مریم نواز نے ایک بار پھر عمران خان کی حکومت چند روز میں ختم ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کے علاوہ پیپلز پارٹی کے لیڈر بھی متعدد بار موجودہ حکومت کے خاتمہ کا اعلان کرچکے ہیں۔ مریم نواز نے اسلام آباد میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس کے قائم رہنے کا جواز ختم ہوچکا ہے۔ تاہم یہیں پر تمام سیاسی لیڈر دھوکا کھاتے ہیں یا غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔
کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا فیصلہ اپوزیشن لیڈروں کے بیانات یا وزیروں کی طرف سے کامیابی کے دعوؤں کی روشنی میں نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے ملکی آئین نے ایک طریقہ کار مقرر کیا ہے۔ اس کے مطابق ہر حکومت کو پانچ سال کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے بعد اسے انتخابات کے ذریعے ووٹروں کے پاس جانا ہوتا ہے۔ دراصل یہی انتخاب کسی بھی حکومت کی کارکردگی یا ناکامی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ 2008 کے بعد سے سامنے آنے والے جمہوری سیٹ اپ میں اسی طریقہ کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی لیکن 2013 کے انتخابات میں وہ عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکی ۔ گویا عوام نے اس حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ اسی طرح 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اعتماد کا ووٹ نہیں مل سکا اور تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب 2023 کے انتخابات میں اس حکومت کی کارکردگی کو بھی عوام کی پسند یا ناپسند کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ یہ جمہوری اور آئینی طریقہ ہے۔ اس سے گریز یا انکار کی کوئی بھی کوشش، کسی بھی طرح ملک میں آئینی انتظام کو مستحکم نہیں کرے گی۔
گو کسی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں تو عوام ہی فیصلہ کرنے کے مجاز ہوتے ہیں لیکن اس امتحانی مرحلے تک پہنچنے اور دوران انتخاب اختیار کئے گئے ہتھکنڈوں کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ چونکہ انتخابات اور حکومتوں پر اثر انداز ہونے والے عوامل بدستور موجود ہیں اور شواہد سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ طریقہ زیادہ مستحکم ہؤا ہے۔ اسی لئے کسی حکومت کی کارکردگی کو پرکھنے یا حکومت کی تبدیلی کے آئینی طریقہ کے بارے میں بے صبری کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات اور ان کی وضاحتوں کی صورت حال تسلسل سے پاکستانی سیاست کا نمایاں وصف بنی ہوئی ہے۔ حکمران جماعت سمیت ملک کی سب سیاسی پارٹیوں کو اس صورت حال سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ووٹنگ پر اعتبار اور انتخابی نتائج کو سب کے لئے قابل قبول بنانے کا کوئی ایسا میکینزم اختیار کرنا چاہئے جو انتخابات کو قبولیت اور اعتبار بخش سکے۔ بدقسمتی سے اس سمت میں پیش رفت دیکھنے میں نہیں آتی۔
انتخابی قوانین میں ترامیم منظور کرواتے وقت حکومت وقت اور اپوزیشن پارٹیوں کے پاس اس الجھن اور بداعتمادی کو ختم کرنے کا ایک اچھا موقع تھا لیکن کسی بھی طرف سے اس حوالے سے کسی مثبت جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایک طرف تحریک انصاف الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو لازمی قرار دینے کے لئے پورا زور لگاتی رہی حتی کہ متعدد وزرا نے اس طریقہ رائے دہی پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے الیکشن کمیشن کے کردار اور چیف الیکشن کمشنر کے عہدہ کو مشکوک کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ۔ اب دو وفاقی وزرا الیکشن کمیشن سے معافی مانگ کر ان غیر ذمہ دارانہ بیانات سے دست بردار ہوچکے ہیں لیکن اس رویہ سے اعتماد کی فضا کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن نے ایک اہم قانونی پیش رفت میں تعاون اور مواصلت کا ماحول پیدا کرنے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔
تمام سیاسی پارٹیوں کے اس طرز عمل کی ایک بنیاد ی وجہ انتخابی عمل اور سیاسی حکومت سازی کے طریقہ کار میں اسٹبلشمنٹ کی براہ راست مداخلت ہے۔ سیاسی لیڈر جانتے ہیں کہ انتخابی قوانین کے موافق یا مخالف ہونے، الیکٹرانک ووٹنگ یا پرچی پر مہر لگانے کے طریقے، عوام کی پذیرائی یا ناراضی کی بجائے، اقتدار تک پہنچنے کا راستہ صرف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مواصلت اور افہام و تفہیم سے ہی ہموار ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی لیڈر اور ملکی میڈیا انتخابی قوانین میں ترامیم کے مقابلے میں ان قیاس آرائیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدہ کی توسیع شدہ مدت جب اس سال نومبر میں ختم ہو گی تو کیا انہیں ایک مزید توسیع دی جائے گی یا کسی سینئر جنرل کو پاک فوج کا نیا سربراہ بنایا جائے گا۔ حتی کہ پاک فوج کے ترجمان اور خود آرمی چیف نے بھی اس سلسلہ میں وضاحت کرکے معاملہ صاف کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس حوالے سے ایک سوال پر گول مول جواب دیا ہے کہ ابھی تو نومبر آنے میں بہت دیر ہے۔ حالانکہ یہ اصولی مؤقف بیان کرنے کے لئے تو کسی مدت کی کوئی قید نہیں ہونی چاہئے کہ مسلح افواج کے سربراہان کو تین سالہ عہدے کی مدت میں توسیع کا طریقہ ختم ہونا چاہئے۔ اور اگر کسی مجبوری یا قومی ہنگامی حالات کی وجہ سے کسی فوجی سربراہ کو ایک مدت کے لئے توسیع دی گئی ہے تو یہ اصول واضح ہونا چاہئے کہ وہی شخص دوبارہ اس سہولت سے استفادہ نہیں کرسکتا۔
اس پہلو پر مزید غور سے پہلے یہ واضح کرنا بھی اہم ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کے تین شعبے بری فوج، بحریہ اور فضائیہ ہیں۔ تاہم ماضی میں صرف بری فوج کے سربراہ کو ہی اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ۔ پہلے تو ملکی اقتدار پر غیر آئینی طور سے قبضہ کرنے والے جرنیل خود ہی اپنے عہدے کی مدت میں توسیع کرتے رہے۔ تاہم 2008 کے بعد شروع ہونے والے جمہوری دور میں پہلے جنرل پرویز اشفاق کیانی نے پیپلز پارٹی سے اپنے عہدے کی مدت میں توسیع حاصل کی حالانکہ ملک میں کوئی غیر معمولی حالات نہیں تھے۔ اس کے بعد ان کی جگہ لینے والے جنرل راحیل شریف نے نوازشریف سے اپنے عہدے میں توسیع حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن ہتھکنڈا اختیار کیا تاہم وہ کسی بھی طرح نواز شریف کو توسیع دینے پر راضی نہ کرسکے اور فوج سے رخصت ہوکر خصوصی اجازت نامے پر سعودی عرب کی ’اسلامی فوج‘ کی سربراہی کے لئے ریاض چلے گئے۔ ان کی جگہ لینے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نے پہلے عمران خان کے اقتدار تک پہنچنے کے عمل کی نگرانی کی پھر سپریم کورٹ کے اعتراض کے باوجود 2019 میں ریٹائر ہونے کی بجائے، ایک قانونی ترمیم کے ذریعے تین سال کی توسیع حاصل کرلی۔ اس موقع پر یہ عذر تراشا گیا تھا کہ بھارت کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے پاکستان حالت جنگ میں ہے۔
اب ان کی توسیع شدہ مدت اس سال نومبر میں ختم ہوگی لیکن ابھی سے ایسا ماحول بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ جنرل باجوہ نومبر میں اپنے عہدے سے دست بردار ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ قیاس یقین میں تبدیل ہورہا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنے عہدے کی مدت میں توسیع چاہتے ہیں۔ پہلی توسیع کا مقصد تو شاید عمران خان کی صورت میں متعارف کروائے گئے ہائیبرڈ سیاسی انتظام کو کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھنا تھا لیکن ابھی دوسری توسیع کے ’اغراض و مقاصد‘ واضح نہیں ہوسکے ۔ یہاں اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا اہم ہوگا کہ مسلح افواج میں سے صرف بری فوج کے سربراہ مخصوص حالات کی وجہ سے توسیع لیتے رہے ہیں۔ کبھی فضائیہ یا بحریہ کے کسی سربراہ کو نہ تو توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی کسی حکومت نے انہیں توسیع دی ہے۔ اب یہ کوئی ریاستی راز نہیں ہے کہ کہ ایسا کیوں ہوتا رہا ہے۔ ملکی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے نام سے موسوم فوجی قیادت کی دلچسپی کی وجہ سے اس انتظام کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوسری توسیع کا معاملہ بدستور غیر واضح رکھ کر بھی اس شبہ کو یقین میں تبدیل کیا جارہا ہے کہ ملکی سیاسی انتظام میں فوج بدستور اہم ترین محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس پہلو سے دیکھا جائے تو اس معاملہ پر فوج کی خاموشی اور وزیر اعظم کے غیر واضح جواب کے باوجود اپوزیشن کی طرف سے کسی قسم کی حیرت یا احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔ عمران خان کی ہر بات کو ملک کے لئے نقصان دہ قرار دینے والے اپوزیشن لیڈر وں نے بھی جنرل باجوہ کی دوسری توسیع کو مسترد کرنے کے لئے آوز بلند نہیں کی اور نہ ہی اس موضوع پر کوئی احتجاج رجسٹر کروایا ہے۔ ہفتہ عشرہ پہلے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اگرچہ سیاسی پارٹیوں سے ڈیل کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو یہ باتیں کرتے ہیں، ان ہی سے پوچھا جائے کہ وہ اس کا ثبوت سامنے لائیں۔ لیکن معروضی حالت اور سیاسی رویوں سے اگر ثبوت فراہم نہ بھی ہوں تو بھی تصویر کے نقوش ضرور واضح ہورہے ہیں۔
اس تصویر کا ایک ہی پیغام ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی یا آئیندہ سیاسی حکومت کا فیصلہ 2023 میں ہونے والے انتخابات میں نہیں ہوگا بلکہ اس کا تعین نومبر 2022 میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے فیصلہ سے ہوجائے گا۔ اگر اب بھی فوج کا اصرار ہے کہ اس کے سیاسی عزائم نہیں ہیں تو جنرل قمر جاوید باجوہ ابھی سے اعلان کریں کہ وہ نومبر میں ریٹائر ہوجائیں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )