ادارہ جنگ کے انگریزی روزنامے سے 1991 کے ابتدائی مہینوں میں وابستگی ہوئی تھی۔ پاؤں میں ایک چکر تھا، زنجیر نہیں تھی۔ ملک کے حالات دگرگوں تھے۔ حکومتیں آج ہی کی طرح حباب بر آب بلا خیز تھیں۔ کبھی خسروان نادیدہ کے اشارہ ابرو پر زیر و زبر ہو جاتی تھیں تو کبھی دل بے خبر کو درون سینہ کوئی آرزو آ لیتی تھی۔ انگریزی زبان کے محاورے سے محدود آشنائی الگ سے پائے لنگ کے طور آبلہ پا تھی۔ اس پر یہ خلش الگ کہ زبان غیر میں شرح آرزو کر رہے ہیں تو کس کے لئے؟ عزیزان وطن تو نسل در نسل تعلیم میں کوتاہ اور علم سے بے بہرہ رکھے گئے ہیں۔ انہیں اس کج مج بیان کے لکھے سے سازش، جرم اور غفلت کی اس تکون کے بارے میں کیا معلوم ہو گا جس نے ان کی زندگیاں گہنا رکھی ہیں۔ بس اسی ایچ پیچ میں چند برس بعد کسی اور جانب نکل لیا۔ انسانی حقوق کے معاملات سے تعلق اور شہریت کی تعلیم کے جذب میں کبھی اپنے ہی دیس کے دور دراز قصبوں اور دیہات کی گلیاں چھانیں، کبھی دیار غیر میں جوتے چٹخائے۔ برسوں مجسٹریٹ درجہ سوم اللہ دتہ انجم مرحوم کی عدالت میں حاضری دی۔ کبھی انسانی حقوق کے یورپی قانون میں ایک بے معنی سند کاغذی کی جستجو رہی۔ 2006 میں کشمیر تنازع کے ضمن میں چناب فارمولے کی سن گن ملی تو معلوم ہو گیا کہ کھلی آمریت اور عکسی جمہوریت کی دھوپ چھاؤں میں ایک نیا باب کھلنے کو ہے۔
اس ملک کی تاریخ یہی ہے کہ جو رہنما مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کا اشارہ دینے کی غلطی کر بیٹھے اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ 1951 میں لیاقت علی خان سیٹو سینٹو میں شمولیت کے بدلے بھارت سے قومی سلامتی کی ضمانت طلب کرے تو اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ قاتلوں کے نام معلوم ہیں اور تاریخ میں تفصیلی شواہد محفوظ ہیں۔ حسین شہید سہرودی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی سعی کرے تو اس سے بزور طاقت استعفیٰ لے لیا جاتا ہے۔ دسمبر 1976 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مری کے ایک خصوصی اجلاس میں مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کا اشارہ دینے کی غلطی کر بیٹھیں تو انہیں ایک “خصوصی رپورٹ” کی مدد سے نئے انتخابات کے جال میں پھنسا کر ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی پہنچا دیا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو سیاچین تنازع کے حل کی طرف پیش رفت کرنا چاہے تو اسلام آباد کی سڑکوں پر سری نگر کے سنگ میل نصب ہو جاتے ہیں۔ نواز شریف اعلان لاہور کی غلطی کر بیٹھے تو اس کے خلاف کارگل کا جال بن دیا جاتا ہے۔ پرویز مشرف نے چناب فارمولے کی طرف بڑھنا چاہا تو نعیم بخاری، ایکس سروس مین سوسائٹی اور افتخار محمد چوہدری نمودار ہو گئے۔ ٹریک ٹو کے روح رواں نیاز اے نائیک کا اگست 2009 میں قتل یک کالمی خبر بن کر رہ گیا۔ 2007 کے ابتدائی مہینوں میں واضح تھا کہ ہواؤں کا رخ بدل رہا ہے۔ میں وطن لوٹ آیا۔
چند برس ادھر ادھر کی خاک چھاننے کے بعد محترم سہیل وڑائچ نے جنگ کے ادارتی صفحے پر لکھنے کا اذن دیا تو یہ ایک نئی زندگی کا اشارہ تھا۔ یہیں سے کراچی میں روز نامہ جنگ کے ادارتی صفحے کے انچارج سید حیدر تقی سے تعارف ہوا جو بہت آہستہ روی سے ان کی شفقت اور درویش کی نیاز مندی میں بدل گیا۔ حیدر بھائی بہت کم گو لیکن درحقیقت بے حد ذہین اور خوش مزاج انسان تھے۔ انہیں علم تھا کہ زمانہ ان کے رنگ طبع سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ انہوں نے خاص ہوتے ہوئے عام رہنے کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔ ایسا کیوں نہ ہوتا۔ سادات امروہہ کے سربرآوردہ خانوادے سے تعلق تھا۔ رئیس امروہوی ان کے والد گرامی کے برادر بزرگ اور جون ایلیا برادر خورد تھے۔ ان کے والد سید محمد تقی پاکستان کے چند حقیقی فلاسفہ میں شمار ہوتے تھے۔ تقسیم ہند سے قبل رئیس امروہوی دہلی میں روز نامہ جنگ کے اداریہ نویس اور سید تقی نیوز ایڈیٹر تھے۔ سید محمد تقی 26 جنوری 1948 کو بمبئی سے بحری جہاز کے راستے روانہ ہو کر 30 جنوری کو عین اس روز کراچی پہنچے جس روز گاندھی جی قتل ہوئے۔ 6 جون 1950 کو کراچی میں سید حیدر تقی پیدا ہوئے۔
گزشتہ 14 برس سے ہفتے میں دو بار باقاعدگی سے جمعے اور منگل کے روز فون کی گھنٹی بجتی تھی۔ سید حیدر تقی درویش کے بارے میں جانتے تھے کہ بالارادہ لکھنے پر قادر نہیں ہے۔ دھیمی سی آواز آتی ’محترم ‘۔ میں انہیں بتا دیتا کہ ’سیدی کالم لکھ رہا ہوں‘۔ جس روز ہاتف دستک نہیں دیتا تھا تو کہہ دیتا کہ ’حضور کہنے کو کچھ نہیں، آج کالم نہیں لکھا جائے گا‘۔ کالم صفحہ سیاہ کرنے کا روزگار نہیں۔ اس کے لیے تو نامہ اعمال کے دفتر کافی ہیں۔ یک گونہ التفات سے فرماتے، میں نے کالم کے بارے میں تو فون نہیں کیا۔ میں تو صحت کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ یہ ان کی محبت کا خاص انداز تھا۔ ٹھیک دو برس پہلے 18اپریل 2022ء کو درویش نے لکھا تھا ’حیدر تقی فہمائش کے کسی امکان سے قطعی ماورا ہیں۔ درویش کو ان کی شفقت نے اسیر کر رکھا ہے۔ انہیں کالم نہ لکھنے کی اطلاع دی جائے تو صحت کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ کیوں نہ ہو، صحت زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ مشکل میں نہیں ڈالتے۔ صحت ذہنی پر سوال نہیں اٹھاتے‘۔ پڑھ کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ میں نے اپنی اہلیہ (محترمہ نصرت حیدر) کو یہ کالم دکھا کر کہا ہے کہ یہ میرا توشہ آخرت ہے۔ سال میں ایک مرتبہ یہ بتانے کے لیے فون کرتے کہ صاحبزادیوں فرح اور بشریٰ سے ملنے کے لیے امریکا جا رہا ہوں۔ میں بے چینی سے ان کی واپسی کا منتظر رہتا۔ ادارہ جنگ میں حیدر تقی واحد ہستی تھے جن سے درویش دل کی بات کہہ لیتا تھا۔ کبھی کسی حساس معاملے پر کوئی رائے دیتا، کبھی کوئی شعر سنا دیتا۔ حیدر تقی شخصی تنقید کے آدمی نہیں تھے۔ میری تنک مزاجی کے جواب میں کوئی شعر یا مطائبہ عنایت کرتے۔ یہ دلوں کی دل سے راہ کا معاملہ تھا۔ ایک منتہی اور ایک طالب علم میں خیالات کا ایسا اتفاق جسے جاننا کسی تیسرے کے لیے ممکن نہیں تھا۔
کچھ عرصے سے ناسازی طبع کے آثاران کی آواز میں نمایاں ہونے لگے تھے۔ وضع دار تھے۔ علالت کی حقیقی وجہ نہیں بتائی۔ 8 اپریل کو آخری مرتبہ فون پر بات ہوئی تو نقاہت اس قدر غالب تھی کہ میں نے عرض کی کہ گھر جا کر آرام فرما لیجئے۔ مجھے کیا خبر تھی کہ یہ حیدر تقی سے آخری مکالمہ ہے۔ 21 اپریل کی شام برادرم سید کاظم سعید کا فون آیا۔ سید صاحب کے ارتحال کی خبر تھی۔ میں کاظم سعید سے کیا تعزیت کرتا۔ یہ کہنا بھی بے کار تھا ’ ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق‘۔ حافظ کا مصرع شعر کی حد تک کائناتی حقیقت ہے لیکن ان آزردہ دلوں کے لیے اس میں پناہ لینا مشکل ہے جن کے لیے ’ ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں‘۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ