تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اس فیصلہ کے بعد کہ اس کے ارکان قومی اسمبلی میں واپس نہیں جائیں گے، ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم ہونے کے آثار نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی قیادت نے اپنے ارکان قومی اسمبلی سے کہا ہے کہ وہ اسپیکر راجہ پرویز اشرف کے سامنے پیش ہو کر استعفوں کی تصدیق نہ کریں۔ پارٹی ترجمان فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تنازعہ بڑھنے کی صورت میں پارٹی سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے 131 ارکان کو 6 سے 10 جون کے دوران ذاتی حیثیت میں ان سے مل کر اپنے استعفوں کی تصدیق کرنے کے لئے خط ارسال کیا ہے۔ اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق یہ اقدام اسمبلی قواعد کی روشنی میں کیا گیا ہے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ سرکاری بنچز کا اصرار ہے کہ جب تک کوئی رکن اسمبلی خود اسپیکر کے سامنے استعفیٰ دینے کا اقرار نہیں کرتا اور اپنے استعفے پر ثبت شدہ دستخط کے درست ہونے کی تصدیق نہیں کرتا، اس وقت تک اس کا استعفی قبول نہیں کیا جا سکتا۔
اسی عمل کو مکمل کرنے کے لئے راجہ پرویز اشرف نے اسپیکر بننے کے بعد تحریک انصاف کے ارکان کے استعفوں کو ڈی سیل کرنے اور ان کی باقاعدہ تصدیق کا عمل شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلے قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ پارٹی کے 131 ارکان نے مشترکہ طور سے استعفے جمع کروائے جو ایک پہلے سے سائیکلو اسٹائل کاغذ پر دستخط کر کے دیے گئے تھے۔ اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اگرچہ ان استعفوں کو قبول کرنے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا لیکن اسمبلی سیکریٹریٹ نے ان ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے لئے الیکشن کمیشن کو کوئی باقاعدہ خط روانہ نہیں کیا تھا۔ ابھی تک قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ تعطل کا شکار ہے۔ اب استعفوں کی تصدیق کے عمل میں شریک ہونے سے انکار کے ذریعے عمران خان اس معاملہ کو بدستور تعطل میں رکھنا چاہتے ہیں۔
فواد چوہدری نے بظاہر تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ تحریک انصاف اس ناقص نظام کا حصہ بننے اور موجودہ حکومت کو ناجائز اور غیر قانونی سمجھتے ہوئے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ عمران خان نے بھی رپورٹرز سے بات کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ پارٹی استعفوں کے سوال پر یو ٹرن نہیں لے گی۔ ان کے خیال میں راجہ پرویز اشرف کا خط دراصل تحریک انصاف کے ارکان کو پھنسانے کے لئے بہت بڑا جال ہے۔ اس بیان سے وہ اپنے ہی ارکان اسمبلی کی نیک نیتی پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر یہ عمل اسپیکر کی مرضی و منشا کے مطابق پورا کیا گیا تو تحریک انصاف کے بہت سے ارکان شاید اپنے ہی استعفوں کی تصدیق نہ کریں۔ اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذرائع سے یہ خبریں سامنے آ چکی ہیں کہ مشترکہ طور سے دیے گئے بہت سے ارکان کے استعفوں میں کیے گئے دستخط اسمبلی ریکارڈ میں موجود دستخطوں سے مماثلت نہیں رکھتے۔ اسپیکر کے سامنے تصدیق کے دوران ہو سکتا ہے ایسے ارکان اس جعل سازی کا اقرار کر لیں۔ یہ صورت حال تحریک انصاف کی شہرت کے لئے شدید نقصان دہ ہوگی۔
تحریک انصاف کے قائدین کے بیانات سے یہ حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ اگر حکومت بجٹ سیشن کے بعد اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان نہیں کرتی تو پھر بھی تحریک انصاف باقی ماندہ مدت کے لئے بھی اسمبلی میں واپس نہیں آئے گی۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان 2014 کی طرح قومی اسمبلی سے استعفوں کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اگر یہ حربہ کارگر نہ ہوا تو وہ اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کریں گے۔ یعنی انہوں نے تمام سیاسی آپشنز کھلے رکھے ہیں۔ البتہ اس وقت صورت حال یوں ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان کی بڑی تعداد استعفے دے چکی ہے لیکن وہ بدستور اسمبلی کے رکن ہیں۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے تمام ارکان قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور تمام مراعات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ حتی کہ بعض سابقہ وزیروں اور اسپیکر نے ان عہدوں کی وجہ سے ملنے والی گاڑیاں اور سرکاری رہائش گاہیں بھی حکومت کو واپس نہیں کیں۔ اس سلسلہ میں خبر سامنے آنے کے بعد فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ یہ سہولتیں اس لئے واپس نہیں کر رہے کیوں کہ ملک پر ’چوروں‘ کی حکومت ہے۔ اگرچہ ان کے اس بیان کا مقصد حکومت کی نیت پر شبہ کا اظہار تھا لیکن عملی طور سے اس کا یہی مطلب ہے کہ دوسروں کو چور چور پکارنے والے خود کھلے عام سرکاری وسائل پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں لیکن اس پر شرمندہ بھی نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے ارکان اگر خود کو قومی اسمبلی سے مستعفیٰ سمجھتے ہیں تو وہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے سے انکار کیوں نہیں کرتے؟
اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملہ میں عمران خان کی حکمت عملی غیر واضح اور ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے امریکی سازش کا چورن بیچ کر اپنے حامیوں کو یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت کو ناجائز طریقے سے ختم کیا گیا تھا لیکن وہ مسلسل اسٹبلشمنٹ یا عدالت سے یہ امید کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح موجودہ انتظام کو لپیٹ کر صرف قومی اسمبلی کا دوبارہ انتخاب کروانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ کسی طرح عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلیوں یا آزاد کشمیر و گلگت بلتستان اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ موجودہ نظام کو نہ ماننے کا اعلان کرنے کے باوجود اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں، عمران خان ابھی تک یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی ایسا سانحہ ہو جائے یا کسی غیر منتخب ادارے کی طرف سے کوئی ایسا دباؤ آ جائے کہ قومی اسمبلی کا انتخاب ہو سکے۔ وہ جلد عام انتخابات کروانے کی بات نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ قومی اسمبلی کے انتخاب کی صورت میں وہ اکثریت حاصل کر سکتے ہیں اور پھر مرکز میں اپنی حکومت کی نگرانی میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کروائیں گے تاکہ ان پر پوری طرح اثر انداز ہوا جائے۔
عمران خان اگر واقعی ملک میں عام انتخابات کو ہی ملکی حالات میں تبدیلی کا درست طریقہ سمجھتے ہیں تو انہیں قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملہ پر سیاست کرنے کی بجائے اپنے ارکان سے کہنا چاہیے تھا کہ وہ جلد از جلد استعفوں کی تصدیق کریں تاکہ الیکشن کمیشن ان نشستوں کو ’خالی‘ قرار دے۔ اسمبلی کے ایک تہائی ارکان کے استعفوں کی باقاعدہ تصدیق کے بعد قومی اسمبلی کی موجودہ حیثیت اور حکومت کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ جس کے بعد عام انتخابات کے لئے دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ تاہم عمران خان فی الوقت اس حد تک جانے پر تیار نہیں ہیں۔ اسی لئے خیبر پختون خوا اور پنجاب اسمبلی سے استعفے دینے کی بات بھی نہیں کی جاتی۔ بلکہ خیبر پختون خوا حکومت کو وفاقی حکومت کے خلاف دباؤ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کے پی کے کے وزیر اعلیٰ محمود خان کا یہ بیان کہ وہ اگلے لانگ مارچ میں ’صوبائی فورس‘ استعمال کریں گے، ایک طرح سے وفاق کے خلاف ایک صوبے کے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔اسی طرح پنجاب میں تحریک انصاف ابھی تک ہائی کورٹ کے ذریعے مخصوص نشستوں پر نا اہل کیے گئے ارکان کی نامزدگی کی جلد تکمیل کے ذریعے کسی بھی طرح پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کی اکثریت ختم کروا کے پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ بنوانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عمران خان اگر پورے نظام کی تطہیر چاہتے ہیں تو اسی نظام کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ عمران خان چاہیں تو خیبر پختون خوا اسمبلی توڑی جا سکتی ہے اور اگر وہ قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اسمبلی سے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیں تو موجودہ حکومتی نظام کے پاس موجودہ انتظام کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ عمران خان اس طریقہ کے اثرات سے آگاہ نہ ہوں لیکن وہ صوبوں میں اپنی طاقت برقرار رکھ کر کسی بھی طرح مرکز کا اقتدار واپس لینا چاہتے ہیں۔ یہ اقتدار کی سیاست ہے۔ اسے اصلاح، انقلاب یا تبدیلی کی کوشش نہیں کہا جاسکتا۔
اس دوران کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران پیپلز پارٹی کے نائب چیئرمین آصف زرداری نے واضح کیا ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو مشورہ دیا کہ وہ جلد انتخابات کے حوالے سے بیان بازی نہ کریں۔ اطلاعات کے مطابق سابق صدر نے اس موقع پر کہا کہ ’ہم کشتیاں جلا کر آئے ہیں، اب کوئی پیچھے کیوں ہٹے گا۔ ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے۔ پہلے اسے ٹھیک کرنا ہے، عمران 25 مئی کو بھی ناکام ہوا آگے بھی ناکام ہو گا‘ ۔ آصف زرداری کا یہ بیان پاکستانی میڈیا میں زیادہ بڑے پیمانے پر نشر و شائع نہیں ہوا لیکن موجودہ سیاسی منظر نامہ میں یہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ حکومتی ذرائع براہ راست انتخابات کی تاریخ کے بارے میں غیر واضح موقف اختیار کرتے ہیں لیکن آصف زرداری کی طرف سے اتحاد برقرار رکھنے اور آئندہ برس مقررہ مدت سے پہلے انتخابات نہ کروانے کی دو ٹوک بات نے واضح کیا ہے کہ اتحادی حکومت نے مشکل معاشی فیصلے کرنے کا اقدام یہ طے کرنے کے بعد ہی کیا تھا کہ فوری انتخابات نہیں ہوں گے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے، بچت کا نیا بجٹ پیش کرنے اور اچانک مہنگائی بڑھنے کے بعد فوری طور سے ووٹروں کے پاس جانے پر آمادہ نہیں ہوگی۔
عمران خان نے گزشتہ جمعرات کو دھرنا مؤخر کر کے دو باتوں کا اقرار کیا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اب بھی اسٹبلشمنٹ کے حکم سے انکار کی مجال نہیں رکھتے دوسرے یہ کہ اب وہ عدالتوں کی امداد کو اپنی طاقت سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ ملکی عدلیہ وسیع تر اسٹبلشمنٹ کا حصہ ہے۔ انفرادی ججوں کی پسند ناپسند کے باوجود سپریم کورٹ ابھی تک حکمرانی کے موجودہ نظام میں اسٹبلشمنٹ کا اہم حصہ ہے۔ کسی عدالتی فیصلہ نے یہ اشارہ نہیں دیا کہ عدالت عظمی اس روایت کو توڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس صورت حال میں آنے والے ہفتوں مہینوں میں عمران خان کئی نئی قلابازیاں کھاتے دکھائی دے سکتے ہیں۔
انہیں سب سے پہلے تو اس سچائی کو تسلیم کرنا ہے کہ ایک بار ناکام لانگ مارچ کے بعد فوری طور سے دوسرا لانگ مارچ منظم کرنا ممکن نہیں۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں واپسی کا راستہ ہی انہیں اختیار و اقتدار کی راہداری میں واپس لانے کا واحد راستہ ہو گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ