پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ایک بار پھر پاکستانی سیاست دانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی سیاسی گفتگو میں فوج کو ملوث کرنے سے باز رہیں اور فوجی افسروں کا نام لے کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کا طریقہ ترک کیا جائے۔ آئی ایس پی آر کے بیان کے علاوہ میجر جنرل بابر افتخار نے میڈیا گفتگو میں واضح کیا ہے کہ ملک میں انتخابات کا فیصلہ سیاست دانوں نے کرنا ہے اور وہ یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
اس سے پہلے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چئیرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے یہ دلچسپ انکشاف کیا تھا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک رات پہلے انہیں پیغام پہنچایا گیا تھا کہ یا تو نئے انتخابات کو قبول کرلیا جائے یا پھر ملک میں مارشل لا نافذ ہوجائے گا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس دھمکی کے باوجود جو مبینہ طور پر سابق حکومت کے ایک اہم وزیر کی جانب سے دی گئی تھی، ملک میں حکومت کو قانونی اور آئینی طریقے سے تبدیل کرلیا گیا۔ ا دارے نے بھی سمجھداری کا ثبوت دیا اور ملک میں سیاسی تبدیلی مقررہ طریقہ کے مطابق رونما ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ نئے انتخابات اصلاحات لانے کے بعد ہی ممکن ہوں گے۔ انہوں نے آئین شکنی کے مرتکب ہونے والے سب کرداروں کے بارے میں پارلیمانی کمیشن میں تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کمیشن ہی یہ تمام حقائق ریکارڈ پر لا سکتا ہے کہ اس بحران کے دوران کون کون آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہؤا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چئیر مین ایک طرف آئین شکنی کا ارتکاب کرنے والے صدر، سابق وزیر اعظم ، سابق اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر یا سابق گورنر پنجاب کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے ان تمام لوگوں کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا مطالبہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمات بھی قائم ہوں لیکن یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ اس ملک میں کون سے عناصر متفقہ آئینی طریقہ کو ماننے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ لندن میں موجود وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے نصف درجن وزرا بھی نواز شریف کے ساتھ اسی سوال پر غور کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں کہ ملک میں آئین کی بجائے سازش اور سیاسی عمل کی بجائے احتجاج اور خانہ جنگی کی باتیں کرنے والوں کے خلاف کون سا اقدام کرنا مناسب ہوگا۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کل اعلان کیا تھا کہ اس مشاورت کے بعد جمعرات کو اہم فیصلے کئے جائیں گے تاہم رات گئے تک ان فیصلوں کا اعلان نہیں ہوسکا تھا۔
خیال ہے کہ شہباز شریف جن اہم امور پر نواز شریف کی صلاح لینے اور ان کی رضامندی حاصل کرنے لندن گئے ہیں، ان میں تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا معاملہ سر فہرست ہے۔ اس اجلاس میں جن تجاویز پر غور مطلوب تھا ، ان میں بنیادی نکتہ یہی تھا کہ کیا حکومتی طاقت استعمال کرتے ہوئے عمران خان کے پرجوش حکومت مخالف احتجاج کو روکنے کی کوشش کی جائے یا انہیں ’جلد انتخابات کروانے کا لولی پاپ ‘ دے کر ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی لئے گزشتہ روز آصف زرداری اور آج بلاول بھٹو زرداری نے نئے انتخابات کو انتخابی اصلاحات سے مشروط کیا ہے۔ گویا پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنا مؤقف واضح کردیا ہے کہ وہ فوری انتخاب کروانے کے حق میں نہیں ہیں۔ جبکہ اس وقت مشاورت کے لئے لندن میں موجود وزیردفاع خواجہ آصف نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’نہ صرف انتخابات جلد ہوسکتے ہیں بلکہ ٹائم فریم کے لحاظ سے یہ بھی ممکن ہے کہ نومبر سے پہلے انتخابات کے نتیجے میں کامیاب ہونے والی پارٹی نئی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے‘۔ ان کا یہ اشارہ درحقیقت نومبر میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی مدت ختم ہونے اور پاک فوج کے نئے سربراہ کی تقرری کے حوالے سے اہم تھا۔ عام طور سے سمجھا جارہا ہے کہ عمران خان اسی لئے فوری انتخابات کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ وہ نومبر سے پہلے اقتدار حاصل کرکے اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کرسکیں۔
حیرت کا مقام ہے کہ ملکی سیاست کے سارے راستے صرف ایک کلیدی عہدے پر تقرری کی طرف جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف پاک فوج کے ترجمان واضح کررہے ہیں کہ فوج سیاست سے تائب ہوچکی ہے، اسے متعدد محاذوں پر قومی تحفظ کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہیں اور ملکی سیاست دان انتخابات کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سیاست دان خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اپنے طور پر یہی سمجھ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ فوجی قیادت کے اشارے سے ہی ممکن ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس رائے کے مطابق کوئی سیاسی فیصلہ اس وقت تک قابل عمل اور پائیدار نہیں ہوگا جب تک اسے فوجی قیادت کی آشیر باد حاصل نہ ہو۔ حیرت انگیز طور پر آئی ایس پی آر کے سربراہ کے سوا ملک کا کوئی سیاست دان یا تجزیہ نگار اس رائے سے اختلاف نہیں رکھتا۔ عمران خان کی سرکردگی میں تحریک انصاف کی قیادت مسلسل اس بات پر زور دے رہی ہے کہ فوج براہ راست مداخلت کرکے حکومت کو فوری طور سے اسمبلیاں توڑنے اور انتخابات منعقد کروانے پر مجبور کرے۔
اگر عمران خان کی تقریروں میں بیان کئے گئے مقصد کو بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو کہاجاسکتا ہے کہ ’ملک میں امن بنائے رکھنے اور خیر کا بول بالا کرنے کے لئے فوج تحریک انصاف کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے کردار ادا کرے اور غیر جانبداری کا ڈھونگ چھوڑا جائے‘۔ اس کا عملی مظاہرہ عمران خان کے وفادار عمر سرفراز چیمہ نے پنجاب کی گورنری سے معزول ہونے سے پہلے آرمی چیف کو ایک خط میں پنجاب کے سیاسی معاملات میں براہ راست مداخلت کی دعوت دیتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں صدر مملکت کے توسط سے یہ درخواست کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف مجھے ایک صوبیدار اور چند جوان فراہم کردیں تو میں ’جعلی ‘ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو گرفتار کرلوں گا‘۔ دوسری طرف شہباز شریف کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ بیت چکا ہے لیکن وہ معاشی معاملات تو ایک طرف کوئی اہم انتظامی، قانونی اور سیاسی فیصلہ بھی نہیں کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف کے ذریعے جلد انتخابات کا چارہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ تحریک انصاف کے دم خم کا اندازہ کیا جاسکے ۔ لیکن پیپلز پارٹی نے جلد انتخابات کی تجویز کو اصرار کے ساتھ مسترد کرکے اتحادی حکومت کی سب سے بڑی پارٹی کے لئے ایک نئی مشکل پیدا کی ہے۔ آصف زرداری کا دعویٰ ہے کہ ان کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ معاہدہ ہے کہ انتخابی اصلاحات سے پہلے انتخابات نہیں ہوں گے۔
اسی تناظر میں سیاسی گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف فوج بلکہ مخصوص فوجی افسروں کے کردار پر بات کی جاتی ہے۔ عمران خان نے امریکی سازشی نظریہ کو مقامی رنگ دینے کے لئے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور پشاور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو اپنی ’آنکھیں اور کان ‘ بتاتے ہوئے یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ وہ کیوں انہیں بدستور انٹیلی جنس چیف رکھنا چاہتے تھے۔ اس دعوے کا ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’جنرل فیض حمید عمران خان کی آنکھیں اور کان نہیں بلکہ وہ ہاتھ تھے جن کے ذریعے وہ سیاسی مخالفین کی گردن دبوچتے تھے‘۔ اسی لئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بی بی سی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ اگر فیض حمید سنارٹی کے لحاظ سے موزوں ہوں گے اور نئے آرمی چیف کے لئے ان کا نام تجویز کیا جائے گا تو حکومت ضرور اس پر غور کرے گی۔ جبکہ مریم نواز نے اس پر گرہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’آرمی چیف جو بھی ہو ، وہ کوئی اہل شخص ہوجس پر کوئی داغ نہ ہو‘۔ گزشتہ روز ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے آصف زرداری کی اہم پریس کانفرنس میں بھی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام سامنے آیا اور ان کا نام لے کر سوال پوچھا گیا جس پر پیپلز پارٹی کے تجربہ کار رہنما کا کہنا تھا کہ ’وہ بیچارا تو کھڈے لائن لگا ہؤا ہے‘۔ بعد میں آصف زرادری نے وضاحت کی ہے کہ یہ الفاظ ’نادستگی میں ادا ہوگئے‘
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے بارے میں ملکی سیاست کے حوالے سے گفتگو کا ایک ہی عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ ان کے بارے میں یہ تاثر عام کیا گیا ہے کہ وہ عمران خان کی ’گڈ بکس‘ میں تھے ۔ انہیں آئی ایس آئی کا سربراہ رکھنے کے لئے بطور وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف سے اختلاف مول لیا اور تحریک عدم اعتماد کے دوران ایک مرحلہ پر یہ خبریں بھی پھیلی تھیں کہ عمران خان جنرل باجوہ کو ہٹا کر فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے اور اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی گئی تھی۔ یہ بحث اس لحاظ سے بھی افسوسناک تھی کہ اس سے ملکی فوج میں داخلی انتشار و اختلاف کی خبریں عام مباحث کا حصہ بنی ہیں۔ فوجی لیڈر چونکہ ایسے مباحث کا حصہ نہیں بن سکتے ، اس لئے ان کے لئے اس پر کوئی رائے دینا یا ان کی روک تھام کرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ البتہ اب آئی ایس پی آر نے ایک کور کمانڈر کا حوالہ دے کر یہ تردیدی بیان جاری کرنے کی کوشش کی ہے کہ’پشاور کور پاکستان آرمی کی ایک ممتاز فارمیشن ہے۔ پشاور کور دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس اہم کور کی قیادت ہمیشہ بہترین پروفیشنل ہاتھوں میں سونپی گئی ہے۔ پشاور کور کمانڈر کے حوالے سے اہم سینئر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات انتہائی نامناسب ہیں‘۔
بیان میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’ایسے بیانات فوج اور قیادت کے مورال و وقار پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ افواج پاکستان کے بہادر سپاہی اور افسران ہمہ وقت وطن کی خود مختاری اور سالمیت کی حفاظت اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رہے ہیں‘۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’کسی بھی کور کی کمانڈ آرمی چیف کے بعد اہم عہدہ ہوتا ہے۔ فوج کی چین آف کمان مضبوط ہے۔ پوری فوج کو آرمی چیف اور کمانڈروں پر پورا یقین ہوتا ہے‘۔ گو کہ آئی ایس پی آر کے بیان میں کسی سیاسی لیڈر کا نام نہیں لیا گیا لیکن یہ صرف آصف زرداری اور مریم نواز کے بیانات کی تردید نہیں ہے۔ بلکہ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ ایک کور کمانڈر اس کی محبت میں فوج کے ڈسپلن اور چین آف کمان سے ’بغاوت‘ کردے گا۔
موجودہ صورت حال میں فوج کی مشکل قابل فہم ہے لیکن سیاسی مباحث میں فوج کا حوالہ بلاوجہ نہیں ہے بلکہ ماضی قریب کی طویل تاریخ اس حوالہ کی بنیاد ہے۔ خاص طور سے ہائیبرڈ انتظام کے تحت عمران خان کو جیسے بطور لیڈر ابھارنے اور پھر اقتدار دلانے کے لئے ایک دہائی تک کام کیا گیا، وہ ابھی قومی شعور میں بالکل تازہ ہے۔ یہ درست ہے کہ فوج غیر جانبدار ہونے کا اعلان کررہی ہے لیکن سیاسی حالات کا موجودہ بگاڑ اسی لئے دیکھنے میں آرہا ہے کہ سیاسی انتظام کو ایک خاص ڈھب سے چلانے کے لئے فوجی قیادت نے غیر ضروری مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ درحقیقت اس نظام کی ناکامی ہی کی وجہ سے فوج کو سیاسی طور سے ’غیر جانبدار‘ ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا ہے تاکہ سیاسی لیڈر معاملات درست کرسکیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو غیر جانب داری کا اعلان بھی درحقیقت کوئی اصولی نہیں بلکہ ’سیاسی‘ فیصلہ ہے۔ عمران خان کی شکایت کی بنیاد بھی یہی ہے کہ فوج کے اسی فیصلہ سے انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا حالانکہ ان کے سوا ملک کی قیادت کا کوئی اہل نہیں ہے۔
فوج اور سیاست دان اس مشکل سے اسی صورت میں باہر نکل سکتے ہیں اگر فوج عملی طور سے سیاسی فیصلوں پر اثرانداز ہونا بند کردے ۔ آئینی طور سے منتخب حکومت کے ہر فیصلہ کو بہر طور قبول کیا جائے اور امن و امان قائم رکھنے کے لئے ہر طرح اس کی مدد کی جائے۔ اس تاثر کو زائل کیا جائے کہ کوئی سیاسی قوت غیر قانونی ہتھکنڈوں سے حکومت کو چیلنج کرے گی اور فوج خاموش تماشہ دیکھتی رہے گی۔ عمران خان 2014 کی طرح ایک بار پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اشارے دے رہے ہیں کہ فوج کو اس مرحلے پر ماضی کی طرح معاونت کرنا پڑے گی۔ یہی فوج کی غیر جانبداری کا پہلا اور مشکل ترین امتحان ہوگا۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ