سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اپنے ہی نام سے قائم مسلم لیگ کی صدارت سے علیحدہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر کو کسی بھی سیاسی پارٹی کا سربراہ بننے کا نااہل قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم سہ رکنی بنچ نے آج صبح ہی انتخابی ایکٹ مجریہ 2017 کے خلاف سماعت مکمل کی تھی۔ اس قانون کو پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت 18 درخواستوں کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ نواز شریف نے اس مقدمہ میں فریق بننے سے انکار کردیا تھا تاہم مسلم لیگ (ن) نے اپنے وکیل کے ذریعے نمائیندگی کی تھی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل رانا وقار نے آج اختتامی سماعت میں عدالت کو بتایا تھا کہ آئین کی شق 17 کسی بھی شخص کو سیاسی سرگرمیوں کا حق عطا کرتی ہے جسے کسی صورت واپس نہیں لیا جاسکتا۔ تاہم عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت نااہل ہونے والا کوئی شخص کسی پارٹی کا سربراہ بھی نہیں ہو سکتا کیوں کہ پارٹی کا سربراہ اہم قومی امور طے کر تا ہے۔ اس حکم کے تحت سینیٹ کے لئے مسلم لیگ ( ن) کی نامزدگیاں بھی منسوخ کردی گئی ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس فیصلہ کی وجہ سے 3 مارچ کو منعقد ہونے والے سینیٹ کے انتخابات متاثر ہو سکتے ہیں۔
نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے لیڈر کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دوسرا بڑا وار ہے۔ اس سے پہلے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے نواز شریف کو آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت صادق و امین نہ سمجھتے ہوئے نااہل قرار دیا تھا۔ اس حکم کی بنیاد یہ تھی کہ نواز شریف نے دوبئی میں اپنے بیٹے کی ایک کمپنی کے صدر کے طور پر مقررہ تنخواہ وصول نہیں کی تھی۔ اس لئے اسے 2013 کے انتخاب میں کاغذات نامزدگی میں ظاہر بھی نہیں کیا گیا۔ تاہم سپریم کورٹ نے غیر وصول شدہ تنخواہ کو اثاثہ مانتے ہوئے فیصلہ کیا کہ نواز شریف آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت صادق و امین نہیں رہے۔ یہ فیصلہ بدستور بحث کا موضوع بنا ہؤا ہے اور متعدد ماہرین قانون اسے ایک کمزور فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم سپریم کورٹ اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کرچکی ہے اور آج کا فیصلہ بھی پاناما کیس کے فیصلہ کا تسلسل ہے۔
فیصلہ میں انتخابی ایکٹ مجریہ 2017 کی شق 17 کو آئین سے متصادم ہونے کی بنا کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اس شق کے تحت کوئی نااہل شخص بھی پارٹی کا سربراہ بن سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ 28 جولائی کے بعد پارٹی سربراہ کے طور پر نواز شریف نے جو فیصلے کئے ہیں وہ بھی کالعدم تصور ہوں گے۔ اسی لئے مسلم لیگ (ن) کی سینیٹ کے نامزد افراد اب پارٹی امید وار کے طور پر انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ الیکشن کمیشن موجودہ حالات میں 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ الیکشن مؤخر بھی کرسکتا ہے۔ تاکہ مسلم لیگ (ن) نئے صدر کے ذریعے اپنے امید وار نامزد کرسکے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ یہ حکم مسلم لیگ(ن) کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے کہ اب وہ عدالتوں کے غلط فیصلوں پر بحث کے لئے قومی اسمبلی کے فلور کواستعمال کرے گی۔ پارٹی کے پارلیمانی گروپ کی طرف سے سوموار کو ہونے والے اس فیصلہ کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں عدالتوں پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ بعض جج منتخب نمائینوں کو چور اور ڈاکو کہتے ہیں۔ یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔ سب اداروں کو اپنی مقررہ حدود میں رہ کر کام کرنا چاہئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کل اور آج بھی اس بات سے انکار کیا ہے کہ سپریم کورٹ میں منتخب نمائیندوں کو چور کہا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ججوں نے معاملہ سمجھنے کے لئے صرف سوال دریافت کئے تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو وضاحت دینے کے پابند نہیں ہیں۔
آج سامنے آنے والا فیصلہ بلاشبہ ملک کی سپریم کورٹ کا ایک نیا سیاسی بیان ہے اور اسے وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کی نئی حکمت عملی کے جواب کے طور پر ہی دیکھا جائے گا۔ خاص طور سے سپریم کورٹ نے حال ہی میں دو ایسے مقدمات کی سماعت کی ہے جن کا فیصلہ نواز شریف کے سیاسی مستقبل کا تعین کرسکتا ہے۔ ان میں ایک مقدمہ شق 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے بارے میں ہے جس کا نشانہ نواز شریف کے علاوہ تحریک انصاف کے جہانگیر ترین بھی بنے ہیں۔ اس مقدمہ کا فیصلہ یہ طے کرے گا کہ کیا کوئی نااہل ہونے والا رکن تاحیات نااہل ہوگا یا اس کی کوئی مدت مقرر کی جائے گی۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے گزشتہ ہفتہ کے دوران اس مقدمہ کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور ابھی تک اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔
اس کے برعکس انتخابی ایکٹ 2017 کے خلاف مقدمہ کی سماعت آج صبح مکمل کر کے تھوڑے ہی وقفے کے بعد ایک مختصر حکم میں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے نااہل قرار دیا گیا۔ عجلت میں دیئے گئے اس حکم کو قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی سخت تقریر پر رد عمل اور سپریم کورٹ کا جواب الجواب بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج کا فیصلہ خواہ کیسے ہی ٹھوس قانونی جواز پر استوار ہو، اسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کا جوابی حملہ ہی کہا جائے گا۔ یہ طرز عمل انصاف کی فراہمی سے زیادہ سیاسی اختیار میں سپریم کورٹ کی حصہ داری کے معاملہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس لئے اس کے نتیجے میں ہونے والے فیصلے اور اقدامات کا سپریم کورٹ کی خود مختاری پر بھی اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر حکمران جماعت کے سخت مؤقف کو نظر انداز کرتے ہوئے چیف جسٹس سیاسی بیان کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہ کرتے اور شق 62 کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنے کے بعد اس فیصلہ کا اعلان کرتے تو اسے زیادہ معقول اور مناسب فیصلہ قرار دیا جا سکتا تھا۔ موجودہ حالات میں یہ قانونی اور آئینی سربلندی کے معاملہ سے زیادہ ججوں کی عزت نفس اور ضد کا معاملہ بن چکا ہے۔
نواز شریف اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے نااہل ہوچکے ہیں لیکن یہ جماعت ان کے ہی نام سے قائم ہے۔ اس لئے اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ نواز شریف کو ملک کے سیاسی منظر نامہ سے حرف غلط کی طرح مٹانے کا اعلان کرنے والی سپریم کورٹ مستقبل قریب میں کسی پیٹیشن پر فیصلہ کرتے ہوئے یہ حکم بھی دے کسی پارٹی کو شق 62 کے تحت نااہل شخص کے نام سے موسوم نہیں کیا جاسکتا۔ لگتا ہے فاضل ججوں کو آج حکم جاری کرنے کی جلدی میں اس کا خیال نہیں آیا ورنہ وہ اسی مختصر فیصلہ میں حکمران جماعت کو نون کے لاحقہ سے’نجات‘ دلا دیتے۔
پارٹی صدر کے طور پر نواز شریف کی نااہلی سے قطع نظر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انہیں اپنے نام سے بننے والے مسلم لیگ کے دھڑے کا کرتا دھرتا اس لئے مانا جاتا ہے کہ لوگ ان کے نام سے ووٹ دیتے ہیں۔ پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد سے نواز شریف کی سیاست کو متعدد خطرات لاحق رہے ہیں۔ وہ خود بھی فیصلہ کے بعد صبر شکر کرکے برطانیہ میں آرام دہ ریٹائر زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے مقابلہ کرنے اور عوام سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔ عدلیہ اور ججوں کے خلاف ان کی مزاحمت کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں اضافہ کی اطلاعات دی جا رہی ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم اس وقت شاہد خاقان عباسی ہیں لیکن وہ نواز شریف کو اپنا قائد اور اصل وزیراعظم کہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے فوری طور پر یہ صورت حال تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں حاصل موجودہ قوت کو اعلیٰ عدلیہ کو محدود کرنے کے لئے اقدام کرنے پر استعمال کرے گی۔ اگر وہ سیاسی حمایت نہ ملنے کی بنا پر آئینی ترمیم نہ بھی کروا سکے تو بھی قومی اسمبلی سے ججوں اور عدلیہ کو مطعون کرنے کا کام زیادہ شدت سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کا حکم نہ تو ووٹروں کو نواز شریف کے نام پر ووٹ دینے سے روک سکتا ہے اور نہ ہی پارٹی اور حکومتی معاملات میں نواز شریف کی مداخلت صرف اس لئے ختم ہو جائے گی کہ اب وہ پارٹی کے صدر نہیں ہیں۔
تصادم کے اس ماحول میں ملک کے نظام کو جو خطرات لاحق ہوں گے، ان سے صرف جمہوریت ہی متاثر نہیں ہوگی بلکہ عدالتوں کے اختیارات بھی ختم ہو سکتے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اگر فوج ایک بار پھر عدلیہ اور سیاسی حکومت کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے مداخلت کرتے ہوئے آئین معطل کرنے کا انتہائی اقدام کرتی ہے تو اعلیٰ عدالتوں کے کتنے جج ایک نئے پی سی او کے تحت حلف لینے کے لئے قطار میں لگنے کو تیار ہوں گے اور کتنے اس جبر کے خلاف اپنے گھروں کو سدھارنے کو ترجیح دیں گے۔ پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ اس حوالے سے بہت تاریک ہے۔
جمہوریت کے ثمرات سے صرف سیاست دان ہی استفادہ نہیں کرتے بلکہ عدالتیں بھی جمہوری نظام مستحکم ہونے سے ہی قوت حاصل کرتی ہیں۔ یہ بات ملک کے سب سیاست دانوں اور ججوں کو یکساں طور سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ