پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے واشنگٹن کے سفارت خانہ پاکستان میں ایک ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ پاک فوج نے سیاست سے علیحدہ رہنے کا مصمم ارادہ کیا ہؤا ہے۔ اب فوج سیاسی معاملات میں ملوث نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ وہ حسب وعدہ موجودہ عہدے میں اپنی توسیعی مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہوجائیں گے۔
اس طرح انہوں نے ایک تو ایک نئی توسیع لینے کے بارے میں ابہام دور کیا ہے ، دوسرے عمران خان کے طعن تشنیع اور مطالبہ کے باوجود فوج کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ اور ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ان کی قیادت میں فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ ان دو باتوں کے علاوہ انہوں نے ملکی معیشت کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ’مضبوط معیشت کے بغیر کوئی سفارت کاری کامیاب نہیں ہوسکتی‘۔ یوں انہوں نے ’غیر سیاسی‘ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے بھی واضح کیا ہے کہ فوج کو ملک کے معاشی بحران کی فکر ہے اور اسے حل کرنا ہی مقدم ہونا چاہئے۔ واضح رہے کہ جنرل باجوہ کا یہ بیان اس پس منظر میں معنی خیز ہوجاتا ہے جس کے مطابق عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سابقہ حکومت کی معاشی ناکامی کی وجہ سے ہی کامیاب ہوسکی تھی۔ معیشت کو درست راستے پر گامزن کرنے کے لئے ہی فوج نے ’نیوٹرل ‘ رہنے کا اعلان کیا یعنی اس نے عمران خان کی حکومت کی سرپرستی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپوزیشن پارٹیوں کو یہ ’اختیار‘ دے دیا کہ اگر وہ سیاسی طور سے تحریک انصاف کی حکومت ختم کرسکتے ہیں تو فوج کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔
عمران خان اپنی حکومت سے فوج کی اسی لاتعلقی کا غم سینے میں چھپائے پھرتے ہیں اور ہر موقع پر ’ نیوٹرل ‘ کو طعنے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بار بار اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ’گھر میں ڈاکہ پڑا ہو تو چوکیدار نیوٹرل نہیں رہ سکتا‘۔ یا پھر وہ خود اپنے آپ کو حق کے واحدنمائیندے کے طور پر پیش کرتے ہوئے فوج سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ ایسی سیاسی لیڈروں کا کیوں کر ساتھ دے سکتی ہے جو کرپشن میں ملوث رہے ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ رہا ہے کہ عسکری ایجنسیوں نے ہی انہیں ان سیاست دانوں کی بدعنوانی کے بارے میں مطلع کیا تھا۔ اس لئے انہیں تو خوب پتہ ہونا چاہئے کہ کون دیانت دار اور کون بے ایمان ہے۔ سیاسی نعرے کی بنیاد پر عوام کی بڑی اکثریت کو رجھانے کے باوجود حالات و واقعات سے عمران خان کی جو حقیقی تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے، اس میں وہ نہ دیانت دار دکھائی دیتے ہیں، نہ انصاف پسند اور نہ ہی انہیں جھوٹ سے اجتناب کرنے والا لیڈر کہا جاسکتا ہے۔ پروپیگنڈا کی بنیاد پر انہوں نے اپنے حامیوں میں دیانت کا ایک بھرم ضرور قائم کیا ہے لیکن اب اس تصویر کے رنگ بکھرنے لگے ہیں۔ اسی پریشانی میں اپنی کل سیاسی طاقت مجمتع کرکے عمران خان اسلام آباد پر دھاوا بولنے کا اعلان کررہے ہیں تاکہ ان کا سارا پول کھلنے سے پہلے ہی ، وہ عوام کا ’جم غفیر‘ دارالحکومت میں جمع کرلیں تاکہ شہباز شریف کی کمزور حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے اور ایسی عبوری حکومت قائم ہو جو عمران خان کو ’‘چہیتا ‘ سمجھے اور آئیندہ انتخابات میں ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جس کا انہیں 2018 کے انتخابات میں حقدار سمجھا گیا تھا۔ واشنگٹن سے جنرل باجوہ کی جو تقریر رپورٹ ہوئی ہے اس سے البتہ یہی پیغام واضح ہوتا ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنا اولین شرط ہے۔ آثار و شواہد کے مطابق موجودہ حکومت اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب ہے۔
سیاست سے علیحدہ رہنے کے اعلان کے ساتھ ہی ملکی سیاست میں وجہ نزاع بنے ہوئے اہم ترین سیاسی معاملہ پر جنرل قمر جاوید باجوہ کی دو ٹوک رائے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج نے سیاست سے کنارہ کشی کا ارادہ ضرور کیا ہؤا ہے لیکن ’غیر جانبدار‘ رہنے کی اصطلاح کو یا تو محدود معنی میں استعمال کیا جارہا ہے یا پھر غیر جانبداری کی نئی تعریف متعارف کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ورنہ فوج کے سربراہ کو سیاست سے علیحدہ رہنے کا اعلان کرتے ہوئے معاشی استحکام اور اسے سفارت کاری سے اہم قرار دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ یہاں یہ حوالہ بھی دیا جاسکتا ہے کہ ملک میں ہونے والا کوئی سیاسی مباحثہ اس قیاس آرائی، نکتہ آفرینی اور اندازوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا کہ فوج اس وقت کس سیاسی لیڈر کو کس حد تک مؤثر یا طاقت ور رکھنا چاہتی ہے۔
یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ عمران خان نے حال ہی میں ایوان صدر میں ’ایک انتہائی طاقت ور شخصیت‘ سے ملاقات کی تھی۔ یہ انتہائی طاقت ور شخصیت جنرل قمر جاوید جاجوہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ ایسے میں ایک سوال تو یہی ہے کہ اگر ملک میں آئینی انتظام کے تحت قائم حکومت ہی بااختیار اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے تو پھر ملک کی سب سے طاقت ور شخصیت کا تمغہ جنرل باجوہ کے گلے میں کیوں ڈالا جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کی اکثریت سے ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہونے والے شہباز شریف کو کیوں ملک کا طاقت ور ترین شخص نہیں کہا جاتا۔ فوج اگر سیاسی مداخلت سے دست بردار ہوچکی ہے تو پھر اسے کیوں مسلسل ملکی سیاست میں سب سے اہم فیکٹر سمجھا جاتا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کے بیانات سے یکساں طور سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ سیاست کے یہ دونوں دھڑے عسکری قیادت کی نظر التفات ہی کے منتظر رہتے ہیں۔
ایوان صدر میں باجوہ عمران ملاقات میں نہ جانے کتنی سچائی ہے لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے قومی سیاست کے اس سب سے بڑے ’گوسپ‘ کی تردید کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ دوسری طرف جب عمران خان سے اس بارے میں براہ راست سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس کا جوب دینے سے انکار کیا کہ ’میں جھوٹ بولنا نہیں چاہتا اور سچ بتا نہیں سکتا، اس لئے اس سوال کا جواب نہیں دوں گا‘۔ صاف چھپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق عمران خان نے اپنی طرف سے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ان کی عسکری قیادت سے براہ راست ملاقات ہوئی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان افواہوں میں کس حد تک سچائی ہے کہ اس ملاقات میں ملکی سیاسی بحران حل کرنے کے لئے سامنے آنے والی تجاویز پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا یا یہ کہ عمران خان یا حکومت میں سے کسی ایک نے کسی ایسے سیاسی مفاہمتی فارمولے کو ماننے سے انکار کیا ہے۔
البتہ فوج اور سیاست کے تناظر میں یہ سوال تو جواب طلب رہے گا کہ اگر فوج سیاسی معاملات سے علیحدہ ہوچکی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ سیاسی قوتوں کو خود اپنے فیصلے کرنے چاہئیں تو پھر جنرل باجوہ یا ان کے کسی نمائیندے کو عمران خان سے ’خفیہ‘ طور سے ملنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اور اگر عمران خان اور ان کی پروپیگنڈا مشینری کسی طرح اپنے سیاسی فائدے کے لئے یہ تاثر قائم رکھنے کی کوشش کررہی ہے کہ ان کے فوج سے تعلقات استوار ہیں اور یہ کہنا غلط ہے کہ فوج اور تحریک انصاف کے راستے جدا ہوچکے ہیں تو فوج کے ترجمان اس ناجائز افواہ سازی کی تردید کیوں نہیں کرتے۔ فوج کی طرف سے ایک سیاسی گروہ کی بالواسطہ تائید کا تاثر ملک کی سیاسی صورت حال پر اثرانداز ہوتا ہے۔ سیاست سے کنارہ کشی کی خواہشمند فوج کیوں کر ایک سیاسی گروہ کو مسلسل اپنی بیان کردہ پوزیشن سے متصادم تصویر پیش کرنے کی اجازت دے سکتی ہے؟ جنرل باجوہ کے بقول اگر فوج اب سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرہی چکی ہے تو اسے یہ بھی یقینی بنانا چاہئے کہ پاکستانی سیاسی حلقوں، میڈیا کے تجزیوں یا ’تحقیقاتی‘ رپورٹس میں بھی یہ تاثر قائم کرنے کا طریقہ ختم ہوجائے۔ فوجی قیادت اگر اس غیر واضح صورت حال کو ختم کرنا چاہتی تو اس کے پاس افواہوں کی اس دھند سے نجات حاصل کرنے کے ہزار طریقے ہیں۔ لیکن کیا نیوٹرل رہنے کے فیصلہ کے باوجود اس بارے میں شبہات قائم رکھنا ضروری اور ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں ا ہم سمجھا جارہا ہے؟
فوج کی غیر جانبداری اور قومی سیاست کی بحث سے قطع نظر اس تصویر کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ بیان جاری کرنے کے لئے دورہ امریکہ کا انتظار کیا اور واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانہ کی تقریب میں براہ راست وہ باتیں کہنا مناسب سمجھا جو آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل اس سے پہلے اپنی میڈیا گفتگو میں بیان کرتے رہے تھے۔ پاکستانی سیاست اور فوجی قیادت کے بارے میں اہم ترین بیان کے لئے امریکی سرزمین کا انتخاب شبہات اور اندیشوں کو جنم دے گا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سرکاری طور سے سفارت خانہ میں دیے گئے اس ظہرانے کی کوئی خبر جاری نہیں ہوئی اور نہ ہی آئی ایس پی آر نے اس بارے میں کوئی پریس ریلیز جاری کی۔ بلکہ اس بارے میں ’نامعلوم‘ شرکا کے حوالے سے خبر عام کرنا ہی بہتر طریقہ سمجھا گیا۔ البتہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے یہ ضرور خبر دی کہ سفارت خانہ سے پاک فوج کے سربراہ امریکی فوجی و سیاسی لیڈروں سے ملنے کے لئے پینٹاگون روانہ ہوئے جہاں سیکرٹری دفاع، قومی سلامتی کے مشیر اور نائب وزیر خارجہ سے ان کی ملاقات ہوئی۔
امریکی قیادت سے ملاقات سے فوری پہلے فوج کی غیر جانبداری، اپنی ریٹائرمنٹ اور ملکی معیشت کی اہمیت کے بارے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر ، الجھنوں کا جواب دینے کی بجائے نت نئے سوالات کو جنم دیتی ہے۔ واقعات کی اس ترتیب سے پاکستان میں امریکی سازش کے نظریات پیش کرنے والوں کو نت نئے قصے سنانے اور عوام کو گمراہ کرنے کا موقع ملے گا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ