حکومتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں مگر پاکستان میں عام طور پر تین طرح کی حکومتیں آئی ہیں۔ ٹھاہ حکومت، آہ حکومت اور واہ حکومت۔ واہ حکومت میاں نواز شریف کی تھی وہ عوام کی واہ واہ لینے کے لئے بڑے بڑے منصوبے شروع کرتے تھے۔ ییلو کیب، موٹر وے اور میٹرو اس کی مثالیں ہیں۔ زرداری کا دور آہ حکومت کا تھا۔ کارکردگی کچھ نہیں تھی کبھی یہ شکایت کی جاتی تھی کہ اپوزیشن تعاون نہیں کرتی اور کبھی کہا جاتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ چلنے نہیں دیتی غرضیکہ ہر وقت آہیں سنائی دیتی تھیں اس لئے اسے آہ حکومت کہنا چاہئے۔ تحریک ِ انصاف کا موجودہ دور ’’ٹھاہ حکومت‘‘ کہلائے گا۔ ٹھاہ حکومت نے آتے ہی تجاوزات کو گرانا شروع کر دیا۔ مٹی، سیمنٹ، پتھر اور دھوئیں کے مرغولوں نے اعلان کیا کہ تبدیلی آ چکی ہے، ٹھاہ حکومت نے احتساب کا پھندہ اور کس دیا کبھی یہ گرفتار تو کبھی وہ گرفتار۔ یہ ٹھاہ حکومت اس لئے بھی ہے کہ یہ اپوزیشن کو ٹھاہ ٹھاہ کرنا چاہتی ہے شہباز شریف کی گرفتاری بھی اسی پالیسی کا حصہ سمجھئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شہباز شریف دوسری بار وزیر اعلیٰ بنے تو کئی بڑی بڑی بلڈنگز اور پلازوں کو گرانا شروع کر دیا میں نے ایک حکومتی سیانے سے پوچھا کہ یہ مار دھاڑ کیوں؟ تو اس نے جواب دیا کہ جب بڑی بلڈنگ گرائی جاتی ہے تو غریب کا کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے اگر آپ غریب کو کچھ بنا کر نہیں دے سکتے تو کم از کم اس کا کلیجہ ہی ٹھنڈا کر دیں۔ یوں لگتا ہے کہ تجاوزات کے خلاف مہم اسی نفسیاتی حربے کا حصہ ہے۔ اس حکومت کا وزیر اعظم بھی ٹھاہ وزیر اعظم ہے جو چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ کوئی مفاہمت کرنے کو تیار نہیں وہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ ڈاکو، ڈاکو ہیں اور چور چور۔
اور تو اور اس حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر ابن جنرل (ر) غلام عمر بھی ٹھاہ وزیر ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ ٹھاہ، روپیہ ٹھاہ، معیشت ٹھاہ۔ وزیر خزانہ دلیر ہو تو ایسا۔ پہلے ٹھاہ وزیر آئی ایم ایف اور غیرملکی قرضوں کو ٹھاہ ٹھاہ کرتے رہے اب سب کچھ ٹھاہ ہوا ہے تو معاملات ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ فواد جہلمی ذات کے وینس جٹ ہیں، ٹھسے کے وکیل رہے برجستگی اور بہادری کی آخری اور خطرناک حدوں کو چھوتے ہیں، وہ بھی ٹھاہ مقرر ہیں۔ آج خورشید شاہ کو ٹھاہ کیا تو کل مشاہد اللہ پر وار کر کے اسے بھی ٹھاہ کر دیا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی سہروردی سلمہ اللہ تعالیٰ انتہائی قابل، ایماندر اور محب وطن ہیں عام زندگی میں چہرے پر مسکراہٹ سجائے دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں مگر ٹھاہ ٹیم کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی ٹھاہ وزیر خارجہ بن چکے ہیں۔ خارجہ پالیسی کے معاملے میں وزیر خارجہ کو فاختہ والا رویہ اپنانا ہوتا ہے مگر شاہ محمود صاحب نے شِکرے والا رویہ اپنا رکھاہے۔ ان کے اس ٹھاہ رویہ کی وجہ سے ڈر ہے کہ پاکستان تنہائی کا شکار نہ ہو جائے۔ وزیر اعظم بھی عقاب اور وزیر خارجہ بھی شِکرا۔ یہ جوڑی ٹھیک نہیں رہتی۔ اگر وزیر اعظم عقاب ہو تو وزیر خارجہ کا رویہ فاختہ والا ہونا چاہئے اور اگر وزیر اعظم فاختہ کا رنگ روپ رکھتا ہو تو وزیر خارجہ شِکرا ہونا چاہئے تاکہ دونوں ایک دوسرے کے عیب چھپا سکیں۔ کرشمہ ساز مخدوم خسرو بختیار بھی ٹھاہ حکومت کا نمایاں نام ہیں ان کے والد مرحوم مخدوم رکن الدین آف میانوالی قریشیاں سے اس فقیر کو نیاز حاصل تھا، وہ بڑے دانا اور صاحب مطالعہ تھے وہ خود تو بیک فٹ کے کھلاڑی تھے لیکن نوجوانوں کو فرنٹ فٹ پر کھیلنے کا مشورہ دیتے تھے۔ پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا ان کا آئیڈیل تھا۔ مخدوم رکن الدین خسرو کو جیسا دیکھنا چاہتے تھے وہ بالکل ویسا ہی نکلا۔ مکمل شِکرا۔
تحریک انصاف کے سیٹ اپ پر نظر دوڑائی جائے تو سوائے دو کے کوئی فاختہ نظر نہیں آتی۔ آئیڈیل یہ ہے کہ فاختائیں اور شِکرے مل کر ایسی ٹیم بناتے ہیں جو ریاست کو کامیابی کی طرف لے جا سکتی ہے لیکن اگر شِکرے زیادہ ہوں یا فاختائیں زیادہ ہوں اور ٹیم متوازن نہ ہو تو دھڑن تختہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر البتہ ایک مکمل فاختہ ہیں جو صلح کل ہیں اور مفاہمت پسندی پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں۔ یوسفزئی پٹھان ہونے کے باوجود وہ ٹھاہ اسپیکر نہیں بنے بلکہ گرفتار شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے سیشن میں بلا کر انہوں نے ملک معراج خالد اور سید یوسف رضا گیلانی جیسے عظیم اسپیکروں والا کردار ادا کیا ہے۔ گورنر پنجاب چودھری سرور بھی فاختہ ہیں ڈرائنگ روم سیاست کے ماہر، جوڑ توڑ کے رسیا مگر صلح صفائی کے حق میں ہیں، سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں فاختائیں اس قدر کم ہیں کہ وہ پالیسی پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں اس لئے مجموعی طور پر حکومت ٹھاہ پالیسیاں ہی جاری رکھے گی چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو۔
ٹھاہ وزیر اعظم بھولے بادشاہ ضرور ہیں مگر اتنے بھی بھولے نہیں کہ عوام کی نبض ہی سے غافل ہوجائیں، وہ سادے ضرور ہیں مگر اتنے بھی سادہ نہیں کہ عوامی مسائل سے بےبہرہ ہوجائیں وہ ٹھاہ ٹھوہ پر یقین ضرور رکھتے ہیں مگر انہیں یہ حقیقت بھی معلوم ہے کہ یہ ٹھاہ ٹھاہ زیادہ دیر تک نہیں چلتی حتمی طور پر کچھ اور کرنا پڑے گا، لیکن فی الحال وہ فواد جہلمی کے میزائل، شاہ محمود سہروردی کے شِکرے نعروں اور اسد عمر کی بےداغ ساکھ سے فائدہ اٹھائیں گے۔ لڑائی بڑھے گی تو اسد قیصر اور چودھری سرور کو آگے کردیں گے، ٹھاہ وزیر اعظم، کپتان رہے ہیں کب کس کھلاڑی سے کام لینا ہے، وہ خوب جانتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے ٹھاہ حکومت کو نشیب و فراز میں گھرے ہوئے دیکھ کر آل راؤنڈ جہانگیر ترین وہاڑوی بہت یاد آئے وہ مردِ بحران تھے، ہر مسئلے کا فوری حل ان کی زنبیل میں موجود ہوتا تھا۔ اپنے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر فسانۂ عجائب کے کردار کی طرح چٹکی بجاتے ہی مشکل آسان کردیتے تھے۔ ان کی جگہ کوئی نہیں لے سکا۔ ٹھاہ وزیر اعظم کو ایک عمر و عیار کی ضرورت ہے، جو اسے ایک اعتدال پسندانہ اور عوامی طور پر مقبول اور قابل قبول حل دے سکے۔ ترین مشیر ہوتا تو زراعت، معیشت اور پنجاب گورننس جیسے پہاڑی مسئلے چٹکی بجاتے ہی حل ہوچکے ہوتے مگر اب دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا جو چکردار راہداریوں میں سے نکلنے کا کوئی سیدھا راستہ دکھائے۔
اچھا ہوا کہ ٹھاہ ٹیم نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کرلیا، چند دن پہلے یہی فیصلہ کرلیتے تو شاید روپیہ کی گرتی قیمت کو قرار آجاتا، مگر اب تو جو ہونا تھا ہوچکا، آئی ایم ایف کے پاس دیر سے جانے کی وجہ سے ڈالر بحران پیدا ہوا مگر آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بھی معیشت پر دباؤ آتا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط ماننی پڑیں گی، مزید مہنگائی ہوگی، اخراجات پر سخت کنٹرول ہوگا، بڑی مشہور کہاوت ہے کہ’’مجھے یونانیوں سے سب سے زیادہ ڈر اس وقت لگتا ہے جب وہ تحفے لے کر میرے گھر آئیں۔‘‘ آئی ایم ایف بھی جب کسی گھر میں آتی ہے تو حکومت اور عام آدمی دونوں ہی مشکل میں آجاتے ہیں۔ آئی ایم ایف، دیو مالائی ٹروجن ہارس کی طرح ہے جب یہ کسی ملک میں گھس جاتا ہے تو پھر یہودی شائی لاک کی طرح اپنا ایک پونڈ گوشت لینے کی خاطر پورے انسان کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یعنی آئی ایم ایف خود بھی ایک ٹھاہ ہے جو کمزور اور غریب ملکوں میں ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
موجودہ ٹھاہ حکومت کی سیاست بری نہیں لیکن معیشت کے ساتھ ان کا سلوک بہت برا ہے، سیاسی طور پر تو یہ حکومت ٹھاہ ٹھاہ سے اپنے مخالفوں کو دبائے ہوئے ہے لیکن معاشی طور پر بدانتظامی سے حالات خراب ہو رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت ٹھاہ گیئرسے نکل کر معاشی گیئر لگائے اور اپنی گاڑی کو گہری کھائیوں سے بچا کر کسی بڑی شاہراہ پر لے جائے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ