ایک ایسے وزیر اعظم نے اسلامی ملکوں کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیا ہے جس نے اقتدار کی طمع کے لئے خود اپنی ہی قوم کو شدید انتشار و ہیجان میں مبتلا کیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ وزیر اعظم بظاہر قومی اسمبلی میں اکثریتی ارکان کی حمایت سے بھی محروم ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود قانونی موشگافیوں اور اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی آڑ میں اپنے اقتدار کو طول دینے پر اصرار کررہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے او آئی سی افتتاحی اجلاس سے جو خطاب کیا ہے، اس میں نعروں اور بے مغز خواہشات کے انبار کےسوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
کون نہیں جانتا کہ اسلامی تعاون تنظیم سعودی عرب کا ایک طفیلی ادارہ ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں میں اتحاد کو فروغ دینے کی بجائے ، ایک خاص نظریہ اور نقطہ نظر کا پرچارہے۔ او آئی سی کوئی ایسا فیصلہ کرنے کے قابل بھی نہیں ہے جس پر اس تنظیم میں شامل ملکوں کی اکثریت عمل کرنے پر راضی ہوجائے۔ ا س لحاظ سے اس کی حیثیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھی کم تر ہے۔ جنرل اسمبلی کو کوئی فیصلہ نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اگر اس کے اجلاس میں ممالک کی قابل ذکر اکثریت کسی معاملہ پر تشویش و پریشانی کا اظہار کرے تو اسے توجہ دی جاتی ہے، میڈیا میں یہ فیصلہ نمایاں ہوتا ہے اور مختلف دارالحکومتو ں میں اسے عالمی رائے میں تبدیلی کے طور پر نوٹ کیاجاتا ہے تاکہ اس نئے رجحان کے مطابق اپنے اپنے ملکی مفادات کے تحفظ کے لئے اقدمات کئے جاسکیں۔
بدقسمتی سے اسلامی تعاون تنظیم کو یہ مقام و مرتبہ بھی حاصل نہیں ہے۔ نہ ہی اس تنظیم نے کبھی مسلمانوں سے متعلق کسی مسئلہ کو عالمی طور سے اجاگر کرنے اور مسلم ممالک کے مفادات کے لئے کسی مشترکہ حکمت عملی کا پلیٹ فارم بننے کی کوشش کی۔ یہ ضرور ہے کہ او آئی سی کو مسلمانوں کے ایک ’عالمی ادارہ‘ کے طور پر متعارف کروالیا گیا ہے جسے عالمی سفارتی منظر نامہ میں بڑی طاقتوں کے مفادات کے مقصد سے قراردادیں منظور کرنے یا بیان جاری کرنے کے لئے ضرور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو مسلمان عوام کو اس سے کوئی زیادہ توقعات وابستہ ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کو درپیش عمومی مسائل کے بارے میں شعور پیدا کیا جاسکا ہے۔ یہ تنظیم اپنی 53 سالہ تاریخ میں کسی تنازعہ کو حل کروانے میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس کے رکن ممالک متعدد باہمی تنازعات کا شکار ضرور رہے ہیں۔ یمن جنگ کا معاملہ ہو، یا شام کی خانہ جنگی اور عراق کی تباہ کاری کا قصہ یا افغانستان میں امریکی جنگ اور اس کے مضمرات ، اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک باہمی تضاد کا شکار رہتے ہیں اور ان کی پالیسیاں عام طور سے ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر خود اپنی بالادستی قائم کرنے یا کسی بڑی طاقت کی قربت کے نقطہ نظر سے تیار کی جاتی ہیں۔
اس کی سب سے کلاسک مثال فلسطین کا مسئلہ ہے ۔ بظاہر او آئی سی ممالک فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ کے خلاف رہے ہیں لیکن اسی تنظیم کے بانی اور رکن ممالک کے فراہم کردہ بالواسطہ تعاون ہی کی وجہ سے اسرائیل نے گزشتہ نصف صدی میں خود کو مشرق وسطیٰ کی ایسی ناقابل تسخیر قوت کے طور پر تسلیم کروالیا ہے کہ اب مسلمان ممالک اسرائیل کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی بجائے ، اس کے تعاون سے خود اپنی ’سلامتی و تحفظ‘ کا راستہ تلاش کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں یا معاشی مفادات سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی کسی تاریخی لطیفے سے کم نہیں کہ او آئی سی ممالک پہلے تو اسرائیل کو نیست و نابود کرکے فلسطین کے نام سے ایک مملکت قائم کرنے کی بات کرتے تھے لیکن اب دو ریاستی حل کی طرف اشارہ کرکے درپردہ اسرائیل سے پینگیں بڑھانا معمول بن چکا ہے۔ او آئی اسی کے جو ممالک بڑھ چڑھ کر فلسطینی علاقوں پر یہودی آبادیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں درحقیقت وہی ممالک اور ان کے سربراہان کسی حد تک دوسری جنگ کے بعد اسرائیل کے قیام کا سبب بھی بنے تھے۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس کی سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ پاکستان کی دیوار سے لگی حکومت اس اجلاس کی شان و شوکت میں اپنی ناکامیاں چھپانا چاہتی ہے۔ دہائیوں پر محیط گمراہ کن پالیسیوں اور موجودہ حکومت کے ساڑھے تین سال کی عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی کی وجہ سے اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کی بدترین سفارتی تنہائی کا سامنا کررہا ہے۔ یہ سفارتی دوری پاکستان کے قریب ترین دوست ممالک چین اور سعودی عرب کے ساتھ بھی موجود ہے اور تاریخی طور سے امریکہ کی سرکردگی میں جس عالمی بلاک کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان کو موجودہ مشکل حالات تک پہنچایا گیا ہے، اس کے ساتھ بھی اسلام آباد کی ناچاقی اب کوئی راز نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے قومی سلامتی مشیر نے ایک اخباری انٹرویو میں صدر بائیڈن سے عمران خان کو فون نہ کرنےکا گلہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں مراسم میں بہتری کی بجائے، وہائٹ ہاؤس نے اس شکوے پر کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ اب او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا میلہ سجا کر تحریک انصاف کی حکومت دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ طرز عمل خود اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جو اسلامی ممالک بعض اصولی معامالات پر سیاسی ہم آہنگی اور فکری مماثلت پیدا کرنے میں ناکام ہورہے ہوں ، وہ پاکستان جیسے کمزور اور بے وسیلہ ملک کو کون سی سفارتی توانائی فراہم کرسکتے ہیں؟
رہی سہی کسر آج منعقد ہونے والے اجلاس میں پاکستانی وزیرا عظم کی تقریرنے پوری کردی ہے۔ پرائمری اسکول کے سلیبس کے طرز پر تیار کئے گئے ’خطاب‘ میں عہد رفتہ کی شان و شوکت کے بیان سے راحت حاصل کرنے اور راستہ تلاش کھوجنے کا یہ رویہ ہی درحقیقت مسلمانوں اور ان کے قائدین کے راستے کاسب سے بڑا پتھر ہے۔ آج کے مسائل نئی سوچ پر استوار حکمت عملی کے ذریعے ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ معاملہ کی تہ تک پہنچنے کی بجائے سطحی انداز میں جذباتی نعروں سے مسلمانوں کا ہر مسئلہ حل کرلینا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ خبط بھی لاحق رہتا ہے کہ وہ کسی بھی نام نہاد ’کامیابی‘ کا سہرا اپنے سر باندھ سکیں۔ جیسا کہ آج کے خطاب میں اسلاموفوبیا کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے سلمان رشدی کے ناول شیطانی آیات اور نیوزی لینڈ کی مسجد میں ہونے والے قتل عام کو ملا کر ایک ملغوبہ تیار کیا اور بتایا کہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کو مسلمانوں اور اسلام سے جوڑا گیا تھا جس کی وجہ سے مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہؤا۔ جسے عرف عام میں اسلاموفوبیا کا نام دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے اقوام متحدہ کی طرف سے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف دن منانے کے اعلان کو اپنی کوششوں اور حکمت عملی کی کامیابی قرار دینے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ حالانکہ ہر ذی شعور یہ جان سکتا ہے کہ یہ تصویر نہ اتنی سادہ ہے اور نہ ہی سماجی رویوں پر مشتمل معاملات سیاہ یا سفید ہوتے ہیں۔ عمران خان کی ایک تقریر نے اسلاموفوبیا کے خلاف مغربی یا عالمی رائے تبدیل نہیں کی بلکہ واقعات کے تسلسل، مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں اور ان کے نمائیندوں کی جد و جہد، جمہوری و انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے عناصر کی تگ و دو اور کسی عقیدہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والے تعصب سے سماج کو لاحق اندیشوں کی بنا پر پیدا ہونے والے عالمی شعور کی وجہ سے اقوام متحدہ اس نتیجہ تک پہنچی کہ تمام غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں یا اسلام کے خلاف منفی تعصبات کی روک تھام اور درست معلومات کی بنیاد پر متوازن رائے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یہ حل وہ ممالک خود تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں جہاں اسلاموبیا نامی تعصب کی وجہ سے سماجی و سیاسی مسائل سر اٹھانے لگے ہیں جس کا ایک مظاہرہ 22 جولائی 2011 کو ناروے میں ایک دہشت گرد کے حملوں اور قتل وغارت گری کی صورت میں سامنے آیا تھا اور پھر اسی کا تسلسل 15 مارچ 2019 کونیوزی لینڈ کے شہر چرچ کرائسٹ کی ایک مسجد پر خونریز حملہ میں دیکھنے میں آیا۔
عمران خان نےچرچ کرائسٹ حملہ کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ذکر کیا۔ وہ اگر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور حکومت کے رد عمل کا حوالہ بھی دیتے اور سمجھانے کی کوشش کرتے کہ کس طرح ذمہ دار حکومتیں نفرت کی بنیاد پر دہشت گردی کے کسی واقعہ سے نمٹتی ہیں تو انہیں خود اپنے معاشرے میں موجود مذہبی نفرت اور ظلم و جبر کے خلاف کام کرنے کے لئے رہنمائی مل سکتی تھی۔ البتہ سطحی طور سے معاملات پر نگاہ ڈالنے والا کوئی بھی شخص ، عمران خان ہی کی طرح مغرب میں مسلمانوں کے خلاف ’نفرت‘ کا ذکر ضرور کرے گا لیکن ان کوششوں کا ذکر نہیں کرے گا جو یہ ممالک اس نفرت پر قابو پانے کے لئے کرتے ہیں۔ قانون سازی، سیاسی حکمت عملی اور سماجی مباحث کے ذریعے اس مسئلہ سے نمٹنے کی منظم کوششیں ہورہی ہیں۔ دراصل پوری تصویر دکھانے سے اپنے سماج کا پورا عریاں وجود دکھائی دینے لگتا ہے جو خود ستائی کے مرض میں مبتلا لیڈر وں کو دیکھنا گوارا نہیں ہے۔
عمران خان جس وقت مسلمان ملکوں کو عالمی بلاک بنانے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے اور یہ واعظ ارشاد فرما رہے تھے کہ اسلاموفوبیا نے کیسے یورپ و امریکہ میں آباد مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی ہے،اسی وقت سکھر کے ایک گاؤں سے ایک نوجوان ہندو لڑکی کے بہیمانہ قتل کی خبر بھی سامنے آرہی تھی۔ اپنے ملک میں اقلیتی عقائد کے خلاف نفرت کو پروان چڑھتے دیکھنے والے ملک کا لیڈر اگرمسلمانوں کے خلاف تعصب کو مسترد کرے گا تو کون اسے اہمیت دینے پر تیار ہوگا۔ اس آئینہ میں عمران خان ہی نہیں او آئی سی میں شامل سب ممالک کے لیڈروں کی تصویر کریہہ دکھائی دے گی۔ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اگر بلند بانگ دعوے کرنے اور ان کے میزبان اسلاموفوبیا کو عالمی ایجنڈے پر لانے کا کریڈٹ لینے کی بجائے اگر سکھر کی پوجا کماری کے قتل پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرتے تو دنیا اس اجلاس سے جانے والے پیغام پر ضرور غور کرتی۔ انسانوں کے ایک گروہ پر ظلم کے خلاف بات کرنے والے جب دوسرے عقائد کے ماننے والوں پر مظالم کو اہم نہیں سمجھیں گے تو اس یک طرفہ رویہ کو کہیں پزیرائی نصیب نہیں ہوسکتی۔
عمران خان اگر دنیا میں مسلمانوں کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے ملک میں اقلیتوں کو تحفظ دینے کا اہتمام کریں۔ اسلاموفوبیا پر لیکچر دینے کی بجائے سکھر کی پوجا کماری کو انصاف دلائیں۔ کیا وہ بھی نیوزی لینڈ کی جیسنڈا آرڈن کی طرح پوجا کماری کے ورثا کے گھر جاکر انہیں گلے لگا سکتے ہیں؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ