وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے پیش کش کی ہے کہ وزیر اعظم اپنی حکومت کے خلاف عالمی سازش کے ثبوت پر مبنی خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ چیف جسٹس کو یہ خط ان کی ذاتی حیثیت میں دکھایا جاسکتا ہے کیوں کہ وہ ملک کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں البتہ اس عمل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ اس طرح وفاقی حکومت کے نمائیندوں نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی سیاست میں سپریم کورٹ کو ملوث کرنے کی بھونڈی اور نازیبا حرکت کی ہے۔
گزشتہ روز ارکان قومی اسمبلی کی پارٹی وفاداری کے حوالے سے آئین کی شق 63 اے کی وضاحت کے لئے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس پر غور کے دوران بنچ کے ارکان نے وزیر اعظم کے اس بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کو ’خریدنے‘ کی کوشش کررہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کمالیہ میں عمران خان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ’ کیا مناسب نہیں ہوگا کہ وزیر اعظم ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کریں‘۔ فاضل ججوں نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ اگر وزیراعظم کو ملک کے سب سے بڑے عدالتی فورم پر ہی اعتماد نہیں ہے تو وہ خود کیسے امید کرسکتے ہیں کہ ارکان اسمبلی ان پر اعتماد کریں؟ تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کمرہ عدالت سے باہر کہی جانے والی باتوں اور وقوعات سے متاثر نہیں ہوتے۔ ججوں کے ریمارکس کے بعد ہی آج اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے وزیر اعظم کا ایک بیان عدالت میں پیش کیا کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کی خود مختاری پر پورا یقین رکھتے ہیں، کمالیہ کا بیان 1997 میں سپریم کورٹ پر حملہ کے تناظر میں دیا گیا تھا۔
اس وضاحت کے باوجود آج وفاقی وزرا اسد عمر اور فواد چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں عدالتی وقار کو داغدار کرنے کی نئی کوشش کی ہے۔ ایک ایسے پراسرار خط کے بارے میں چیف جسٹس کا نام استعمال کرنا جس کے بارے میں وزیر اعظم اور ان کے رفقا کے زبانی دعوؤں کے علاوہ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے ، درحقیقت ملکی سیاست میں اعلیٰ عدلیہ کو ملوث کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔ عمران خان اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد ایک صدارتی ریفرنس کے ذریعے اپنی ہی جماعت کے منحرف ارکان کو ’ہراساں‘ کرنے کا اقدام کرچکے ہیں۔ اب اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کو اس امر پر قائل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں کہ پارٹی لائن سے علیحدہ ہوکر عدم اعتماد کے سوال پر ووٹ دینے والے ارکان کو ساری عمر کے لئے نااہل قرار دینا چاہئے کیوں کہ یہ عوامی عہدے سے ’خیانت‘ کے مترادف ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے قائدین چونکہ خیانت و دیانت کے بارے میں مخصوص نظریا ت رکھتے ہیں ، اس تناظر میں اٹارنی جنرل کے دلائل قانونی و آئینی سے زیادہ سیاسی خواہشات کی عکاسی کررہے ہیں۔ تاہم صدارتی ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب عدالت عظمی کو ہی دینا ہے۔ اس وقت تک اس معاملہ پر کوئی رائے دینا مناسب نہیں ہے۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ حکومت کو آئین کے تحفظ سے زیادہ عمران خان کی کرسی بچانے کی فکر ہے اور اس کے لئے ہر قسم کا ہتھکنڈا اختیار کیا جارہا ہے۔ صدارتی ریفرنس جسے اصولی طور پر محض قانونی گتھی سلجھانے کے لئے استعمال ہونا چاہئے تھا، اسے ایک سیاسی ہدف حاصل کرنے کے لئے بروئے کار لایا گیا ہے۔ عدالت کو سیاست میں گھسیٹنے کی یہ حرکت ہی افسوسناک تھی۔ اس طریقے سے ایک طرف ارکان اسمبلی پر اپنی مرضی و منشا کے خلاف ایک ایسے شخص کو ووٹ دینے کے لئے دباؤ ڈالا جارہا ہے جس پر عدم اعتماد کا اظہار متعدد ارکان برملا کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر غور کے لئے جو تاخیری ہتھکنڈےاختیار کئے گئے ہیں، سپریم کورٹ میں دائر ریفرنس بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جمعرات کو جب قومی اسمبلی باقاعدہ طور سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر غور شروع کرے گی تو سپریم کورٹ میں ریفرنس کو بنیاد بنا کر اسے مؤخر کرنے کی کوئی نئی کوشش بھی دیکھنے میں آئے۔ حالانکہ ایسی کوئی کوشش مقررہ آئینی طریقہ کار اور ٹائم فریم سے متصادم ہوگی ۔ لیکن اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اس سے پہلے بھی اسمبلی کااجلاس مقررہ مدت میں طلب نہ کرکے اور پھر اسے ایک رکن کی فاتحہ کے بعد اچانک ملتوی کرکے آئینی تقاضوں اور پارلیمانی روایات کو پامال کرچکے ہیں۔
اب اسد عمر نے چیف جسٹس پاکستان کو ایک جھوٹی سیاسی کہانی میں ملوث کرنے کے جس ’عزم‘ کا اظہار کیا ہے ، اسے ملک کے ایک خود مختار ، باوقار اور بااختیار ادارے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اس بات کا کوئی امکان موجود نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز جسٹس عمر عطا بندیال اس حکومتی کوشش میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوں گے۔ سپریم کورٹ کا کوئی بھی جج کسی بھی معاملہ میں اسی وقت غور کرسکتاہے جب کسی قانونی بنیاد پر کوئی مقدمہ اس کے سامنے لایا جائے۔ زیر بحث معاملہ میں اسد عمر خود یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ’ ایک قابل اعتبار عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے ملکی خود مختاری اور حکومت کے خلاف کی جانے والی بیرونی سازش کے ثبوت پر مبنی خط دکھا کر گواہ بنایا جائے گا‘۔ اس حوالے سے یہ نوٹ کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ وفاقی حکومت اپوزیشن یا پارلیمنٹ کو اس معاملہ پر اعتماد میں لینے کے لئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی میڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان گزشتہ چند روز میں صدارتی ریفرنس پر غور کے دوران متعدد بار یہ سوال اٹھاچکے ہیں کہ جو سوالات سپریم کورٹ کو حل کرنے کے لئے کہا جارہا ہے اسے پارلیمنٹ خود کیوں طے نہیں کرتی اور اراکین قومی اسمبلی کی وفاداری کے بارے میں قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی۔ اب حکومت ایک مشکوک خط اور غیر واضح مؤقف کے بارے میں چیف جسٹس کو فریق بنا کر ملکی سیاست میں ایک نئی سنسنی خیزی اور تنازعہ پیدا کرنے کی شرمناک کوشش کرنے کر رہی ہے۔
اسلام آباد میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس میں اسد عمر اور فواد چوہدری کے بیانات کا محور اس سازشی نظریہ پر تھا کہ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ سازبازکررہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے۔ اس مؤقف کا سادہ سا مقصد عوام کو گمراہ اور ارکان قومی اسمبلی کو ان کے مؤقف سے باز رہنےپر آمادہ کرنا ہے۔ اسد عمر کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ ’پاکستانی سیاست میں غیرملکی مداخلت اور وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا گہرا تعلق ہے۔ یہ خط تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے لکھا گیا تھا‘۔ البتہ وفاقی وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس خط کے مندرجات قانونی وجوہات کی بنا پر عام نہیں کئے جاسکتے۔ اسد عمر کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے خود یہ خط دیکھا ہے اور اس کی گواہی دے سکتے ہیں۔ ان کے بقول یہ خط اعلیٰ سول اور فوجی قیادت کے علاوہ وفاقی کابینہ کے چند ارکان کے ساتھ شئیر کیا گیا ہے۔
اسد عمر نے دعویٰ کیا کہ ’نواز شریف اسرائیلی سفارت کاروں سے بھی ملے ہیں۔ نواز شریف جیسے لوگ جب ملک سے باہر جاتے ہیں تو وہ بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کے آلہ کار بن جاتے ہیں‘۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان جمہوری تحریک کی اعلیٰ قیادت جانتی ہے کہ یہ خط کیوں کر تحریک عدم اعتماد کے ساتھ جڑا ہؤا ہے۔ وہ میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ تمام معاملات طے ہوچکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ کس طرح تحریک عدم اعتماد کے پیچھے بیرونی سازش کام کررہی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’البتہ اپوزیشن سمیت قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کو یہ پتہ نہیں ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں۔ اگر انہیں اس کی خبر ہوتی تو وہ اس سازش کا حصہ نہ بنتے۔ اب ساری معلومات سامنے آنے کے بعد ارکان اسمبلی بڑی تصویر کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں‘۔
اس دوران اپوزیشن کی طرف سے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلا کر اس خط کو پاکستانی عوام کے نمائیندوں کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے لیکن وفاقی حکومت کے نمائیندے اس مشورہ و مطالبہ کو ماننے پر تیار نہیں ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسد عمر کے ساتھ پریس کانفرنس میں لیاقت علی خان کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور جنرل ضیا الحق کی ایک طیارے کے حادثے میں ہلاکت کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ملک میں وزیر اعظم کو ہٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس خط میں عمران خان کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنا طرز سیاست تبدیل نہ کیا تو انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی‘۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اس قسم کے دھمکی آمیز مراسلوں کے بارے میں واضح قواعد موجود ہیں کہ ان کے بارے میں کسے مطلع کیا جاسکتا ہے۔ یہ حساس نوعیت کے معاملات ہوتے ہیں۔
البتہ اس دوران قومی انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبون نے متعلقہ حکام اور حلقوں سے رابطہ کرکے اس خط کے مندرجات کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جس کی بنیاد پر عمران خان اور ان کے رفقا تحریک عدم اعتماد کو بیرونی ملکوں کی سازش ثابت کرنے کے دعوے کرتے ہوئے کسی نامعلوم خط کا حوالہ دے رہے ہیں۔ لیکن کسی بھی ذریعے نے ایسے کسی خط کی موجودگی سے لاعلمی ظاہر کی ہے۔ وزارت خارجہ نے بھی اس حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے گر یز کیا ہے۔ اخبار کی رپورٹنگ ٹیم نے وفاقی وزیر اطلاعات کو اس حوالے سے چند سوال بھجوائے تھے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہؤا۔ یہ سوالات کچھ یو ں ہیں:
1)حکومت کو کب دھمکی وصول ہوئی۔ اسے فوجی قیادت کے ساتھ کب شئیر کیا گیا اور ان کا ردعمل کیا تھا؟
2)وزیر اعظم نے اس مسئلہ پر بات کرنے کے لئے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب نہیں کیا؟
3)دھمکی آمیز خط ملنے کے بعد حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں؟ کیا اس حوالے سے متعلقہ ملک کے سفیر کو طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دیا گیا ہے؟
4) یہ دھمکی کہاں سے موصول ہوئی ہے؟
فواد چوہدری نے اس اہم قومی معاملہ پر ایک قومی اخبار کے ان بنیادی سوالوں کا جواب دینے کی بجائے اسد عمر کے ساتھ پاکستان کی تاریخ کے واقعات کو مرضی کے مطابق تروڑ مروڑ کر پیش کرنے اور سازش کے بارے میں خط کے مندرجات پر چیف جسٹس کو گواہ بنانے کا ڈرامہ رچانے کو ترجیح دی۔ اس حکومتی طرز عمل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سازش کون کررہا ہے یا سازش کا نام لے کر کسے گمراہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ رویہ قومی سیاست میں ایک نئی پستی کا اشارہ ہے ۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم عدم اعتماد سے بچنے کے لئے کسی بھی بے اصولی پر آمادہ ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ