حکومت نے ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے امیر طبقہ کو ذمہ دار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ پندرہ کروڑ یا اس سے زائد آمدنی والے افراد پر ایک سے چار فیصد اضافی ٹیکس لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ ان اقدامات سے قومی بجٹ کا خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی اور ملکی معیشت کو خود انحصاری کی طرف لایا جاسکے گا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے آج اپنی معاشی ٹیم سے مشاورت کے بعد یہ اعلان کیا تھا۔ تاہم اس اعلان کے بعد کراچی اسٹاک ایکسچینج میں پانچ فیصد تک مندی دیکھی گئی اور سوشل میڈیا پر یہ تبصرے بھی سامنے آنے لگے کہ اہم ترین صنعتوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی، اشیائے صرف مزید مہنگی ہوجائیں گی اور ملک میں روزگار کی صورت حال پر دباؤ میں اضافہ ہو گا۔ اسے اہم کاروباری شعبوں کی ’حوصلہ شکنی‘ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ شاید اسی دباؤ کی وجہ سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وزیر اعظم کے اعلان کی وضاحت کرنے کے لئے ایک ٹوئٹ جاری کیا اور سرمایہ داروں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ان کے لئے حالات ناساز گار بنانے کی کوشش نہیں کی جارہی بلکہ گزشتہ چار مالی سالوں کے دوران پیدا ہونے والے خسارہ پر قابو پانے کے لئے یہ اقدام ضروری تھا۔
مفتاح اسماعیل نے یہ بھی بتایا کہ سپر ٹیکس صرف ایک بار ہی وصول کیا جائے گا۔ ’چار فیصد سپر ٹیکس تمام سیکٹرز پر لاگو ہو گا لیکن 13 سیکٹرز، جن میں سیمنٹ، سٹیل، چینی، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، ایل این جی ٹرمینل، ٹیکسٹائل، بینکنگ، سگریٹ انڈسٹری، کیمیکلز اور بیورجز انڈسٹری شامل ہیں، پر چھ فیصد اضافی ٹیکس عائد ہو گا اور مجموعی طور پر ان کا ٹیکس ریٹ 29 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد ہو جائے گا‘۔ وزیر خزانہ کی طرف سے تسلی دلوانے کی کوشش کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ ملکی صنعتکار اس حکومتی فیصلہ پر کیسے رد عمل ظاہر کریں گے۔ عوامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک مقبول فیصلہ ہے لیکن اسے کارآمد اور مفید بنانے کے لئے حکومت کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ جن صنعتوں پر اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے ، وہ اس اضافی بوجھ کو خود ہی برداشت کریں اور اسے صارفین کی طرف منتقل نہ کردیا جائے۔ یعنی کسی نہ کسی بہانہ سے اپنے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بالواسطہ طور سے عوام کو ہی یہ اضافی بوجھ اٹھانے پر مجبور کردیا جائے۔ اس حوالے سے فیصلہ کرنے والی حکومت کو پوری سرکاری مشینری کو فعال بنانے اور تمام صنعتوں کی پرائس پالیسیز پر نگاہ رکھنے کی اشد ضرورت ہوگی۔ حکومت اگر اس پہلو سے نگرانی کاکوئی مؤثر میکنزم استوار نہ کرسکی اور کسی نہ کسی صورت عوام کو ہی یہ بوجھ بھی اٹھانا پڑا تو پھر وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے ان نعروں کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی کہ ’وقت آگیا ہے کہ ملک کے امیر معاشی بوجھ میں حصہ دار بنیں اور غریبوں کو سہولت پہنچانے کا اہتمام کیا جائے‘۔
پاکستان میں ٹیکس نظام ناقص اور اس میں سرکاری انتظامی ڈھانچے میں شدید بدعنوانی کی وجہ سے بالائی سطح پر ہونے والا فیصلہ عملی مراحل سے گزرتے ہوئے ناکامی سے ہی دوچار ہوتا ہے۔ یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے کہ یوں تو ایوب خان کے مارشل لا کے زمانہ سے ہی لیکن خاص طور سے عمران خان اور تحریک انصاف کے ذریعے جس طرح سیاست دانوں کی بدعنوانی اور کرپشن کے قصوں کو دیومالائی حیثیت دی گئی ہے اور لوٹ مار کی خود ساختہ کہانیوں کو جیسے برانڈ بنا کر بیچا گیا ہے، اس سے پاکستان کا عام شہری عمومی طور سے یہ تسلیم کرنے لگا ہے کہ اس کے مصائب کی سب سے بڑی ذمہ داری صرف حکمران طبقہ پر عائد ہوتی ہے۔ ان پڑھ یا کم سیاسی شعور رکھنے والے لوگ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے اور بظاہر سیاسی اتار چڑھاؤ سے آشنا لوگ بھی مسئلہ کی حقیقت تک پہنچنے کی بجائے سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سیاسی لیڈروں کو مورد الزام ٹھہرا کر ’ذہنی تسکین‘ تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن اس سے سماجی رویوں میں ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں جن کی اصلاح میں کئی دہائیاں صرف ہوں گی۔
کسی ثبوت کے بغیر الزامات عائد کرنا اور عدالتوں سے فیصلے لینے کی بجائے محض استغاثہ کے بیانات کو ’سچ‘ قرار دینے کی وجہ سے جو قومی مزاج پیدا ہؤا ہے اس میں عوام اور سیاست دانوں کے درمیان دوری پیدا ہونے کے علاوہ عام شہریوں میں قومی احساس ذمہ داری میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے پھیلائے ہوئے زہر آلود پروپیگنڈا سے عام شہری یہ سمجھنے لگا ہے کہ اگر حکمران اتنی بڑی ’چوری‘ کرسکتے ہیں جیسی کہ بتائی جارہی ہے تو وہ بھی اگر موقع ملنے پر ٹیکس چوری کرتا ہے، سیلز ٹیکس میں خرد برد کرتا ہے، آمدنی کے درست کھاتے بتانے سے گریز کرتا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ گویا کرپشن کے بیانیہ سے مورد الزام ٹھہرائے جانے والے لوگوں کو تو کوئی نقصان ہؤا یا نہیں لیکن قومی خزانے کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے کیوں کہ شہریوں میں قومی بوجھ بانٹنے کی ذمہ داری قبول کرنے کا احساس ختم ہوچکا ہے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کے کتنے شہری ایمانداری سے بجلی کا بل ادا کرنا چاہتے ہیں اور بجلی چوری کرنے کا موقع ملنے پر خدا کو حاضر ناظر جان کر یا قومی جذبہ کی وجہ سے اس ’موقع‘ سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔ یا ملک میں کتنے شہری ہیں جو ایمان داری سے اپنی آمدنی پر پورا ٹیکس ادا کریں گے اور وکیلوں کے تعاون اور ٹیکس افسروں کی بدعنوانی سے استفادہ کرتے ہوئے ، اس میں خرد برد نہیں کریں گے۔ یا کتنے شہری ہیں جو معمولی کام کروانے کے لئے کسی بھی دفتر میں رشوت دینے سے انکار کردیں گے۔ ان رویوں کو سماجی ضرورت سمجھ کر قبول کیا جاچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دفاتر اور اہم مقامات پر اس مذہبی حکم کی تکرار کے باوجود کہ ’رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘ دنیاوی جنت کو مزید ’دلنشیں ‘بنانے کے لئے رشوت لینے اور دینے کا سلسلہ بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے جاری رہتا ہے۔ نہ کوئی اسے گناہ سمجھتا ہے اور نہ سماجی برائی تصور کیا جاتاہے۔ ایک ہاتھ سے رشوت دے کر یا لے کر دوسرے ہاتھ سے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نماز کا ارادہ ظاہر کرنا معمول کے مناظر میں سے ایک ہے۔
بدعنوانی یا چوری کے حوالے سے سب سے بھیانک منظر البتہ ملکی عدالتوں میں دیکھنے میں آتا ہے جہاں وکیل، گواہ اور جج سب ہی برائے فروخت ہیں۔ سائل کے ہمت ، حوصلہ و استطاعت پر منحصر ہے کہ وہ اس نظام سے کیسے اور کس حد تک استفادہ کرسکتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج حضرات میں اس وقت میڈیا حکمت عملی کی وجہ سے ریمارکس کے نام پر عوام میں قبولیت پیدا کرنے کا ایک نیا رجحان پاکستان کے ہر شہری نے نوٹ کیا ہوگا۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات یا بعض ’ اہم ‘ سمجھی جانے والی شخصیات کے لئے انصاف فراہم کرنے کے لئے چوبیس گھنٹے عدالتیں کھلی رکھنے کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف انہی اعلیٰ عدالتوں کے زیر نگرانی کام کرنے والے زیریں عدالتی نظام میں بدعنوانی، بدانتظامی، ناانصافی اور انسان دشمنی کے بھیانک مناظر کی خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا فاضل چیف جسٹس پورے نظام کی اصلاح کی باتیں کرتے ہوئے بھاری بھر کم مراعات کے ساتھ ریٹائر ہوجاتا ہے لیکن عام شہریوں کو انصاف فراہم کرنے والی مجسٹریٹ، سول یا سیشن ججوں کی عدالتوں کو وقار دینے یا فعال بنانے کے لئے کام نہیں کیا جاتا۔ قوم کے سنگین بحران کی خبریں تواتر سے عام لوگوں کے کانوں میں انڈیلی جارہی ہیں لیکن کسی بڑے عہدے دار یا ادارے کی جانب سے یہ پیشکش سامنے نہیں آسکی کہ وہ خود مہنگی مراعات وصول کرنے سے انکار کررہے ہیں کیوں کہ قوم کو اس وقت مل کر مالی بوجھ اٹھانے اور اس بحران سے نکلنے کی ضرورت ہے۔
دریں حالات حکومت کا یہ فیصلہ خوش آئیند اور خوشگوار ہے کہ ملک کا امیر طبقہ زیادہ ٹیکس ادا کرے لیکن اس بارے میں دو اہم سوال سامنے آتے ہیں۔ ایک: کیا حکومت اتنی اوالعزم ہے کہ وہ کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گی اور ملک کے امیر طبقات کو قومی مالی بوجھ میں مناسب حصہ ادا کرنے پر مجبور کرے گی ۔ دوئم: کیا ملک کے بھاری بھر کم وسائل پر قابض طبقہ ہوش کے ناخن لے گا اور قومی مالی بحران میں ایک اچھے شہری کی طرح اپنا مثبت رول ادا کرنے اور ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ ہوگا۔ یعنی وہ واقعی حکومت کے فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کریں گے اور نہ تو اس اضافی بوجھ کو صارفین کی طرف منتقل کریں گے اور نہ ہی حکومت پر دباؤ ڈال کر ان فیصلوں کو تبدیل کروانے کی جد و جہد کریں گے۔یہ کام صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے اگر ملک کے سب شہری اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس بنیادی مسئلہ کا ادراک کرسکیں کہ معاشی مسائل کسی سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس بحران سے پورے ملک کا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔ اضافی ٹیکس کا اعلان سامنے آنے کے بعد وزیر خزانہ نے اپنے ٹوئٹ میں جو ’کمزوری‘ دکھائی ہے ، اسے اب آخری رعایت سمجھا جائے ۔ اس کے بعد حکومت سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے ان تمام شعبوں سے اضافی وصولی کو یقینی بنائے ۔ اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان شعبوں کی پیداوار کی قیمتوں کو منجمد کیا جائے اور حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر یہ بڑی صنعتیں کسی پراڈکٹ یا سروس کی قیمت میں اضافہ نہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ حکومت یہ یقینی بنائے کہ ہر شعبہ یا صنعت سے وصول ہونے والے اضافی محاصل کا الگ حساب مناسب وقفوں کے ساتھ پبلک کرنے کا اہتمام ہو تاکہ بالواسطہ نگرانی کا ایک طریقہ متعین ہوسکے۔
چند شعبوں پر یک مشت اضافی ٹیکس لگانے کے بعد یہ سلسلہ روکنے کی بجائے کثیر مالی وسائل کو دولت مند خاندانوں یا افراد میں منتقل کرنے والی صنعتوں یا اداروں پر مالی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے دباؤ بڑھایا جائے۔ یہ فہرست دس یا تیرہ صنعتوں تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ اس میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار اور زراعت پر ٹیکس عائد کرنے کا کوئی مناسب طریقہ تلاش کرنے کے علاوہ عسکری اداروں کی نگرانی میں کام کرنے والے تجارتی اداروں کو مراعات، ٹیکس چھوٹ یا دیگر مفت سرکاری سہولتیں دینے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )