صبح کاذب کا اجالا پھیلا، ابابیلیں اڑیں، ہوا خنک اور کیف آور تھی۔ کسی مولسری کے درخت سے کوئل کی د ل خراش کوک سنائی دی ۔ شاہی سڑک کے دونوں طرف جوار اور باجرے کے سٹے کسی خوبصورت رقاصہ کی طرح ہوا میں جھوم رہے تھے۔ شہزادہ سلیم اپنی گردن، اپنے گھوڑے کی ایال پر رکھے غبار کو چیرتا جا رہاتھا۔ اس کے سینہ میں جذبات کا ایک محشر بپا تھا۔”ہائے! مہر!“اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں ۔
وہ پکا حسن پرست اور عاشق مزاج تھا۔ شہنشاہ اکبر کی مرضی تھی کہ وہ کسی زلف کے دام میں نہ آئے، کسی آہو چشم کی دید سے خریدا نہ جا سکے، کسی پستہ لب کی چسکی پر پاگل نہ ہو، کیونکہ، تاج وتخت کی جواب داری بالآخر اسی کے کاندھوں پر آنی تھی۔ اکبر نے بہت دھمکیاں دیں اور دھونس جمائی، داؤ پیچ اختیار کئے۔ لیکن پرنالے میں پانی کب ٹکتا ہے۔ سلیم اپنے باپ کی نصیحتیں اور ڈانٹ ڈپٹ ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا، لیکن سامنے بھی اکبر تھا۔ اس نے ایک طرف مہر النساءکی شادی کا انتظام کیا تو دوسری طرف انار کلی کو شہزادے سے ملنے سے منع کر دیا۔
آج سلیم اس کے حکم کے مطابق لاہور جا رہا تھا۔ کبھی کبھار اکبر بھی سلیم کے ہاں آ جاتا اور اسے اس کی ذمہ داریاں یاد کرواتا۔ لیکن وہ محبت کا پیاسا، کسی چکور کی طرح ایک چاند پر پاگل تھا، وہ کہاں کان دھرنے والا تھا! اکبر نے بے بس ہو کر اسے نظر بند کر دیا۔ کوئی بھی اجنبی اس کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔لیکن مہر النساء کی زلفوں کی زنجیر نے اسے اپنی الفت میں اس طرح قابو کیا تھا کہ وہ اسے ایک پل بھی نہ بھلا سکا ۔ وہ اسے بھول بھی کیسے سکتا تھا! کبھی کبھار سلیم کے بے تاب دل میں انار کلی کے پریم کی یاد ایک چنگاری کی طرح بھڑک کر پھر ٹھنڈی پڑ جاتی تھی۔ وہ بھنورے کی طرح ایک پھول کی خوشبو کو چھوڑ کر دوسرے کی محبت میں مست ہوتا، پھر اس پچھلے پھول کی خوشبو، اس کی وفا کی یاد اس کے بے خیالی کے بادلوں میں غائب ہو جاتی تھی۔
عورت کا پیار تو پتھر پر لکیر کی طرح ہے۔ انار کلی کو پتہ تھا کہ سلیم کسی اور کے تیر نظر کا شکار ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود کیا فراخ دلی تھی! کیا جانثاری تھی!! کیا عشق تھا!!! کہ اس کے اندر عشق کی آگ بجھنے کی بجائے بھڑکتی ہی رہی۔
شمع ایک تھی اور پروانے دو۔ مہر النساءکی بھی صبح ومسا ایک ہی محویت تھی اور وہ تھی سلیم کی یاد۔ وہ شب بھر تارے گن کر صبح کرتی۔ ”کبھی تو میری قسمت کا ستارہ بھی چمکے گا۔“ یہی آس، یہی امید اس کی زندگی کا سہارا تھی۔ شہزادے کے بغیر صبح اس کے لئے قیامت تھی۔ اماوس کی سیاہ ترین رات تھی۔ مہرالنساء، سلیم کی یاد کی لہروں میں بہتی رہتی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا تاریک مستقبل قدم قدم قریب آرہا تھا۔ اسے بے تابی اور بے خوابی نے جھٹکا دے دیا تو اٹھ کر رقعہ لکھا:
جان من!
ساون رت آئی! آسمان پر بادل چھائے، بجلیاں کڑکیں، گھٹائیں برسیں لیکن ایک تم ہو کہ لوٹ کر نہیں آئے۔ کیا تم تمام تر وعدے بھول گئے!؟ تمہارے سوا جینے میں مزہ ہے نہ مرنے میں کوئی سکون۔ کاش! تمہارے دل میں کوئی رحم پیدا ہو کہ اپنی کنیز کو یاد کر لو۔ اور کیا تحریر کروں! آنسو لکھنے نہیں دیتے اور کاغذ اس کا گواہ ہے۔
تمہاری مہر
اس نے سویرے اٹھ کر سب سے پہلے نماز فجر پڑھی اور سلیم کے لئے دعا مانگی۔ انارکلی، جس سے اس کی پریت کی ڈور بندھی تھی، کوبلوا کر رقعہ تھمایا اور اسے تاکید کی کہ کسی بھی طرح میرے من کے میت سے پریت کا جوابی پیغام لے آؤ۔ اسے کیا پتہ کہ انارکلی بھی اسی شعلہ سے دل سوختہ تھی۔
شہزادہ سلیم خیمہ کے دروازہ کے قریب کوے کی کائیں کائیں سن رہا تھا۔ شاید کوا کسی کے آنے کی خبر دے کر اس کے تار چھیڑ رہاتھا۔ اچانک اسے انار کلی نظر آئی ۔ برہاکی اگن بھڑک اٹھی ۔دونوں کے گالوں پر آنسو آ گئے۔ بالآخر،” حکایت بودبے پایاں، بخاموشی ادا کردم“ انار کلی نے آستین سے رقعہ نکالا۔
اچانک سلیم کی گردن پر ایک مضبوط پنجہ جم گیا۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو اکبر کو موجود پایا۔ شہنشاہ نے غصہ آمیز نگاہ سے دوسرا ہاتھ انار کلی کے لائے ہوئے رقعہ کی طرف بڑھایا ۔انار کلی رقعہ کو ہاتھ میں بھینچ کر دور ہٹ گئی ۔ ”بے وقوف! ایک تو تم نے میری حکم عدولی کی ہے۔“ اکبر نے شعلہ فشاں آواز میں کہا،” اوپر سے یہ گستاخی!“وہ انار کلی کی طرف بڑھا تاکہ رقعہ اس سے چھین لے، لیکن وہ تو ایک ہی جھٹکے میں رقعہ ہڑپ کرگئی۔ اکبر آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے تالی بجائی، دو چوکیداروں نے کورنش بجا لائی۔
”اسے نظر بند رکھو۔“ اکبر نے حکم دے کر سلیم کی طرف دیکھا،“ ابھی کے ابھی دلی کی طرف کوچ کرو۔“
”جی حضور!“ سلیم نے گلوگیر آواز میں کہا۔
انار کلی خیمہ کے اندر پیشانی پر ہاتھ رکھے مستقبل پر غور کر رہی تھی۔ اسے بے کسی کے بادلوں میں برق امید کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ اس نے اپنے دل میں دہرایا کہ رقعہ کا حال ہرگز افشا نہ کروں گی، محبوب کے لئے میرا سر بھی چلا گیا تو بجا ہو گا۔ اس نے اچانک قدموں کی آہٹ سنی۔ سر اٹھایا تو شہنشاہ کو سامنے کھڑا پایا۔
”خط میں کیا لکھا ہوا تھا؟ بتاتی ہو یازندہ دیوار میں چنوا دوں؟“
ادھر جان کی بازی تھی، لیکن:
سینئہ من از حرور عشق آتش فشاں
ای مبارک از جہنم من چرا ترسم ہنوز
پیا کے لئے جان گئی تو کیا ہوا؟ بادشاہ کے رعب دار اور حشمت ناک چہرے کا اس پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ انار کلی نے انکار میں گردن ہلا دی۔
رات کو جذبات کا ایک طوفان اس کے ہجر زدہ سینہ میں مچل اٹھا۔ اس کی زندگی کی شکستہ ناؤ غم ویاس کی بپھری موجوں میں ابھرتی ڈوبتی رہی۔
”کاش! میں بھی ایک شہزادی ہوتی۔“اس نے مسرت بھری آواز میں گنگنایا،” پھر یہی اکبر مجھے اپنی بہو کہتے پھولے نہ سماتا۔“ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ کروٹیں بدلتے بدلتے نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی ۔
دوسرے دن مزدور انار کلی کو دیوار میں چن رہے تھے۔ جب اینٹیں اس کی گردن تک آ گئیں، تب کوتوال نے اس سے پوچھا،”کوئی آخری خواہش؟“
”ہاں۔“ اس نے ایک سرد آہ بھری،” ایک مرتبہ سلیم کو دیکھوں۔“ دو آنسو اس کے گالوں سے پھسلتے ہوئے مٹی میں مل گئے۔
سلیم شاہی محل میں ایرانی قالین پر دنیا ومافیہا سے بے خبر بیٹھا ہوا تھا۔ ایک صراحی دار گردن والا ساقی اسے جام پہ جام دیئے جا رہا تھا۔ شمع دان میں ایک شمع جل رہی تھی، دو پروانے پر پھڑپھڑاتے ہوئے اس کے چکر کاٹنے لگے۔ ایک محبت کے مارے پروانہ نے جھپٹا مارا اور اپنے پر گنوا کر شہزادہ سلیم کے قدموں کے قریب گرا۔
ای مرغ سحر عشق زپروانہ بیاموز
کان سوختہ راجان شد وآواز نیا مد
فیس بک کمینٹ