وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ سے پہلے اپوزیشن کو ایسا سرپرائز دیں گے کہ وہ منہ کے بل گرے گی اور اسے شکست فاش ہوگی۔ انہوں نے ایک بار پھر 1992 کے ورلڈ کپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جیسے انہوں نے اس مقابلے سے پہلے بتا دیا تھا کہ جیت انہی کی ہو گی، ویسے ہی وہ اب بھی یہ اعلان کررہے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کے باوجود وہ سرخرو ہوں گے اور اپوزیشن منہ دیکھتی رہ جائے گی۔
عمران خان دعوے کرنے اور اپنے علاوہ اپنے حامیوں کو دھوکہ دینے میں یقیناً ید طولی رکھتے ہیں ۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں اپوزیشن کو حیرن کردینے والا شعبدہ دکھانے کا اعلان بھی دھوکہ دہی کی ایسی ہی واردات ہے۔ اگر عمران خان کو یقین ہوتا کہ انہیں قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے تو وہ مسلسل بدحواسی کا مظاہرہ نہ کرتے اور امور حکومت چھوڑ کر اپوزیشن کے علاوہ اپنی دانست میں اسٹبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کے لئے ’عوامی رابطہ مہم‘ کا آغاز نہ کرتے۔گزشتہ دو ہفتے کے دوران عمران خان کی چال ڈھال، طرز گفتگو اور انداز تکلم سے شکست خوردگی اور شدید پریشانی کا اظہار ہؤا ہے۔ یہ کیفیت صرف وزیر اعظم کے مخالفین ہی نے نوٹ نہیں کی بلکہ ان کے حامی بھی اس کیفیت کو دیکھ کر بوکھلائے ہوئے ہیں۔ اسی لئے جلسوں میں عمران خان جو زبان اپنے سیاسی حریفوں کے علاوہ اپنی ہی پارٹی کے منحرف ارکان کے بارے میں استعمال کرتے رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کے حامیوں نے اس سے کئی گنا بدترین انداز میں سیاسی مخالفین کے علاوہ اسٹبلشمنٹ کے چیدہ چیدہ نمائیندوں کو مخاطب کیا ہے اور افترا پردازی کے نت نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دوسروں کو ’گھبرانا نہیں ہے‘ کا درس دینے والے لیڈر کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے حامیوں نے بدحواسی میں دشنام طرازی اور الزام تراشی کی تمام حدود پار کرلی ہیں۔
یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ سوشل میڈیا پر اداروں اور شخصیات کے خلاف بہتان باندھنے والے عناصر کو عمران خان کی براہ راست آشیر واد حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج میڈیا سے گفتگو میں جہاں انہوں نے حیران کردینے کی ناقابل یقین صلاحیت کا یقین دلایا اور اعلان کیا کہ وہ کسی صورت استعفیٰ نہیں دیں گے ، اس کے ساتھ انہوں نے فوج کی خدمات گنواتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا کہ یہ ملک مضبوط فوج ہی کی وجہ سے محفوظ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’فوج کو غلط تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مضبوط فوج ملک کی ضرورت ہے۔ افواجِ پاکستان ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ اگر پاک فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہوجاتے۔ اپنی سیاست کے لیے ملکی سرحدوں کی محافظ فوج کو بدنام نہ کیا جائے‘۔ ایسے نرم الفاظ میں فوج کے بارے میں ترش گوئی ترک کرنے کا مشورہ سوائے اپنے حامیوں کے کسی اور کو نہیں دیاجاسکتا۔ اس سے پہلے جب اپوزیشن پارٹیاں فوج پر جانبداری اور موجودہ حکومت کی سرپرستی کا الزام عائد کرتی تھیں یا نواز شریف نے بعض لیڈروں کا نام لے کر سیاسی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا تو عمران خان اور ان کے ساتھی اس تنقید کو غداری ، وطن دشمنی اور بھارت نوازی قرار دیتے رہے تھے۔ اب اپوزیشن یقین سے یہ کہتی دکھائی دیتی ہے کہ فوج اس وقت ’غیر جانبدار یا نیوٹرل ‘ ہےا ور سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کررہی۔ اس کا ثبوت خود عمران خان کی بدحواسی اور تحریک انصاف کی الزام تراشی نے فراہم کردیا ہے۔
اسی پریشانی میں عمران خان نے غیر جانبداری کی ’اسلامی تشریح‘ کرتے ہوئے ’فتویٰ ‘ دیا تھا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان سے دوست دشمن سب کو پتہ چل گیا تھا کہ اس بیان کے دو ہی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان امید ہار چکے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ فوج اس مرحلے پر ملک میں جاری سیاسی کشمکش میں فریق بننے پر تیار نہیں ہے بلکہ کسی حد تک اس نے یہ معاملہ سیاسی پارٹیوں پر چھوڑ دیا ہے کہ قیادت کے سوال پر اٹھنے والے تنازعہ کا حل خود ہی تلاش کرلیں۔ اپوزیشن نے اس پر تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان پر باقاعدہ عدم اعتماد کا اظہار کردیا اور سیاسی رابطوں سے ایوان میں حکومتی پارٹی کی اکثریت ختم کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔ اسی عمل کے دوران تحریک انصاف کے دو درجن کے لگ بھگ ارکان منحرف ہوگئے اور حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی کناہ کشی کے اشارے دینے شروع کردیے۔ یہ صورت حال بدستور موجود ہے اور عمران خان اس سیاسی مینا بازار میں کسی جادو گر کی طرح اپنی پٹاری سے کوئی ایسا عجوبہ نکالنے کا اعلان کررہے ہیں جو سب کو ششدر کردے گا۔
سب جانتے ہیں کہ جادوگروں کے اعلانات اور سنسنی پیدا کرنے والے دعوے ہی ان کا سب سے بڑا ’عجوبہ‘ ہوتے ہیں ورنہ ان کے پاس ٹھوس سچائی کو تبدیل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ یہ نظر کا دھوکہ یا زبان کی چاشنی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ بعض لوگ اسے جادو گر کی کاریگری ضرور مان لیتے ہیں لیکن اس کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ نہ کسی کے ہاتھ میں پکڑ ا رومال کسی دوسرے کی جیب سے نکلتا ہے اور نہ ہی کسی صندوق کو بیچ سے کاٹ کر اس میں بند لڑکی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دوبارہ ’زندہ ‘ کیا جاسکتا ہے۔ عمران خان یہ سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں کہ نیوٹرل کو جانور کہنے کے بعد اب وہ اپنی وضاحت سے پھٹے ہوئے ایک پیج کی مرمت کرسکیں گے۔ کاغذ کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتا کہ رفو گری کا کام کیا جاسکے۔ یہ شیشے کی طرح ہوتا ہے کہ ایک بار بال آگیا تو اسے دور کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اب عمران خان نیوٹرل اور جانور سے اچھائی اور برائی کے جو چاہے معنی نکالنے کی کوشش کریں ، ان کا پیغام بہت صاف الفاظ میں نہ صرف ہر اس جگہ پہنچ چکا ہے جہاں وہ پہنچانا چاہتے تھے بلکہ ان حلقوں تک بھی اس کی رسائی ہوگئی ہے جہاں تک یہ بات نہیں پہنچنی چاہئے تھی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بولنے سے پہلے سوچ لیا جائے تو بہتر ہوتا ہے لیکن عمران خان فاسٹ بالر کی رفتار سے بولنے اور دعوے کرنے کے قائل ہیں، اس میں سوچنے کا وقت نہیں ملتا۔
عمران خان نے استعفی نہ دینے اور آخری دم تک لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ان کی اس بالک ہٹ سے دوست دشمن سب آگاہ ہیں۔ کسی کو عمران خان جیسے چھچھورے اور کم فہم لیڈر سے ایسی عالی ظرفی اور سیاسی بلوغت کی امید نہیں ہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہونے کے بعد وہ باعزت طریقے سے استعفی دے دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد بھی وہ اسے ماننے سے انکار کرکے اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کی کوشش کریں۔ آئین شکنی کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے میں تاخیر کی گئی ہے تاکہ عمران خان کو گٹھ جوڑ کرنے اور ناراض ساتھیوں کو راضی کرنے کا زیادہ سے زیادہ وقت فراہم ہوسکے۔ اس کے علاوہ شدید بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے حد تاخیر سے سپریم کورٹ میں منحرف ارکان کے حق رائے دہی کے علاوہ پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے والوں کو تاحیات نااہل قرار دلوانے کا ’مشورہ‘ لینے کے لئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔سپریم کورٹ نے ریفرنس پر سماعت کے لئے پانچ رکنی بنچ قائم کردیا ہے اور جمعرات سے اس ریفرنس پر غور بھی شروع ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے اس بنچ کی تشکیل کے حوالے سے تحفظات بھی سامنے آگئے ہیں اور عدالت عظمی کے سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سینئر ججوں کو نظر انداز کرنے کو عدالتی روایت سے گریز قرار دیاہے جس سے سپریم کورٹ کی کارکردگی متاثر ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام ایک خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی لکھا ہے کہ آئین کی شق 186 کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کے ساتھ نہیں سنا جاسکتا ۔ ایک سینئر جج کے اس خط کے بعد اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ریفرنس کی سماعت کے دوران متعلقہ بنچ کو کیسی مشکلات پیش آسکتی ہیں اور کوئی رائے دینے سے پہلے کیسے کیسے قانونی اور آئینی نکات کی گتھیاں سلجھانے کی ضرورت پڑے گی۔ تاہم یہ صورت حال ’اکثریت کے اعتماد سے محروم ہوجانے والے‘ وزیر اعظم کی سیاسی حکمت عملی کے عین مطابق ہے۔
عمران خان نے اپنے سینے کے ساتھ لگے جن پتّوں کو ایک روز پہلے ظاہر کر نے کی جو بات کی ہے ، اس کا تعلق قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کی کسی حکمت عملی سے نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ کی سماعت میں طوالت کا عذر بنا کر کسی طرح قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی رکوانے یا اس کے نتیجہ کو مؤخر کروانے کی خواہش سے ہے۔ عمران خان کو لگتا ہے کہ سپریم کورٹ سے ایسا حکم لیا جاسکے گا کہ منحرف ارکان نااہلی کے خوف سے عمران خان کی حمایت جاری رکھنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اول تو یہ امر غیر یقینی ہے کہ کس حد تک سپریم کورٹ عمران خان کی سیاسی چال میں ان کی ’معاونت‘ پر راضی ہوگی لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ سپریم کورٹ حکومت کی خواہش کے مطابق باغی ارکان کو نااہل کرنے کی رائے دیتی ہے اور اس دباؤ میں عمران خان کسی طرح اپوزیشن کو 172 ارکان کی حمایت حاصل نہیں ہونے دیتے تو ایسی ’میچ فکسنگ‘ سے بازی جیتنے پر وہ کس منہ سے اپنی سرخروئی کا اعلان کریں گے؟
اس سطور میں عرض کیا جاچکا ہے کہ اب یہ اہم نہیں ہے کہ عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے علیحدہ ہوتے ہیں، استعفیٰ دیتے ہیں یا انہیں بدستور اکثریت کی ’حمایت‘ حاصل رہتی ہے۔ عملاً عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب اقتدار میں ان کے دنوں میں کمی زیادتی ہوسکتی ہے لیکن چیف ایگزیکٹو کے طور پر ان کا اختیار اور سیاسی لیڈر کے طور پر ان کا وقار خاک میں مل چکا ہے۔ کامیاب کپتان اپنی ٹیم کو ایسی صورت میں پھنسانے کی بجائے باعزت طریقے سے شکست قبول کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ عمران خان کا واحد راز یہی ہے کہ وہ شکست کو تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہیں ، ورنہ اقتدار کے اس ڈرامے کا کون سا ایسا صفحہ ہے جو عوام کی نگاہوں سے چھپا رہ گیا ہو۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ