- مخدوم جاوید ہاشمی پھر واپس مسلم لیگ ن کا حصہ بننے جارہے ہیں اس حوالے سے 4 دسمبر کو پنجاب ہاوس اسلام اباد میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی اس ملاقات میں مریم نواز ، مریم اورنگزیب ، احسن اقبال اور پرویز رشید موجود تھے ، جاوید ہاشمی جمہوریت پسند سیاستدان ہیں لیکن ان کی زندگی میں ان کے کیے گئے فیصلے انہی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے جاوید ہاشمی کا دعویٰ ہے کہ وہ نظریاتی سیاستدان ہیں لیکن انہوں نے بھی بہت سی جماعتیں بدلی ہیں ۔
جاوید ہاشمی 1951 میں ملتان کےعلاقے مخدوم رشید میں پیدا ہوئے ان کا نام بہاؤ الدین شاہ رکھا گیا انہیں گھر میں پیار سے بھاون شاہ پکارتے تھے بھاون کا مطلب دل کو اچھا لگنے والا ہے ۔ تاہم سکول میں داخلے کے وقت ان کا نام جاوید لکھ دیا گیا ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پولیٹیکل سائنس اور فلاسفی میں ایم اے کیا ۔ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ سیاست میں حصہ لیا اور لاہور کے جلسے جلوسوں میں حصہ لیا ایوب خان اور ذوالفقارعلی بھٹو کیخلاف جلسے جلوس کیے جماعت اسلامی کی طلبہ یونین کے امیر بھی رہے مولانا مودودی سے خاص محبت رکھتے تھے۔ سیاست جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے سیکھی لیکن پھر اصغر خان کی تحریک استقلال میں حصہ لیا ۔ بعد ازاں ضیاء الحق کی کابینہ کے کم عمر وزیر بنے پھر 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا اور پارلیمنٹ کا حصہ بنے ، اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ رہے وہ اتحاد جو اسٹیبلشمنٹ نے پیپلزپارٹی کی حکومت ختم کرنے کے لیے بنایا 1990 ء میں پھر وزیر مملکت بنے 1993ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے کئی حصے ہوئے جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کا حصہ بنے اور اسی سال انتخابات میں ممبر پارلیمنٹ بنے اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے 1997 ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور وفاقی وزیر صحت بنے 1999 میں مشرف کے مارشل لاء کے بعد مزاحمت کی مسلم لیگ کے صدر بھی بنے ان کیخلاف غداری کا مقدمہ بھی چلا جیل بھی گئے مشرف کے دور میں مسلم لیگ کو سنبھالنے والے سیاستدانوں میں انہوں نے سب سے نمایاں کرداراداکیا 2008 میں انتخاب لڑا رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور مخصوص نشست پر بیٹی کو بھی اسمبلی کا حصہ بنوایا۔ مسلم لیگ ن کی نشست سے استعفی دیا اور 24 دسمبر 2011 کو تحریک انصاف کا حصہ بنے اور اپنے سیاسی حریف شاہ محمود قریشی سے ہاتھ ملایا ۔ 2013 کے انتخاب میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور تحریک انصاف کے صدر بھی رہے 2014 میں عمران خان نے اسلام آ باد لانگ مارچ اور بعد میں دھرنا دیا جس پر جاوید ہاشمی عمران خان سے الگ ہوگئے اور دھرنے کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دیا اور قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دیا ان کے حلقہ 149 پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ملک عامر ڈوگر کامیاب ہوئے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی پریس کانفرنسز میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی غیر اعلانیہ سپورٹ کی اور عمران خان اور تحریک انصاف کی بھرپور مخالفت کی اور سنگین الزامات لگائے اس دوران مسلم لیگ ن پر جب بھی مشکل وقت آ یا تو جاوید ہاشمی نے اس کی حمایت میں پریس کانفرنس کی پانامہ کو بھی نواز شریف کیخلاف سازش قرار دیا میڈیاوار میں اپنا وزن مسلم لیگ ن کے پلڑے میں ڈالا ۔ اس دوران ہاشمی کو مسلم لیگ ن کے ذرائع ابلاغ نے بہت کوریج دی ۔ اب پھر وہ مسلم لیگ ن میں جارہے ہیں مسلم لیگ کو ملکی سیاست میں ان کا بہت فائدہ ہوگا اور مستقبل میں مریم نواز کی سیاسی طور پر بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن میں ہاشمی صاحب شہباز شریف کے مقابلے میں نوازشریف گروپ کے زیادہ قریب رہے اگر تو ہاشمی صاحب 2018 مارچ میں سینیٹ انتخاب میں مسلم لیگ کے سینٹر منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ چیئرمین سینٹ کے بھی مضبوط امیدوار ہونگے اگر وہ انتخابی سیاست کی طرف جاتے ہیں تو ان کا اور مسلم لیگ ن کا مستقبل زیادہ روشن نہیں ۔ جاوید ہاشمی ملتان سے حلقہ 149 سے انتخاب میں حصہ لیتے ہیں تو یہاں مسلم لیگ ن دھڑے بندی کا شکار ہے مسلم لیگ ن کے طارق رشید اور گورنر پنجاب رفیق رجوانہ کے صاحبزادے بھی اسی حلقے سے انتخاب لڑنے کے خواہ ہیں جاوید ہاشمی کے ن لیگ میں شامل ہونے پر اس حلقے کے بلدیاتی نمائندے بھی خوش نہیں اور ان کیخلاف پریس کانفرنس بھی کرچکے ہیں ۔ اگر وہ حلقہ 149 سے انتخابات میں حصہ لیتےہیں تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کے میدوار کوہوگا کیونکہ مسلم لیگ ن کے ہی عہدیدار ہاشمی کے مخالف کو ووٹ دیں گے جس سے مسلم لیگ ن کو نقصان ہوگا دوسری طرف اگر نئی حلقہ بندیا ں کردی جاتی ہیں اور حلقہ قومی اسمبلی 148 ملتان اور حلقہ 159 کو اکٹھا کردیا جاتا ہے تو بھی جاوید ہاشمی صاحب کے جیتنے کےامکانات معدوم ہیں کیونکہ اس حلقہ سے پہلے عبدالغفار ڈوگر اور افتخار نذیر ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی ہیں اگر ان کو ٹکٹ نہ دی گئی تو وہ بھی ن لیگ مخالف کیمپ کا رخ کرسکتے ہیں جس سے مسلم لیگ ن کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ بہر حال مقامی اور انتخابی سیاست کی بات کی جائے تو جاوید ہاشمی صاحب اگر مسلم لیگ ن کی نشست پر انتخاب لڑتے ہیں تو کامیابی کےامکانات کم ہیں تاہم وہ سینٹر بن کر قومی سیاست میں زندہ رہ سکتے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ