سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ پرویز مشرف کی گرفتاری کے لئے انٹر پول سے رابطہ کرے اور متحدہ عرب امارات کی حکومت سے کہا جائے کہ پرویز مشرف کو پاکستان کے حوالے کیا جائے کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ملزموں کے تبادلے کا معاہدہ موجود ہے۔ عدالت کے اس حکم پر جو پرویز مشرف کے ملک سے ’فرار‘ کے دو سال بعد جاری ہؤا ہے، سوائے اس کے کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے‘ ۔ جس ملک کے مستعد عدالتی نظام میں ایک خصوصی عدالت کو جو صرف اس ایک مقدمہ کی سماعت کے لئے قائم کی گئی تھی، ایک مفرور شخص کے خلاف انٹرپول سے رابطہ کرنے کا حکم دینے کے لئے دو سال کا عرصہ درکار ہو، اس عدالت یا نظام سے کسی بھی معاملہ میں فوری اور مکمل انصاف کی توقع عبث ہے۔ پرویز مشرف کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ اسے ایک عدالتی حکم سے حل کیا جاسکے۔
خصوصی عدالت اگر اس بات پر پریشان ہونے کی بجائے کہ اس کا ’ملزم‘ ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ، اس اہم مقدمہ کی کارروائی جاری رکھتی اور پرویز مشرف کی غیر حاضری میں تمام شواہد کا مشاہدہ کرتے ہوئے آئین اور قانون کے مطابق ان الزامات پر فیصلہ صادر کردیتی تو یہ اصول طے کیا جاسکتا تھا کہ ملک کی عدالتیں اب آئین کی سربلندی کے لئے مستعد ہیں اور ماضی کی کوتاہیوں کو دہرانے کی غلطی نہیں کریں گی۔ لیکن خصوصی عدالت اب تک اس الجھن میں ہے کہ وفاقی حکومت پرویز مشرف کو اس کے سامنے پیش کرنے کےقابل کیوں نہیں ہے۔ کبھی پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا جاتا ہے اور کبھی ان کی جائداد قرق کرنے کا حکم جاری ہوتا ہے اور اب یہ فرمایا گیا ہے کہ انہیں گرفتار کرکے عدالت کے روبرو پیش کرنے کے لئے انٹر پول سے رابطہ کیا جائے۔ حالانکہ اس معاملہ میں بنیادی مقصد پرویز مشرف کو گرفتار یا قید کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اصول طے کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں نافذ آئین کے مطابق سارے معاملات طے کئے جانے کی روایت کو مستحکم کیا جائے۔
ماضی میں چونکہ فوجی جرنیل بار بار ملک کے آئین کو منسوخ یا معطل کرتے رہے ہیں اور ملک کی عدالتیں ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت ان اقدامات کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہیں ، اس لئے اس خصوصی عدالت سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ پرویز مشرف کے 2007 کے آئین شکنی پر مبنی اقدامات کی روشنی میں یہ طے کرسکے گی کہ ماضی میں نظریہ ضرورت کا استعمال غلط طور سے ملک کے مروجہ آئین کی خلاف ورزی کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اور جس طرح فوجی سربراہوں نے سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے آئین شکنی کی تھی، اسی طرح اعلیٰ عدالتیں بھی ان غیر آئینی اقدامات کو نظریہ ضرورت کا لبادہ پہنا کر اسی آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی تھیں جس کی وفاداری اور سربلندی کا حلف لے کر ہی جج ان عدالتوں کا حصہ بنے تھے۔ اسی مقدمہ میں یہ بات بھی طے کرنے کی ضرورت تھی کہ آئین شکنی کا سارا بوجھ کیا صرف چند فوجی سربراہوں پر ڈال کر یہ قوم آگے بڑھ سکتی ہے یا یہ طے کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ان فوجی اقدامات کا ساتھ دینے والے ججوں کو بھی شریک جرم قرار دے کر ایک بار تاریخ میں کی گئی غلطیوں کی اصلاح کر لی جائے تاکہ مستقبل میں اآئین شکنی کی کوشش کرنے والے فوجی جرنیل اور اس کا ساتھ دینے والے ججوں کو نوشتہ دیوار دکھائی دے۔
اگر خصوصی عدالت ملک میں آئین کی بالادستی کے اصول کو مستحکم کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری کا احساس کرسکتی تو وہ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران یہ غور بھی کرسکتی تھی کہ جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج مختلف فوجی آمروں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پی سی او کے تحت حلف لے کر کسی بھی فوجی آمر کی وفاداری کا اقرار کرتے رہے ہیں تو انہوں نے کس حد تک اس ملک کے عدالتی نظام کو مذاق بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت بھی ایسے حالات موجود ہیں کہ ملک کی منتخب حکومت کو مسلسل فوجی قیادت اور عدالتی فیصلوں سے نت نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ایوانوں میں اکثر یہ اعلان سنائی دیتا ہے کہ ہر قیمت پر آئین کی حفاظت کی جائے گی اور جمہوریت کو یقینی بنایا جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی ماحول کی بے یقینی اور الزامات کی بھرمار بھی جاری ہے۔ خصوصی عدالت اگر اپنا فرض ادا کرنے کے لئے مستعد ہوتی تو شاید یہ صورت حال تبدیل ہونے میں مدد مل سکتی تھی۔ اس صورت میں صرف اعلان اور وعدے سننے کو نہ ملتے بلکہ اداروں کے رویوں میں عملی تبدیلی دیکھنے میں آتی۔ لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے ملک کی تاریخ میں ایک غیر آئینی اقدام کے خلاف غور کے لئے بنائی گئی خصوصی عدالت کو یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ یہ مقدمہ ایک فرد کے خلاف نہیں ہے بلکہ ایک مزاج اور طرز عمل کے خلاف ہے جس میں ایک طاقتور ادارہ دوسرے طاقتور ادارے کے تعاون سے عام لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کے خلاف اقدام کرتا رہا ہے۔ اور اس غیر آئینی اور غیر اخلاقی اقدام کو جائز قرار دینے کے لئے اپنے گناہ کو نظریہ ضرورت کا لباس پہنایا جاتا رہا ہے۔ اور سیاست دانوں کی غلطیوں کو احتساب کا نام دے کر عوام میں بے یقینی اور جمہوریت کے بارے میں شبہات پیدا کئے جاتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اب بھی یہ کھیل زور شور سے جاری ہے۔
پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا قیام سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضدی یا منتقم مزاج طبع کا شاخسانہ تھا جو بہر صورت ان کے ہاتھوں اپنی ہزیمت کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ یعنی یہ قدم کسی اصول کو تسلیم کروانے کے لئے نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد خود سرخروئی حاصل کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار کے دوران جب نواز شریف کو فوجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو سپریم کورٹ سے اجازت ملنے کے نام پر پرویز مشرف کو جلد واپس آنے کی یقین دہانی پر عجلت میں بیرون ملک روانہ کردیا گیا۔ 2016 میں پرویز مشرف کو ریلیف دینے والے سپریم کورٹ کے جج بخوبی جانتے تھے کہ وہ ایک بار ملک سے گئے تو واپس نہیں آئیں گے اور یہی بات نواز شریف اور ان کے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے علم میں بھی تھی۔ سچ صرف اتنا ہے۔ باقی سب کہانیاں ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرنے اور اپنے چہرے پر پتی سیاہی چھپانے کے لئے گھڑی اور بیان کی جاتی ہیں۔ آج نواز شریف جس عدالتی نظام سے شکایات کررہے ہیں اور آئین کی بالادستی کی جو دہائی دے رہے ہیں، اگر وہ 2016 میں پرویز مشرف کے معاملہ میں ڈٹ جاتے اور دباؤ کی صورت میں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجاتے تو جمہوریت بھی مستحکم ہوتی اور عدالتوں اور فوج کے گٹھ جوڑ کی کہانی بھی سب کو سمجھ آجاتی۔ لیکن جب سیاست دان خود حوصلہ نہیں کرے گا اور بعد میں جمہوریت اورآئین کو لاحق خطرے کا شور مچائے گا تو اس کی باتیں پوری طرح قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔
عدالتوں کا معاملہ بھی ملک کےسیاستدانوں سے مختلف نہیں ہے۔ آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے اعلانات تو کئے جاتے ہیں لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اس حوصلہ کا مظاہرہ نہیں ہوتا جو آئین کا احترام کرنے والے کے طرز عمل میں دکھائی دینا چاہئے۔ ہسپتالوں میں صفائی اور شہریوں کے لئے صاف پانی کے معاملات تو سو موٹو کے ذریعے بھی طے ہو رہے ہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا معاملہ باقاعدہ سماعت کے لئے موجود ہونے کے باوجود سرد خانے میں پڑا ہے۔ اسی طرح پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کا معاملہ ایک فرد کی گرفتاری پر فوکس کرکے ، بنیادی اصول سے صرف نظر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں ملک میں آئین اور جمہوریت کے بارے میں پیدا ہونے والے سارے خدشات کو حقیقی سمجھنا چاہئے۔
فیس بک کمینٹ