فرانز کافکا نے Kپر لکھا تو امر ہو گیا اور ہمارے پنجابی والے فخر زمان نے Zلکھا تو ان کی پنجابی کتابیں مشرقی پنجاب میں پڑھائی جانے لگیں جبکہ یہ نون کہانی لکھنے والے کے لئے کافکا اور فخر زمان کا درجہ پانا تو مشکل ہے البتہ ملامتی ہونے کے سبب فقیر پرتقصیر پر الزامات ضرور لگیں گے، گالیاں تو پڑیں گی، لفافہ اور بکے ہوئے کے خطابات تو ملیں گے (آخر کسی نہ کسی آنکھ میں تو کھٹکوں گا)۔ Kکہانی ہو یا Zکہانی یا پھر نون کہانی، تینوں کے مرکزی کردار حالات کی گردش کا شکار ہیں۔ نون کو عام لوگوں کی طرح نہ دیکھا جائے وہ مختلف اور منفرد ہے۔ مثال کے طور پر ہم میں سے ہر کوئی فیصلہ کرتے وقت اپنے نفع اور نقصان کا خیال رکھتا ہے۔ فقیر کی طرح شہباز شریف بھی دنیا دار ہیں ہر فیصلہ کرتے ہوئے وہ لازماً جائزہ لیتے ہیں کہ نتیجہ اچھا ہو گا یا برا۔ آصف زرداری زمانے کے جبر کاٹ کر بہت ہی عقلمند ہو چکے ہیں وہ اپنا فائدہ نقصان خوب سمجھتے ہیں اور تو اور مولانا فضل الرحمٰن بھی منطق کے آدمی ہیں سیاست سے راستہ کیسے نکالنا ہے کوئی ان سے سیکھے۔ مگر نون نفع و نقصان، سود و زیاں اور مشکل و آسان سے آگے نکل چکا ہے۔ نون نے گزشتہ دو سال میں جب آسان اور پُرخطر راستے میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا اس نے مشکل راستے کا انتخاب کیا۔ پانامہ کی انکوائری کے لئے پارلیمانی کمیشن بنتا تو شور شرابے کے بعد معاملہ دب جاتا مگر نون نے خود سپریم کورٹ کو خط لکھ کر پانامہ پر کمیشن کا مطالبہ کر دیا۔ سپریم کورٹ نے پہلا فیصلہ سنایا تو فواد حسن فواد نے مشورہ دیا اسمبلی توڑ کر فوراً الیکشن کروایا جائے لیکن نون نے جے آئی ٹی کے کانٹوں بھرے راستے کا انتخاب کیا۔ حد تو یہ ہے نون نے خود کابینہ کی صدارت کرتے ہوئے باقی دنیا کے ممالک سے ثبوت منگوانے کے لئے MLAپر دستخط کئے اور اس کی خود منظوری دی۔ نون اچھا خاصا لندن میں آرام سے بیٹھا تھا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جلسے کرنے شروع کر دیئے، مخالفوں کو للکارا۔ نون کی عدم موجودگی میں اسے سزا سنائی گئی وہ چاہتا تو لندن رہ سکتا تھا، بہانے مار سکتا تھا یا کم از کم میم کو وہاں چھوڑ کر آ سکتا تھا مگر اس نے عقل، ہوش اور خردمندی کے بجائے جنون کا راستہ اختیار کیا۔ لندن سے چلا اور آ کے اڈیالہ جیل بند ہو گیا۔ ہر ذی ہوش جیل سے اسپتال جانا چاہتا ہے مگر یہ تارک الدنیا جیل میں ہی رہنا چاہتا ہے۔ ہر قیدی خوش ہوتا ہے کہ چاہے غم یا موت ہی کے بہانے پیرول پر رہائی ملے مگر یہ کیسا قیدی ہے جو پیرول پر رہا ہونے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔ کلثوم کی وفات نے نون کو اور غمزدہ کر دیا ہے۔ خاموش اور گم صم آخر کیا سوچتا رہتا ہے؟ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار اور زوال کے بارے میں کسی غیبی فیصلے کا منتظر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مقدر کے اس کھیل سے خود ہی گزرنا چاہتا تھا اس کا خیال تھا اور اب بھی ہے کہ وہ انہی ٹیڑھی راہوں سے بالآخر سرخرو ہو گا۔ تقدیر اس کی کمر توڑنے کے درپے رہی اور وہ تقدیر پر شاکی ہوئے بغیر سب کچھ سہتا رہا۔ نون کی جیل یاترا اس کے اقتدار کا خراج تھا۔ کلثوم کی المناک موت اور پھر اس سے پیدا ہونے والی ہمدردی اس کی قید کا تاثر رفتہ رفتہ ظلم میں تبدیل کر دے گی پہلے جیل کی ہر رات نون پر بھاری تھی اب جیل کا ہر دن ان کے مخالفوں پر بھاری ہو گا۔ نون کے لئے جیل اب سبک اور ہلکی پھلکی ہو جائے گی جبکہ ان کے مخالفوں کے لئے یہ بوجھ بنتی جائے گی۔ الیکشن سے پہلے اور فوراً بعد نون اور میم کو جیل میں رکھنے کا فائدہ تھا اب انہیں جیل میں رکھنے کا سیاسی نقصان ہو گا۔
Kکیا سوچتا تھا اور Zنے کال کوٹھڑی میں کیا کیا سوچا ہو گا، کیا کیا لکھا اور پھر پھاڑا ہو گا، If I am assasinatedکے علاوہ کیا کیا خیال آتے ہوں گے بالکل اسی طرح نون جیل میں بیٹھا جب خلاء کی طرف نظر دوڑاتا ہے تو کیا سوچتا ہو گا یہی ناکہ ایک دن انصاف کا بول بالا ہو گا، اس کی بھی سنی جائے گی، شاید عوامی مزاحمت کا ریلا اٹھے یا پھر بے چینی اور بے اطمینانی بحرانی شکل اختیار کر لے یا پھر ریاست کسی جنگ یا مشکل میں پڑ جائے اور اس کی مدد چاہے۔ نون کے ذہن کو پڑھنا مشکل ضرور ہے مگر بہرحال وہ انہی میں سے کسی ایک تدبیر پر سوچتا ہو گا۔ فقیر پرتقصیر کا خیال ہے کہ حکومتوں کو اپوزیشن نہیں گراتی وہ خود اپنے ہی وزن سے گرتی ہیں۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اسکینڈل اور الزام تراشیاں حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں دراصل حکومت کی اپنی ناکامیاں ہی اسے نقصان پہنچاتی ہیں۔
نون کی حالت عجیب ہے وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی ذہنی طور پر اس دنیا میں نہیں ہے۔ وہ ہوش و عقل سے ماورا عالم بے خودی میں ہے وہ بظاہر لوگوں سے گلے ملتا ہے، ہمدردی کے الفاظ سنتا اور تشکر کے جذبات کا اظہار کرتا ہے مگر وہ اصل میں کہیں اور پہنچا ہوا ہے۔ سود و زیاں سے دور، نفع نقصان کی سوچ سے ماورا، فائدے یا گھاٹے سے کہیں آگے۔
کافکا کے Kاور فخر زمان کے زیڈ (ذوالفقار علی بھٹو) پر مقدمے چلے، ان کا ٹرائل ہوا، یہی کچھ نون کے ساتھ بھی ہوا۔ ان تینوں کا رشتہ درد کا بھی ہے اور انصاف کا بھی۔ طاقت کے سامنے بے بسی کے باوجود سر نہ جھکانے کا بھی تعلق ہے اور سب سے بڑھ کر وہ بے خودی جو نفع نقصان سے آزاد کر کے تکلیفوں کو کلفت اور درد کو سرور میں تبدیل کرتی ہے۔ جب ظلم سے سرزد ہونے والے زخم میڈل بن جاتے ہیں اور جب الزامات، مقدمات اور اسکینڈل پریشان نہیں کرتے بلکہ گناہوں کو جھاڑتے ہیں، جب حسین بن منصور حلاج کو مارے جانے والے پتھر پھول محسوس ہوتے ہیں، یہ کیفیت دشمنوں کے لئے بڑی خطرناک ہوتی ہے۔ نون ظلم کا مزہ لے رہا ہے اور مخالف اسے اس مزے کا موقع دے رہے ہیں۔ نون جو کمزور تھا، سردی گرمی سے تنگ ہوتا تھا، لگتا ہے اس کی بے خودی نے اسے ان احساسات سے آزاد کر دیا ہے۔ نون نہ Kہے نہ زیڈ مگر وہ نون ہے اس کی بے خودی نے اسے بہادر بنا دیا ہے اس سے ڈرنا چاہئے۔ وہ امر ہونا چاہتا ہے اور اس کے مخالف اسے امر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ تو اندر ہی اندر ہنستا ہو گا کہ اس کی خواہش پوری ہو رہی ہے۔
فقیر پرتقصیر نے کہا تھا کہ اکبر بگٹی سنہری موت کا خواہش مند ہے ہوش سے کام لیتے ہوئے اسے سنہری موت کا انجام نہ دیا جائے۔ فقیر جب آخری بار اکبر بگٹی سے ملا تھا تو اس کے چہرے پر موت کی سرخوشی طاری تھی ایسے لگتا تھا کہ وہ بے خودی کے عالم میں خود موت کو دعوت دے رہا ہے اسی لئے فقیر ڈر گیا تھا اور دوسروں کو بھی ڈرایا تھا۔ مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ اکبر بگٹی سنہری موت سے ہمکنار ہو کر رہ گیا اور بلوچ مزاحمت کی علامت بن گیا۔ فقیر اب بھی نون کی بے خودی سے ڈر رہا ہے۔ نون جیل میں سرخوشی کے عالم اور بے خودی کی حالت میں ہے اسے جیل میں رکھنا اب خطرناک ہے۔ یہ وہ بم ہے جس سے ڈرنا بہتر ہے کہیں وہ بھی امر ہونے کے راستے پر گامزن نہ ہو جائے۔ اسے روکیں، ہر صورت روکیں۔ جیل سے نکالیں، ضمانت لیں اور اسے عام انسان ہی رہنے دیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ فرعون کے گھر موسیٰ پیدا ہوتا ہے اور ایوب خان خود بھٹو کو سیاست میں آگے لاتا ہے بالکل ایسے ہی ضیاء الحق بھی نون کی انگلی پکڑ کر اقتدار میں لایا مگر اب نون بدل چکا ہے اس کی بے خودی اور جنون کچھ کر کے رہیں گے مگر ہم کسی اور بھٹو کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ رکئے اور سوچئے۔ باقی مرضی آپ کی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ