ساری دنیا چلِا رہی ہے، امریکا کے صدر ٹرمپ اور اس کے اقدامات پر۔ کوئی اسے مخبوط الحواس قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے نفرت و عداوت سے بھرا ہوا۔ اُس نے سات مسلمان ملکوں پر پابندی عائد کی۔ احتجاج مگر کس نے کیا ؟ وہ جنہیں ہمارے رہنما مسلمانوں کا دشمن سمجھتے ہیں۔ روز مرہ جن کے خلاف اپنے منہ سے کف اُڑاتے ہیں۔ یہودو نصاریٰ۔ امریکا میں لاکھوں امریکی باہر نکلے اور خود کو علامتی مسلمان قرار دیا۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے سینوں پر لکھا ہوا تھا، ہم مسلمان ہیں۔ بڑے بڑے وکیل ہوائی اڈوں پر پہنچ گئے مسلمانوں کو قانونی مدد فراہم کرنے کو۔ حتیٰ کہ تل ابیب میں بھی احتجاجی جلوس برآمد ہوا۔ کیا کسی بھی مسلم ریاست میں ایسا ممکن ہے؟ کسی بڑے اور مرکزی شہر میں نہیں کسی نظروں سے اوجھل کونے کُھدرے میں ہی۔ یہ کس بات کی علامت ہے؟۔کیا بنی نوع انسان بلاامتیاز رنگ و نسل ،مذہب و فرقہ ،زبان و علاقہ متحد نہیں ہو رہے؟ ۔دوسری طرف ایک بڑے مسلم برادر ملک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی ہے ۔ جسے مسلم امہ کا ملجا و ماوا قرار دیا جاتا ہے ۔کیا ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات اُمہ کے حق میں تھے ؟ جسے گناہ گار امت سمجھنے سے قاصر ہے ؟ اب دنیا میں ایک نئی طرز کا دو قومی نظریہ فروغ پا رہا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت اور نسل پرستی کی بنیاد پر۔ دوسری طرف بظاہر مذہب ہے لیکن نسل پرستی کی بنیاد پر گروہ بندیاں ہیں جنہیں مذہبی شدت پسندی راس آ رہی ہے۔ یہ ایک لہر ہے جو مغرب میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑ رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ امریکیوں نے اپنا ڈونلڈ ٹرمپ ظاہر کر دیا ہے اور دیگر مغربی ممالک کے ٹرمپ اپنے اپنے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں ، آہستگی سے نہیں خاصی رفتار سے۔ بیس برس قبل مغربی ممالک میں نسل پرستی کی تحریکیں موجود تھیں مگر اقتدار سے بہت دور ۔ نائین الیون کے بعد جیسے انہیں پَر لگ گئے۔ اب وہ اچھی خاصی سیاسی حیثیت رکھتی ہیں اور کہیں کہیں اقتدار میں شریک بھی۔ امریکا چونکہ جائے وقوعہ تھا اس لیے وہاں پر یہ سفر جلدی طے ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقدمہ یہ ہے کہ مسلمان ہمارے ملک میں آ کر ہر طرح کے مفادات سمیٹتے ہیں اور بدلے میں ہم سے اور ہماری اقدار سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ ہمیں تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بناتے ہیں۔ وہ ہماری اقتصادیات پر بوجھ ہیں۔ وہ کئی نسلوں کے بعد بھی ہم سے گھل مل کر رہنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جسے نہایت ہوشیاری کے ساتھ سچ میں جھوٹ کی آمیزش کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔ مسلمان یہاں کی اقتصادیات پر بوجھ نہیں بلکہ بوجھ ہلکا کرنے والے ہیں۔انہوں نے بہت کڑی محنت کے بعد اپنا مقام بھی بنایا ہے اور یہاں کی معیشتوں میں مثبت کردار بھی ادا کیا ہے۔ ان کی اکثریت امن پسند ہے۔ وہ ان ممالک کے ساتھ بہت ہمدردی رکھتے ہیں جنہوں نے کڑے وقتوں میں انہیں سہارا فراہم کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی اکثریت لکھی پڑھی نہیں تھی۔ یہ ناخواندہ اور نیم خواندہ مگر سادہ دل لوگ تھے، جنہوں نے اپنی محنت سے یہاں کچھ مقام حاصل کر لیا تو ان کے تعاقب میں وہ طبقہ بھی دبے پاؤں پیچھے پیچھے کھنچا چلا آیا جو دوسروں کی محنت کی کمائی پر پلتا آیا ہے۔ یہ صرف پاکستانی و کشمیری لوگوں کے ساتھ ہی نہیں ہوا دیگر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھی یہی کہانی ہے۔اس طبقے نے یہاں آ کر بدترین مذہبی انتہا پسندی و فرقہ پرستی کو ہوا دی۔ میں 1995ءکے اوائل میں بیلجیم آیا تو جس شہر میں سکونت اختیار کی وہاں پاکستانی و کشمیری مسلمانوں کی ایک ہی مسجد تھی ،جس میں شیعہ ، بریلوی، دیوبندی، وہابی سب ہی اکٹھے نمازیں ادا کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی، مگر یہ بہت دیرپا ثابت نہ ہوئی۔ جوں جوں ہمارے مذہبی رہنما وہاں پہنچتے گئے اسی حساب سے تقسیم ہوتی گئی۔ اب وہاں ماشاللہ ہر فرقے کی اپنی الگ عبادت گاہ ہے جہاں دوسرے مسلک کے لوگوں کا داخلہ تقریباً ممنوع ہے۔ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں اور جنازے پڑھنا متروک ہو چکا ہے۔یہی حال پورے یورپ کا ہے۔ میں اب انگلستان میں مقیم ہوں، یہاں فرقہ واریت کی بنیاد پر مسجدوں میں لائے گئے تابوت بغیر جنازہ پڑھے واپس لوٹتے دیکھ چکا ہوں۔ کسی بھی شہر میں چلے جائیں لوگ آپ کو بتائیں گے کہ آج سے بیس تیس سال پہلے تک سب مسلمان ایک ہی مسجد میں عبادت کرتے تھے پھر فلاں صاحب تشریف لائے تو انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ تمہاری فلاں فلاں عقیدے والوں کے پیچھے نماز جائز نہیں ۔ اس طرح تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ اب امریکا والا ٹرمپ انہی حرکتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ دیکھتے دیکھتے کچھ لوگوں نے مذہبی وضع وقطع اختیار کر لی ہے پردے کا رواج بڑھ رہا ہے۔جسے مقامی لوگ اپنے اور اپنے کلچرکے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن مذہبی شدت پسندی بڑھنے کے ساتھ ساتھ عمومی رویوں میں بہتری آنے کی بجائے خرابی بڑھ رہی ہے۔ مالی و اخلاقی بدعنوانی کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں کم سن بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کے خلاف عدالت نے فیصلہ سنایا۔ انہیں جرم ثابت ہونے پر سزائیں سنائی گئیں۔متاثرہ بچیوں میں سے ایک بارہ سال کی تھی جو زیادتی کے بعد حاملہ ہو گئی تھی۔ جب عدالت ان مجرموں کو سزا سُنا رہی تھی تو وہ بلند آواز سے اللہ واکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔جسے بین الاقوامی میڈیا نے نمایاں کورج دی اور سوالات کھڑے کیے۔اس واقعے کو اس دیگ کا ایک چاول سمجھیں جو یہاں پک رہی ہے۔ اور اندازہ لگائیں کہ ٹرمپ کے دو قومی نظریے کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟۔ یہ دو قومی نظریہ بھی بہت کچھ ہڑپ کرے گا۔ ایک طرف انسانیت کی بنیاد پر قائم کیا گیا دھڑا ہے دوسری طرف نسل پرستی کی بنیاد پر جسے یہاں جرم قرار دیا گیا ہے مگر مذہبی انتہا پسندی فرقہ واریت اور اس کی کوکھ سے پیدا ہونے والی دیگر برُائیاں اس انسانیت سوز نظریے کو پروان چڑھانے کے لیے غذا فراہم کر رہی ہیں۔مسلمانوں کے لکھے پڑھے اور سوچنے والے طبقات کے پاس وقت بہت کم ہے۔ نسل پرستی اور اسلامو فوبیا کی بنیاد پر آگے بڑھنے والے نظریے کا راستہ نہ روکا گیا۔ اور اس سلسلے میں یہاں کے مثبت سوچ رکھنے والے طبقات کے کندھے سے کندھا نہ ملایا گیا تو مسلمانوں کا مستقبل اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔ انہیں تقسیم کرنے والے طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ اپنے مقدس لباسوں اور نشانیوں کو پوٹلی میں باندھ کر بحافظت یہاں سے نکل جائیں گے جیسے قسطنطنیہ سے، جیسے ہسپانیہ سے، جیسے جرمنی سے، جیسے دہلی ،کلکتہ اور پنجاب سے نکلے تھے۔ مارے عوام جائیں گے جن کا سب کچھ یہاں پر ہی ہے۔
فیس بک کمینٹ