ملک کا وزیر اعظم اور سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر اعلیٰ سابقہ حکومت کے دور میں قائم ہونے والے منی لانڈرنگ کے ایک مقدمے میں ہر ہفتہ دس روز بعد لاہور کی ایک مقامی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ آج دونوں باپ بیٹے کو مزید ایک ہفتہ کی ضمانت ملنے سے قبل ایف آئی اے کے وکیل نے جج سے ان دونوں کو گرفتار کرنے کی اجازت طلب کی تاکہ اس ’اہم مقدمہ‘ کی تحقیقات مکمل ہوسکیں۔ وکیل صفائی جو بھی کہتے رہیں لیکن ایک سال سے زیر تفتیش یہ معاملہ اب اگلی پیشی تک مؤخر ہوچکا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ زیرین عدالتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر اس شخص کو ضمانت دینے کے لئے ’چوبیس گھنٹے‘ کھلی رہنے لگی ہے جسے موجودہ لولی لنگڑی اور اپنے ہی بوجھ تلے دبی حکومت کی طرف سے گرفتاری کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کا خیال ہے کہ سابقہ حکمران جماعت کو مکمل ’عدالتی پروٹوکول‘ فراہم کرکے ہی وہ عدالتی خود مختاری اور انصاف کی بالادستی کا ثبوت فراہم کرسکتے ہیں۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 9 اپریل کو عدم اعتماد سے فوری پہلے آرمی چیف کی تبدیلی کے بارے میں ایک پراسرار درخواست پر غور کرنے کے لئے رات گئے عدالت کھولنے کا جو اضطراری اقدام کیا تھا ، اب وہ دانستہ نادانستہ اس کی ’وضاحت‘ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ شیریں مزاری ہو ں یا ان کی بیٹی یا پھر فواد چوہدری ، قبل از گرفتاری یا گرفتاری کے فوری بعد ضمانت لینے اور رہائی کا حکم دینے کے لئے کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال عمران خان کو عدالتی حکم عدولی کے باوجود شبہ کا فائدہ دینے کے بعد اب مختلف سو موٹو معاملات پر قائم کئے گئے بنچز کی سربراہی کرتے ہوئے یہ بات یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ملک کی نئی حکومت کہیں کسی سرکاری افسر کا ‘ناجائز‘ تبادلہ نہ کردے یا حکومت میں شامل کسی شخص کو کوئی ناجائز رعایت نہ مل جائے۔ پہلے تبادلوں پر پابندی، پھر ایگزٹ کنٹرول لسٹ کی نگرانی کے احکامات کے بعد، اب چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے ذریعے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صرف کسی ذمہ دار اور قابل اعتبار شخص کو ہی نیب کا نیا چئیرمین مقرر کرے۔ انہوں نے زبانی ہدایات کے دوران نیب کو بھی حوصلہ دیا کہ اگر وہ حکومت کی طرف سے کوئی ناجائز دباؤ محسوس کرے تو عدالت عظمی ہر وقت داد رسی کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ ایک طرف چیف جسٹس یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے دوسری طرف ای سی ایل اور چئیر مین نیب کی تقرری کے حوالے سے ایسی ہدایات دے رہے ہیں جو بادی النظر میں سپریم کورٹ کے اختیار کا حصہ نہیں ہے بلکہ صریحاً حکومت کا اختیار ہے کہ وہ اپوزیشن کے تعاون سے ایسے فیصلے کرے۔ چیف جسٹس نے خاص طور سے نیب چئیرمین کی تقرری کے حوالے سے جس طرح تجسس کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت نامہ جاری کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے، اس کی کوئی عدالتی نظیر تلاش کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
ان دنوں ناروے میں سابق وزیر اور حکمران آربائیدر پارٹی کی نائب صدر ہادیہ تاجک کے حوالے سے میڈیا میں ایک دلچسپ بحث ہورہی ہے۔ پاکستانی نژاد اس ہونہار سیاست دان کو اس سال کے شروع میں میڈیا کے شدید دباؤ کی وجہ سے حکومت اور پارٹی کے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ان پر ارکان پارلیمنٹ کو ملنے والی رہائش اور اس پر ٹیکس کی رعایت کے پیچیدہ قواعد کی ’بے ضابطگی‘ کے الزامات پر مشتمل متعدد خبریں ملک کے بڑے اخبارات میں تواتر سے شائع ہوئی تھیں۔ ان خبروں کے نتیجہ میں ان پر سیاسی دباؤ میں اضافہ ہؤا جس کی وجہ سے انہیں وزارت اور پارٹی کی نائب صدارت چھوڑنا پڑی۔ بعد میں آڈیٹر کی رپورٹ میں یہ واضح ہؤا ہے کہ ہادیہ تاجک نے قواعد کی اس حد تک خلاف ورزی نہیں کی تھی جسے میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور سیاسی دباؤ میں اس قدر اضافہ کیا گیا کہ انہیں تمام اہم عہدوں سے علیحدہ ہونا پڑا۔ اب میڈیا ہی کے بعض لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر ان کی مبینہ بے ضابطگیوں کے بارے میں زور شور سے خبریں شائع کی گئی تھیں اور ملک میں ایک ہیجان پیدا کیا گیا تھا تو آڈیٹر کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد میڈیا نے اس کی تشہیر کیوں نہیں کی ۔ خاص طور سے جو اخبارات ہادیہ تاجک کے خلاف مہم جوئی میں پیش پیش تھے کیا انہوں نے صحافیوں کے طے شدہ ضابطہ کے مطابق اپنی غلطی تسلیم کرنے اور اس پر کسی شرمندگی کا اظہار ضروری سمجھا ہے یا میڈیا خود کو ہر قانون و ضابطہ سے بالا سمجھنے لگا ہے؟
یہ ایک دلچسپ بحث ہے۔ یہ بحث شروع کرنے والے کسی سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے ہادیہ تاجک کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنا نہیں چاہتے لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ میڈیا چونکہ ملکی جمہوری نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لئے ذمہ داری کا تقاضہ ہے کہ جب کسی رپورٹنگ کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ سامنے آجائے تو اسے بھی اسی زور شور سے سامنے لایا جائے اور متعلقہ مدیران یا رپورٹر اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں تاکہ ملک میں آزاد میڈیا اور جمہوری روایت مضبوط ہو ۔سنسنی خیزی کا رجحان میڈیا اور سیاست دانوں پر عوامی اعتماد کو مجروح نہ کرے۔ مقامی سیاسی و میڈیا تناظر میں یہ ایک پیچیدہ بحث ہے۔ ہادیہ تاجک کی نارویجئن سیاست میں خدمات اور آربائیدر پارٹی میں ان کی پوزیشن اور میڈیا کے ہنگامہ خیز کردار کے حوالے سے شروع ہونے والی یہ بحث ابھی مزید آگے بڑھے گی۔ ناروے کی صحافتی روایت کے مطابق اس بات کا یقین کیا جاسکتا ہے کہ متعدد پروفیشنل پلیٹ فارمز اور تحقیقاتی کام میں اس واقعہ کو مثال بنا کر مستقبل کے لئے میڈیا کے کردار کا تعین کرنے کی کوشش ہوگی۔
ناروے کے میڈیا اور سیاست کا یہ طویل حوالہ دینے کی ضرورت یوں محسوس کی گئی ہے کہ پاکستان میں میڈیا جس بحران اور سنسنی خیزی کے ایک طوفان کو سر پر اٹھائے آگے بڑھ رہا ہے، اس مثال اسے اس کے آگے تو شاید بند نہیں باندھا جاسکتا لیکن ناروے جیسے دور دراز ملک میں رونما ہونے والی اس بحث کو ملکی عدلیہ کے گوش گزار کرواکے یہ ضرور باور کروایا جاسکتا ہے کہ اپنی حدود کا تعین کرنے اور ان کا احترام کرنے کے علاوہ ، اس بات کا ہمیشہ امکان رہتا ہے کہ کسی بھی ذمہ دار پوزیشن پر بیٹھے ہوئے شخص سے کوئی غلطی ہوجائے۔ یہ غلطی سپریم کورٹ اور اس کے ججوں سے بھی سرزد ہوسکتی ہے۔ اس لئے میڈیا کے حوالے سے خود احتسابی کی جو بحث اس وقت ناروے میں ہورہی ہے ، کیا پاکستانی اعلیٰ عدلیہ اس سے کچھ سبق سیکھنے اور اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کا اقدام کرنے کو بھی انصاف کی فراہمی کے اعلیٰ اصولوں کے لئے ضروری سمجھے گی؟
خاص طور سے ملک کے چیف جسٹس نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جس جوڈیشل ایکٹو ازم کا مظاہرہ کیا ہے ، انہیں اس کا جائزہ لینا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کسی بھی معاملہ میں کوئی شکایت سامنے آئے بغیر اور کسی بھی شکایت کنندہ کی غیر موجودگی میں یا کوئی واقعہ رونما ہوئے بغیر ہی ایک قیاس کی بنیاد پر ملک کے سب سے بڑے جج کے ریمارکس اور ہدایات کا کون سا قانونی یا اخلاقی جواز موجود ہے؟
حالیہ واقعات کے تناظر میں سپریم کورٹ کا یہ کردار قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر قاسم سوری کی غیر آئینی تشریح کے وقت سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پارلیمنٹ میں ہونے والے ایک واقعہ پر سو موٹو نوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینے کا اختیار بنیادی حقوق کی حفاظت کے نقطہ نظر سے دیا گیا تھا۔ آئین منظور کرنے والوں کے ذہن میں یہ شق شامل کرتے ہوئے پاکستان کے شہریوں کے انفرادی حقوق کا تحفظ ہوگا تاکہ اعلیٰ عدالت کسی غیر معمولی صورت میں کسی کمزور اور بے بس شہری کو تحفظ فراہم کرسکے۔ تاہم یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف سو موٹو لینا کس حد تک اس شق کی روح کے مطابق تھا۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ سوال بنیاد ی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کو پارلیمانی امور پر ’نگران ادارے‘ کی حیثیت دی جاسکتی ہے؟ کہ وہ از خود نوٹس کے ذریعے کسی پارلیمانی وقوعہ پر احکامات جاری کرنے کا اہتمام کرے۔ بدقسمتی سے یہ رویہ بعد میں 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں تعطل کی صورت حال میں رات گئے سپریم کورٹ کھولنے اور ججوں کو جمع کرنے کے اقدام میں بھی سامنے آیا تھا۔ عدالت کا یہ جذبہ قابل احترام ہے کہ وہ ہمہ وقت عوام کے حقوق کی حفاظت کے لئے کمر بستہ ہے لیکن ملکی سپریم کورٹ کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ درحقیقت پارلیمنٹ ہی پاکستانی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا ادارہ ہے اور عسکری قیادت یا عدلیہ کے فاضل ججوں سمیت کسی کو بھی اس ادارے کے اختیار کو کمزور کرنےیا مشتبہ بنانے کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ملک میں جمہوری نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جارہا ہے۔
بعد میں آئینی شق 63 اے کی توضیح کرتے ہوئے بھی سپریم کورٹ نے اپنا طرز عمل تبدیل نہیں کیا۔ فاضل ججوں نے وہ ’سچ ‘ دریافت کرلیا جو آئین لکھنے اور منظور کرنے والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہا تھا اور منحرف ارکان کے ووٹ کو مسترد کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ حالانکہ بنچ کے دو اقلیتی ججوں نے دہائی دی کہ عدالت کو آئین کی ایسی تشریح کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کے برعکس چیف جسٹس مسلسل عدالت عظمی کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اہم بنچوں میں شامل کرنے سے انکار سے عدالت عظمی میں پائی جانے والی خلیج کو گہرا بھی کررہے ہیں بلکہ اسے عام لوگوں کے سامنے نمایاں کرنے کا باعث بھی بنے ہیں۔ یہ طرز عمل کسی بھی طرح عدالتی احترام و وقار کے لئے مناسب نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس بارے میں چیف جسٹس کو خط بھی لکھا تھا جس کا کوئی جواب ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔ حال ہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں تقرریاں کرتے ہوئے سینارٹی کے اصول کو نظر انداز کرنے کے بارے میں بھی چیف جسٹس کو مراسلہ روانہ کیا ہے لیکن چیف جسٹس نے اس پر بھی کوئی رد عمل دینا مناسب نہیں سمجھا۔
موجودہ حکومت سیاسی لحاظ سے انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ ملکی معیشت کی تباہ کن صورت حال نہ نئے انتخابات کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کی رہی سہی اتھارٹی کو مشکوک بنا کر کوئی خاص قومی خدمت انجام دی جاسکتی ہے۔ یہ کام کرنے والا لاہور کی خصوصی عدالت کا جج ہو یا کسی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا چیف جسٹس، ان سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کے منتخب عہدیداروں کو مناسب تکریم و احترام فراہم کیا جائے۔ سیاسی فیصلے یا پارلیمنٹ میں ہونے دیں یا انتخابات میں فیصلہ ہوجائے گا کہ عوام ملک کی باگ ڈور کس کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے اب نہ صرف فوج کے تباہ ہونے، ملک کا شیرازہ بکھرنے اور ایٹمی صلاحیت سے محروم کئے جانے کے بارے میں پرزور بیان دیے ہیں بلکہ یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ’وہ جب وزیر اعظم تھے تو ان کے پاس تمام اختیارات نہیں تھے۔ بلکہ فیصلے کہیں اور ہوتے تھے‘۔ اب وہ انہی’بااختیار‘ اداروں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے بقول ملک میں جاری حق و باطل کے اس معرکے میں وہ کیوں کر نیوٹرل رہ سکتے ہیں؟ یعنی ملک کا ایک اہم سیاسی لیڈر ملکی فوج کو ’غیر آئینی ‘ اقدام کے ذریعے موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ چئیر مین نیب کی تقرری کے بارے میں پریشان ہونے والے چیف جسٹس کو کیا اس بات کا تجسس نہیں ہونا چاہئے کہ موجودہ نظام میں ہر ادارے کو اس کی مقررہ آئینی و قانونی حدود سے تجاوز پر نہ اکسایا جائے؟
’حق وباطل‘ کی نام نہاد جنگ کے نام پر اس آئینی بنیاد کو ہلانے کی کوشش کی جارہی ہو تو یہ واضح ہونا چاہئے کہ ملک کا اصل حکمران کون ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی گزشتہ روز آئی ایس آئی کو سول بیوروکریسی کے چناؤ میں کلیدی کردار ’عطا‘ کرکے اس بنیاد کو کمزور کرنے کا ایک خطرناک اقدام کیا ہے۔ کیا سپریم کورٹ کو عمران خان کے چیلنج اور شہباز شریف کے اقدام میں بھی آئین سے گریز کا کوئی پہلو دکھائی دیتا ہے؟
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ