گائے اعظم سواتی کے محل قید ہیں ۔ بارہ سال کا بچہ آج تیسرا دن ہے ایک ہی میلی قمیص میں اپنے چھوٹے بے آسرا بہن بھائیوں کو بھی سنبھال رہا ہے اور میڈیا کا سامنا بھی کر رہا ہے ۔ اور وزیر صاحب کی ا نا کی بلم کا پھل ہے کہ نیچا ہونے کا نام نہیں لے رہا ۔ وزیر اطلاعات غریب بچوں کے متعلق سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے آئی جی کی گستاخی پر آتش زیر پا ہیں ۔ عوام یہ سب کچھ کھلی اور حیرت سے قدرے پھٹی ہوئی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ نیا پاکستان یہی ہے تو پرانا کیا تھا ؟
فیس بک کمینٹ