عقیدہ کا ماخذ عُقدہ ہے۔ جس کا مطلب ہے گانٹھ۔یعنی انتہائی اُلجھی ہوئی چیز۔عقائد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک دُنیاوی دوسرے مذہبی و اُخروی۔مثلاً جمہوریت اور آمریت۔یہ دو مختلف عقائد ہیں۔ان دُنیاوی عقائد کا تعلق اس دنیا کے نظم و ضبط سے ہے۔آج سے پانچ سو سال پہلے بنی نوع انسان آمریت کا شکار تھے۔اور یہی اُن کا دُنیاوی عقیدہ تھا۔آج انسانوں کی اکثریت کا عقیدہ تبدیل ہو چکا ہے۔آج کی اکثریت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔اگرچہ بہت سارے ایسے بھی ہیں جو آج بھی آمریت کی چکی تلے پیسے جا رہے ہیں۔ہمارے شامی بھائی اس کی زندہ مثال ہیں۔دوسری قسم مذہبی عقائد کی ہے۔ان عقائد کا تعلق مابعدالطبیعات کی دُنیا سے ہے۔جتنے بھی مذاہب اس دُنیا میں آئے انہوں نے خدا اور آخرت کی زندگی کے بارے میں کچھ عقائد متعارف کروائے۔آج بھی اس دُنیا میں ہمیشہ کی طرح کئی مذاہب موجود ہیں۔اور کروڑوں لوگ ان کے ماننے والے ہیں۔جب تک دنیا میں بادشاہت اور آمریت کا رواج رہا۔آمروں نے مذہبی طبقے کو ساتھ ملا کر سیاست کو اپنے قابو میں رکھا۔جس کسی نے سیاست کے نام پر ظلم کے خلاف احتجاج کیا۔مذہبی طبقے نے عقیدے کا سہارا لے کر احتجاج کا راستہ روکا۔اس دور میں چونکہ آمریت کے سوا دوسرا کوئی بندوبست تھا ہی نہیں۔ اس لیے حکومت پر قابض طبقہ بھی مذہبی عقائد کا سہارا لیتا اور اس کے خلاف بغاوت کرنے والا طبقہ بھی اسی ہتھیار کو آزماتا۔ اسی کشمکش میں ایک ہی مذہب کے اندر مختلف فرقے بھی رونما ہوئے۔ عیسائیت میں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ۔ پروٹیسٹنٹ عیسائیت میں دوسرا بڑا فرقہ ہے۔جس کی بنیاد مارٹن لوتھر کنگ نے آج سے پانچ سو سال قبل جرمنی میں رکھی۔یہ کیتھولک کے پندرہ سو سال کے مسلسل جبر کا ردعمل تھا۔جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ اسلام کے اندر سُنی اور شیعہ کی یہی کہانی ہے۔ غالب طاقت نے ایک عقیدہ اپنایا تو مغلوب نے دوسرا۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے شیعوں کو زبردستی سنی بنایا تو شاہ اسماعیل صفوی سنیوں کو شیعہ بناتا رہا۔الغرض دنیا آمریت کے بوجھ تلے مذہبی عقائد کے نام پر پستی اور سسکتی رہی۔پھر ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ایک روشنی کی کرن چمکی۔جسے آج ہم جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں۔دنیا لکھ پڑھ چُکی تھی۔تجربے اور مشاہدے کے زیور سے مالا مال ہوئی تو اس نتیجے پر پہنچی کہ اس مسلسل جبرو استبداد کا ایک ہی حل ہے۔ سیاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے۔نہ سیاست مذہب اور اس کے عقائد میں مداخلت کرے اور نہ مذہب کو اس بات کی اجازت ہو کہ وہ سیاست کے نام پر لوگوں کی زندگی دشوار بنائے۔ یقین کریں جس دن یہ فیصلہ ہوا بنی نوع انسان نے سکھ اور چین کا سانس لیا۔ ایک دوسرے سے الگ ہو کر دونوں کا بھلا ہوا۔ سیاست بھی خوب پھلی پھولی اور مذہب بھی عزت و وقارسے جی رہا ہے۔جہاں جہاں جمہوریت مضبوط ہے وہاں انسان اپنے مذہبی عقائد کے ساتھ عزت و وقار سے جی رہے ہیں۔ اور جہاں جہاں آمریت کی جکڑن سخت ہے وہاں آج بھی بنی نوع انسان مذہبی عقائد کے نام پر ظلم کی چکی میں پیسے جا رہے ہیں۔اس کی تازہ اور زندہ مثال شام ہے۔خطے کی دو بڑی مسلم طاقتیں ایک دوسرے پر سیاسی غلبے کے لیے مذہب اور اس کے عقائد کو آلہ کار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ سعودیوں کو دوسرے ڈکٹیٹر قبول ہیں مگر علوی بشارالاسد قبول نہیں اور ایرانیوں کو پانچ لاکھ بے گناہ انسانوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارنے والا اس لیے قبول ہے کہ وہ ان کا ہم عقیدہ ہے۔ اور رہی انسانیت تو وہ چکی کے ان دو پاٹوں میں پس رہی ہے۔ موروثی بادشاہت اور تھیوکریسی۔ان دونوں کے پاس انسانیت کو کچلنے کی خاطر مذہبی عقائد کا لائسنس موجود ہے۔اور جب تک مظلوم انسان اکٹھے ہو کر ان سے یہ انسانیت سوز ہتھیار چھین نہیں لیتے اس وقت تک تباہ گھروں کے ملبوں سے بچوں کی لاشیں ہم اٹھاتے رہیں گے۔ پاکستان میں دیکھنے کی حد تک تو جمہوریت ہے۔مگر مکمل طور پر بے رحم اشرافیہ کے قبضے میں۔ایک طبقہ جو سب سے زیادہ طاقتور ہے جمہوریت پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتا۔دوسرا وہ ہے جو صرف انتخابات کی حد تک جمہوریت پر یقین رکھتا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق کے نام پر ووٹ کا سہارا لے کر اقتدار میں آتا ہے اور پھر انہیں بھول جاتا ہے۔ان دونوں طبقات نے اپنے اپنے دور میں عوام کو مذہب کے نام پر بے وقوف بنایا۔یہی وجہ ہے کہ آج تک عوام کو بہتر اور خالص جمہوریت کی شکل دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ایک نام نہاد جمہوری حکمران نے مذہبی انتہا پسندوں کے بھرے میں آکر اکثریت کو خوش کرنے کی خاطر ایک اقلیتی گروہ کے خلاف ایک قانون منظور کروایا۔جو بنیادی طور پر اس کے دائرہ اختیار میں تھا ہی نہیں۔اس کام کا اسے کوئی سیاسی فائدہ بھی حاصل نہ ہوا۔البتہ ملک کو بہت نقصان ہوا۔اس کی بساط لپیٹ کر آنے والے ملٹری ڈکٹیٹر نے اس قانون کو مزید سخت کر کے اس انتہا پسند طبقے کو خوش کیا اور اپنے دن طویل کیے۔ڈکٹیٹروں نے خطے میں جنگ کی آگ بھڑکانے کی خاطر متشدد مذہبی گروہوں کو مسلح جتھوں میں بدلا۔انہیں ریاست کی چھتر چھایہ تلے پروان چڑھایا۔اور درمیانی وقفوں میں نمودار ہونے والی نام نہاد جمہوری قوتوں نے ان کی روک تھام کی بجائے ووٹ کے لالچ میں انہیں استعمال کیا۔گزشتہ دنوں چکوال کے موضع دوالمیال میں ایسا ہی کھیل کھیلا گیا۔اکثریت نے اقلیت کی عبادت گاہ پر زبردستی قبضہ کیا۔اقلیت نے راتوں رات اپنا گھر بار چھوڑا۔اس آگ کو بھڑکانے میں بنیادی کردار ادا کرنے والا علاقے کا وائس چیرمین ہے۔ جس کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔حکمران جماعت نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ضلع کونسل میں ایک ووٹ کی خاطر مذہب کے نام پر فتنہ پھیلانے والے اس کردار کا نام درج ہونے والی ایف آئی آر سے حذف کرا دیا ۔ آج اس گاﺅں میں ایک سو سے زائد گھروں کے دروازے بند ہیں۔ ایک ایسے ہی ادھ کھلے دروازے کے پیچھے ستر کے پیٹے کی ایک عورت مقصود بیگم رہتی ہے۔ اس کی ڈولی اکثریت کے گھر سے اُٹھ کر ایک ایسے گھر میں اُتری جسے بعد میں سرکاری سطح پر اقلیت قرار دے دیا گیا۔اس کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اکثریتی گھروں میں بیاہی ہوئی ہیں چنانچہ گھروں میں آباد ہیں۔اس کا آدھا خاندان عقیدوں کے جبر کا شکار ہو کر گھر سے بے گھر ہو چکا ہے۔اس بوڑھی عورت نے اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے میں نے جس گاﺅں میں آنکھ کھولی اور زندگی گزاری اُسی کی گلیوں میں مرنا پسند کروں گی۔دو دن پہلے اکثریت کے خوف سے گاﺅں کے دکان دار نے اسے سودا سلف دینے سے انکار کر دیا ہے۔اس نے اپنا دھول سے اٹا ہوا چہرہ اپنے میلے دوپٹے سے پونچھ کر اخباری نمائندے کے توسط سے پاکستانیوں سے پوچھا ہے کہ میرا قصور کیا ہے؟۔
فیس بک کمینٹ