علیم ایک دوراندیش ، اور شاندار مشاہدے والا نوجوان ہے ۔ میرا کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ دوست اور شو بز میدان کا دمکتا ستارہ ہے۔ ایک شام اس کے ساتھ کوہ قاف کے ایک دیس بہتانستان جانے کا پروگرام بنا ۔ ہم نے چند روز کی رخصت لی ، رخت سفر باندھا اور منزل پر پہنچ گئے ۔ وہاں جا کر دیکھا تو اس ملک میں جمہوریت آخری سانسیں لے رہی تھی ۔ وہاں ہم نے ایک ہوٹل میں قیام کیا ۔ مقامی لوگوں اور صحافیوں سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ۔ وہاں کے حالات تو 1857 ء جیسے تھے جب برطانیہ نے برصغیر پر قبضہ کیا تھا ۔ برصغیر میں جب برطانوی راج نافذ ہوا تو برطانیہ نے اپنا وائسرائے مقرر کیا تھا ۔ بہتانستان کا طرز حکومت بھی ویسا ہی تھا ۔ برصغیر میں برطانیہ کے پاس داخلہ ، دفاع ، خارجہ اور مواصلات کا نظام تھا جبکہ باقی نظام مقامی ریاست کے نوابوں سرداروں کے پاس تھا ۔ جبکہ بہتانستان میں بھی دوہزار سترہ میں حالات نہ بدلے وہاں بھی منتخب وزیراعظم کو بندوق کی نوک پر ہٹایا گیا حالانکہ وہ وزیراعظم بااختیار تھا ہی نہیں ، کیونکہ اس ملک کے سپہ سالار نے بہت سے فیصلے اس کی مرضی کے بغیر کئے تھے ۔ میری اور علیم کی وہاں ایک مقامی صحافی سے اس کے ملکی حالات پر گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ یہاں بھی برطانوی طرز حکومت ہی ہے ۔ اس صحافی نے بتایا کہ ملک کی وزارت خارجہ ، دفاع اور داخلہ فوج کے پاس ہے بالواسطہ بہت سے معاشی کاروبار یہاں کی اسٹیبلشمنٹ چلارہی ہے جبکہ اب تو ہاؤ سنگ کالونی ، ڈیری فارم کے بعد اڑن کھٹولا بھی لارہے ہیں ۔اس نے بتایا کہ چنددن پہلے ہمارے سپہ سالار وقار بھائی نے دبے لفظوں میں خزانہ بھی مانگ لیا ہے اس صحافی کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریت تو کب کی ان کے ملک سے کوچ کرگئی ہے ۔اس نے بتایا کہ ہمارے ملک میں چونکہ بہتان طرازی کی روایت ہے اس لئے اسے بہتانستان کہا جاتا ہے ۔ یہاں بہتان کی بہتات ہے ۔سب ایک دوسرے پر بہتان لگاتے ہیں ۔ سب ایک دوسرے کو چور کہتے ہیں اور چور بھی ہیں ۔ اس نے بتایا کہ اب تو ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری بھی بہتان دکھائی دیتی ہے ۔ ہمارے سیاستدانوں کو ایک سپاہی بھی روک لیتا ہے ہم برطانوی حکومت کے سے حالا ت میں ہیں۔ صحافی کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے وقار بھائی بظاہر تو سیدھے سادھے لگتے ہیں لیکن حقیقت میں بہت ذہین ہیں ۔افسوس کہ ان پر بھی بہتان لگتے رہتے ہیں۔ اس صحافی کہا کہ مجھے مختلف فون نمبروںسے دھمکایا جاتا ہے ۔ اس کی ساری باتیں سن کر علیم نے میری طرف دیکھا اور کہا شکر ہے ہمارے ملک میں ایسی صورتحال نہیں ہے ۔ تین دن کا مختصر دورہ کرکے میں اور علیم واپس وطن لوٹ آئے اور شکر ادا کیا ۔ علیم نے کہا کہ کتنی خوش نصیبی کی بات ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک میں رہ رہے ہیں ۔ ہمارے سیاسی حکمرانوں کا دل سے احترام کیا جاتا ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ نہ کاروبار اور نہ ہیں کسی اور سرگرمی میں حصہ لیتی ہے اور نہ ہی کسی پر بہتان لگایا جاتا ہے میں نے علیم کی طرف دیکھا اور خوشی سے سر ہلا دیا اور کہا واقعی ہم خوش نصیب ملک میں رہتے ہیں شکر ہے ہم بہتانستان کے باسی نہیں ۔
فیس بک کمینٹ