یہ ماننا پڑے گا کہ سیاست میں غیرمتعلق ہو جانے کے باوجود سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما چوہدری نثار علی خان کو خبروں میں رہنے کا فن آتا ہے اور وہ یہ جان چکے ہیں کہ اگر مستقبل میں انہیں مسلم لیگ (ن) یا کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اپنا سیاسی مستقبل محفوظ رکھنا ہے تو خبروں میں رہتے ہوئے یہ تاثر قائم رکھنا ہوگا کہ وہ ابھی تک اہمیت رکھتے ہیں اور سیاست کے گر جانتے ہیں۔ حقیقت میں ان کی اہمیت محض اس وجہ سے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سےدوستی کی وجہ سے انہوں نے نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے پارٹی معاملات اور نواز شریف کے ساتھ لاتعلقی کا رشتہ استوار رکھا ہے۔ کسی حد تک نواز شریف کے اس مؤقف کو مسترد کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی نااہلی اور حکومت ختم کرنے میں دراصل اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اور عدالتوں کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ٹیکسلا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ جلد ہی پارٹی کےساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت اور پارٹی کے ساتھ اختلافات کے بارے میں تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کریں گے۔ ان کے بقول اب وقت آگیا ہے کہ وہ اس حوالے سے پیدا ہونے والے ابہام کو ختم کر دیں۔ اس موقع پر جب ان سے ایک اخبار نویس نے دریافت کیا کہ کیا وہ مسلم لیگ (ن) کے بیانیہ سے اختلاف رکھتے ہیں تو انہوں نے شاطر سیاست دان کی طرح جوابی سوال داغتے ہوئے استفسار کیا کہ مجھے بتایا جائے کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ کیا ہے۔ حالانکہ ایک صحافی سے یہ سوال کرنے کی بجائے وہ اس پارٹی کی قیادت سے یہ سوال کرتے تو انہیں اس کا زیادہ ٹھوس جواب مل سکتا تھا، جس کے ساتھ چلتے ہوئے وہ متعد بار اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اگرچہ چوہدری نثار علی خان فی الوقت یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پارٹی کے ساتھ اختلافات ہیں لیکن وہ پارٹی چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن یہ صورت حال تبدیل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ عمران خان پہلے ہی چوہدری نثار علی خان کو تحریک انصاف میں شامل ہونے کی دعوت دے چکے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان کی واحد اہمیت یہ ہے کہ وہ پاکستانی سیاست میں ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے نمائیندے سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب صدر شہباز شریف کو بھی اسی حوالے سے شہرت حاصل ہے اور چوہدری نثار علی خان کے ساتھ شہباز شریف کی قریبی دوستی کی بنیاد بھی فوج کے ساتھ دونوں کے تعلقات اور فوج کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے سیاست کرنے کا طرز عمل ہی ہے۔ نواز شریف نے بار بار اس رویہ سے اختلاف کیا ہے۔ وہ بطور وزیر اعظم اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔ اسی لئے اکثر فوجی سربراہان سے ان کے تعلقات مخدوش رہے اور پرویز مشرف کو ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے تبدیل کرنے کی کوشش میں ہی نواز شریف کو نہ صرف حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ سعودی عرب کے تعاون سے طے پانے والے معاہدے کے تحت جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی تھی۔ اب شہباز شریف پارٹی صدر بن چکے ہیں۔ بعض مبصر یہ توقع کررہے ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ پارٹی کا کنٹرول سنبھال کر نواز شریف کو غیر متعلق کردیں گے ۔ اسی کو مسلم لیگ (ن) کے سیاسی امکانات سے تعبیر کیا جارہا ہے اور اسی دن کے انتظار میں شاید چوہدری نثار علی خان پارٹی سے علیحدگی کی بجائے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کب شہباز شریف پارٹی صدر کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) انہیں خطوط پر کام کرسکے گی جن کا خاکہ نثار علی خان نے آج کی پریس کانفرنس میں پیش کیا ہے کہ فوج پر تنقید بند کی جائے، تصادم کا راستہ ترک کیا جائے، عدالتوں کے فیصلوں کو قبول بھی کیا جائے اور انہیں بظاہر پورا احترام بھی دیا جائے اور اگر کسی ریلیف کی ضرورت ہے تو وہ سپریم کورٹ سے ہی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے برعکس نااہلی کے بعد سے نواز شریف نے عدالتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہیں ایک سازش اور ایجنڈے کے تحت اقتدار سے محروم کیا گیا ہے۔ ’مجھے کیوں نکالا‘ کے عنوان سے سامنے آنے والا یہ طرز عمل جسے عرف عام میں ’بیانیہ‘ قرار دیا جارہا ہے ، فی الوقت نواز شریف کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ اسی لئے پارٹی میں زیادہ توڑ پھوڑ دکھائی نہیں دیتی اور بہت سے سیاسی خاندان اس انتظار میں ہیں کہ انہیں نواز شریف کے احتجاجی طرز عمل کی چھتر سایہ میں سیاسی کامیابی ملے گی یا وہ ان سے علیحدہ ہونے کی صورت میں ہی اپنا سیاسی مستقبل محفوظ کرسکیں گے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی صدر بننے کے باوجود شہباز شریف نے بھی ابھی تک نواز شریف سے اختلاف کا اظہار کرنے اور پارٹی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ سینیٹ انتخابات اور اس کے بعد سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے معاملات نواز شریف نے طے کئے تھےاور شہباز شریف اس ساری صورت حال میں پارٹی صدر کی بجائے ’بیک بینچر‘ کا کردار ادا کرتے رہے تھے۔ چوہدری نثار علی خان کی طرح شہباز شریف بھی اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ عام انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ احتساب عدالت میں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف مقدمات کا کیا فیصلہ آتا ہے اور اگر انہیں بدعنوانی کے مقدمات میں سزائیں ہوتی ہیں تو کیا اس سے ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہوگا یا وہ سیاسی طور سے اپنی حیثیت اور اہمیت کھو بیٹھیں گے۔ یعنی کیا پارٹی کے بیشتر لوگ نواز شریف کی بجائے شہباز شریف کی قیادت میں فوج کی سرپرستی اور عدالتوں کی نگرانی میں محدود اختیارات کے ساتھ سیاست اور حکومت کرنے پر راضی ہوں گے یا نواز شریف مخالفانہ فیصلوں کے بعد جیل جانے کے باوجود عوامی مقبولیت اور اپنے نام نہاد بیانیہ کے سحر کو برقرار رکھ سکیں گے۔ اگر ایسا ہؤا تو شہباز شریف کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ انہیں 2018 کا انتخاب نواز شریف کی ہدایات کے مطابق ہی لڑنا پڑے گا۔ اس طرح ان کی زاتی کوشش یہ ہوگی کہ اگر مرکز میں انہیں کمزور مخلوط حکومت پر بھی اکتفا کرنا پڑے تو بھی پنجاب کی سیادت ان کے یا ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کے ہاتھ میں ہی رہے۔ کیوں کہ شہباز شریف جانتے ہیں کہ پنجاب ہی ان کی طاقت کا مرکز ہے۔ لیکن اس سارے منظر نامہ میں یہ بات بھی اہم ہے کہ کیا نواز شریف احتساب عدالت کی طرف سے سزا ملنے کی صورت میں جیل جاکر اپنی ’باغی‘ سیاست کو جاری رکھنے کا رسک لیں گے یا ایسی صورت میں فرار ہوکر برطانیہ میں پناہ لیں گے اور جلاوطن لیڈر کے طور پر بیان دینے کو ہی سیاست قرار دے کر باقی زندگی گزارنا پسند کریں گے۔
ان حالات میں خواہ نواز شریف جیل جائیں یا ملک سے فرار ہوں، یا ملک میں نااہل لیڈر کے طور پر قیام کرتے ہوئے پارٹی معاملات چلانے کی کوشش کریں، یہ بات تو طے ہے کہ 2018 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قوت کا تعین ہوگا اور اسی وقت یہ فیصلہ بھی ہوگا کہ نواز شریف کو پارٹی کس حد تک دائمی قائد اور رہنما کی حیثیت سے عزت و احترام دیتی ہے۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ انتخاب میں مکمل یا جزوی کامیابی کے بعد شہباز شریف پارٹی صدر کے طور پر زیادہ مستعد ہو جائیں اور نواز شریف کی توصیف کرتے ہوئے بھی ان پالیسیوں پر عمل کریں جو ان کے مزاج کے قریب اور نواز شریف کے مؤقف سے متصادم ہوں۔ ایسی صورت میں منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی عام طور سے پارٹی صدر کا ہی ساتھ دیں گے اور نواز شریف سزا سے بچنے کے باوجود آہستہ آہستہ قومی سیاست سے غیر متعلق ہو جائیں گے۔ یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ فوج نواز شریف کو سیاسی شہید بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ درپردہ منظر نامہ لکھنے والوں کی یہ خواہش محسوس کی جاسکتی ہے کہ سیاست کی بساط پر مہرے اس طرح چلائے جائیں کہ نواز شریف اپنے ہی منتخب کئے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں سے زخم کھا کر سیاست سے ’تائب‘ ہونے کو ترجیح دیں اور باقی زندگی گوشہ نشینی میں گزار دیں۔ اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔ یعنی نواز شریف سے جان بھی چھوٹ جائے گی اور فوج پر سیاست میں مداخلت کرنے کا براہ راست الزام بھی عائد نہیں ہوگا۔ تاہم اس سوال کا جواب وقت ہی دے گا کہ کیا نواز شریف کا انجام بھی الطاف حسین جیسا ہو سکتا ہے یا وہ اپنے سیاسی ہتھکنڈوں اور واضح سیاسی مؤقف کے ذریعے سیاست میں ایسی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جس میں سیاست میں فوج کی مداخلت محدود ہو سکے اور معاملات منتخب پارلیمنٹ میں طے ہوسکیں۔ یہ ایک خوابناک صورت حال ہے لیکن اگر نواز شریف ہر قربانی دینے کے اعلان پر قائم رہتے ہیں اور ملک میں رہ کر صعوبتیں برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو اس جائز اور جمہوری مؤقف کی کامیابی کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
اسے کوئی پسند کرے یا نہ کرے تاہم اس وقت ملک میں نواز شریف درست سیاسی مؤقف کو پیش کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دیرینہ ساتھی چوہدری نثار علی خان کو بھی اسے سمجھنے میں مشکل درپیش ہے۔ اس قبیل کے سارے سیاست دان جی ایچ کیو کے اشاروں پر چلتے ہوئے ہی قومی سیاست میں ’ممتاز سیاستدان‘ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ اس عمر میں ساری زندگی کا چلن بدلا نہیں جا سکتا ۔ اسی لئے چوہدری نثار خبروں میں رہنے کی کوشش میں لگےہیں اور اس وقت کا انتظار کررہے ہیں جب شہباز شریف اس مشترکہ ایجنڈے کے لئے ان کے ساتھ آ ملیں گے جس کی تکمیل کے لئے وہ نواز شریف کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے دونوں کو نواز شریف کو راستے سے ہٹانا ہوگا۔ یہ کام روز بروز مشکل ہو رہا ہے۔
فیس بک کمینٹ