صدیاں گزر گئیں، کولہو کا بیل آنکھوں پر کھوپے پہنے، گلے میں گھنٹی ڈالے، دائرے میں چلتا جارہا ہے، بیل کی آنکھیں کھلی رہیں تو اسے پتہ چل جائے کہ وہ تو ایک لاحاصل سفر پر روانہ کیا گیا ہے، اسی لئے بیل کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیئے گئے ہیں کہ وہ حقائق نہ جان لے، اوپر سے اس کے گلے میں بندھی گھنٹی اس کو یقین دلاتی رہتی ہے کہ وہ اکیلا ہی اس سفر میں نہیں ہے زندگی کا شور بھی شریک سفر ہے۔ یہ سراب صدیوں پہلے پیدا کیاگیا اور آج تک جاری ہے، بیل کھوپے سمیت دنیا و مافیہا سے بے خبر رواں دواں ہے۔
مصر اور برصغیر تاریخ کی پرانی تہذیبوں کے نمائندہ خطے ہیں، تین ہزار سال قبل مسیح کے مصر میں طوطخ آمون نام کا بوائے کنگ برسراقتدار تھا، طوط یا یاتوت فراعنہ مصر کی شاخ میں سے تھا یہ 9سال کی عمر میں بادشاہ بنا اور ساڑھے 19سال کی جواں عمر ی میں ہی وفات پا گیا۔ مصر کے عجائب گھرمیں طوطخ آمون کا وہ شاہی رتھ آج بھی موجود ہے جس پر چڑھ کر وہ دشمنوں کے خلاف صف آراء ہو تا تھا۔ اس رتھ میں دو گھوڑے اکٹھے جُوتے جاتے تھے۔ دوسری طرف سندھ کے قدیم تہذیبی مرکز سے موہنجوداڑو کی جو کہانی ابھرتی ہے اس میں گھوڑے کا ذکر نہیں ملتا۔ سندھ کا علامتی ہیرو ’’سائیں یا پروہت‘‘ موجود ہے اور تانبے سے بنی رقاصہ بھی۔ مگر نہ گھوڑے کی کوئی مہر ہے اور نہ اس کی کوئی تصویر۔ ہاں البتہ بیل موہنجوداڑوکی تہذیب کا اہم جزو تھا۔ یہی بیل آج بھی ہند اور سندھ کی تہذیب کا نشان ہے۔ ڈھگا، کولہو کا بیل اس خطے کی سستی اور سادگی کے لئے طعنہ بھی رہا ہے اور جانفشانی کی علامت بھی۔ بعض تاریخ نویس اور مفکرین سمجھتے ہیں کہ کولہو کا بیل بغاوت نہیں کرسکتا۔ دائرے میں چلتے چلتے بیل کو ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ وہ سیدھا چلنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ مگر یہ مکمل سچ نہیں ہے کولہو کا بیل اندھا نہیں ہے اسے کھوپے پہنا کر اندھا کیا گیا ہے اور اگر یہ کھوپے اتر جائیں تو بیل بھی بغاوت کر دے گا اپنے حقوق کے لئے اڑ جائے گا۔ پھر وہی گھنٹی جو اس کی غلامی کی علامت ہے آزادی کا ترانہ بن جائے گی۔
انقلاب فرانس نے یورپین کولہو کے بیل کی آنکھیں کھول دیں اور اس کے کھوپے ختم کردیئے۔ برصغیر میں نہ ایسی کوئی بغاوت ہوئی، نہ انقلاب آیا اسی لئے ’’پاکستانی بیل‘‘ کی آنکھوں پرابھی تک کھوپے چڑھے ہیں۔یہ کھوپے صدیوں کے غلط بیانیے، برسوں کے نت نئے ڈاکٹرائن، طرح طرح کی سازشی تھیوریوں کے ہیں۔ پاکستان بنتے ہی شکست خوردہ عناصر نے جو بیانیہ تشکیل دیا وہ یہ تھا کہ پاکستان خطرے میں ہے۔ یہ بیانیہ کولہو کے بیل کو رٹا دیا گیا اور اب اس کی زندگی اسی نکتے پر گھومتی ہے کہ ملک کو کیسے بچائیں۔ دوسری کہانی یہ رٹائی گئی کہ اس ملک کو لوٹا جا رہا ہے سیاستدان لٹیرے ہیں اس لئے ان کا احتساب تمام مسائل کا حل ہے۔ کولہو کا بیل نیک نیتی میں اس کہانی پر بھی یقین کرگیا اور اب 70سال سے احتساب، احتساب کی مالا جپ رہا ہے مگر اب بھی اسے سبق یہی دیا جاتا ہے کہ آج تک اصلی احتساب نہیں ہوا اسی لئے تو ملک ٹھیک نہیں ہو رہا۔ کولہو کا بیل دراصل شاہ دولہ کا چوہا بن چکا ہے۔ کنویں کے اس مینڈک کو خبر نہیں کہ اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے؟
احتساب کی کہانی، پاکستان بنتے ہی شروع ہوگئی تھی سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو، سرحد کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ کے خلاف پہلے پہلے احتسابی قوانین لاگو کئے گئے ’’پروڈا‘‘ نام کا پہلا احتسابی قانون 1949ء میں بنایا گیا مگر یہ نافذ 14اگست 1947ء یعنی قیام پاکستان کے پہلے ہی دن سے ہوگیا اسی پروڈا کے تحت بنگال کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی کا بھی احتساب کیا گیا۔ کولہو کے بیل کو یہ کھیل اچھا لگا۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اتنی محنت مشقت کرتا ہے مگر یہ ملک ترقی نہیں کررہا۔ اگر اس کے کھوپے اتر جاتے تو اسے حقائق کا علم ہو جاتا مگر اسے احتساب کی گھنٹی کی آواز پر لگا دیا گیا۔ کون کون شریف النفس تھا جو احتساب کی چکی میں پیسا نہیں گیا، کیا ممدوٹ بدعنوان تھا؟ ڈاکٹر خان صاحب نے کیا کرپشن کی تھی؟ حسین شہید سہروردی وہ آخری بنگالی تھا جسے پاکستان سے محبت تھی اس کی عزت بھی تارتار کردی گئی ان سب کابری طرح سے احتساب ہوا مگر سوائے بدمزگیوں اور ملکی حالات کی خرابی کے، کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ کولہو کا بیل تھوڑا کسمسایا تو وزیر اعظم لیاقت علی خان کا احتساب گولی مار کر ان کی جان لے کر کیا گیا۔ احتساب کا نعرہ کولہو کے بیل کی روح میں ایسے حلول کرگیا کہ وہ چاہتا تھا کہ کچھ بڑا کیا جائے بس پھر کیا تھا جنرل ایوب خان کا مارشل لاء آگیا۔ قیام پاکستان کے پورے گیارہ سال بعد نیا نظام آیا تو پھر کولہو کے بیل کو احتساب کا نیا کھوپہ پہنا دیا گیا ، ایبڈو قانون کے تحت شرفاء کی پگڑیاں اچھالی گئیں۔ وزیر اعظم سرفیروز خان سیاست سے ریٹائرمنٹ لے گئے، سہروردی کے خلاف نئے مقدمات درج ہوئے، فاروق لغاری کے نیک نام باپ سردار محمد خان لغاری کو بھی نہ بخشا گیا۔ احتساب کے نام پر تمام مخالفوں کا ناطقہ بند کردیا گیا مگر کولہو کے بیل کو صدارتی اختیارات کے نام پر لائل پور کا گھنٹہ گھر بھی ناپسند آیا، کھوپے ہونے کے باوجود اس کا سانس بند ہونے لگا۔ ایسے میں ایک نیا مارشل لاء آگیا اور یحییٰ خان نے بیوروکریسی کا احتساب شروع کردیا۔ کولہو کے بیل کو طفل تسلی دی گئی کہ اب کوئی نہ بچے گا مگر ملک کو بچانے کے لئے برسراقتدار آنے والے یحییٰ خان کو خود ذلت آمیز شکست کا ذمہ دار بننا پڑا۔ الیکشن ہوئے آئین بنا، ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا۔ کولہو کا بیل سمجھا اب حالات بہتر ہوں گے مگر اہل سیاست بھی احتساب کے نشے میں تھے۔ بھٹو نے ولی خان، بزنجو، میاں طفیل محمد، چودھری ظہور الٰہی سمیت سب اپوزیشن رہنمائوں کا احتساب شروع کردیا ، احتسابی خمار اترا تو بھٹو اکیلا کھڑا تھا اسی لئے جنرل ضیاء الحق آرام سے چھڑی ہلاتے ایوان اقتدار میں آ داخل ہوئے پھر بھٹو کا احتساب شروع ہوا ، بات پھانسی تک پہنچی مگر احتساب کا خون آنکھوں سے اتر نہیں رہا۔ نواز شریف نے بے نظیر کا احتساب جاری رکھا اور بے نظیر نے نواز شریف کے خلاف مقدمات بنائے۔ احتساب کا یہ سفر اب بھی جاری ہے کولہو کا بیل اب بھی دائرے میں سفر کر رہا ہے۔ کھوپے اسی طرح چڑھے ہوئے ہیں گلے میں وہی گھنٹی اب بھی بج رہی ہے۔
اس ملک میں اتنا احتساب ہوا ہے کہ الامان و الحفیظ، ڈر یہ ہے کہ لوگ سیاست سے ہی تائب نہ ہو جائیں، کاش کوئی کولہو کے بیل کے کھوپے اتارے اور اسے احتساب کے دائرے سے نکال کر کارکردگی کے سفر پر روانہ کرے ، قومیں احتساب سے نہیں، سزاؤں سے نہیں، اپنے کارناموں سے اور کارکردگی سے جانی جاتی ہیں، چاہے سب کو لٹکا دیں، سب کے پیٹ کو چیرپھاڑ دیں، آخر میں خفت، پریشانی، مزید لڑائی جھگڑے اور خلفشار ہی برآمد ہوگا۔ کولہو کا بیل اندھا نہیں ہے آنکھوں سے پٹی ہٹنے دو وہ اس غلامی کے دائرے سے باہر نکل کر آمادہ بغاوت ضرور ہوگا!!۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ