بلاول بھٹو زرداری کے پرجوش سیاسی حملوں اور مسلم لیگ (ن) کی نسبتاً خاموشی سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی فروری میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیابی سے مایوس ہوچکی ہے۔ اور اب الزام تراشی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ صرف وہی ووٹ کی طاقت پر یقین رکھتی ہے۔ کسی ادارے یادرپردہ قوتوں کو یہ فیصلہ کرنے کا حق دینے پر آمادہ نہیں ہے۔
آج پشاور کے جلسہ میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین نے مسلم لیگ (ن) اور اتحادی حکومت میں شراکت دار بڑی پارٹی کو ’مہنگائی لیگ‘ کے نام سے پکارا۔ اس کے ساتھ ہی سیلاب کے بعد سندھ میں بحالی کے کام کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گویا وزیر خارجہ کے طور پر اس ساری ’کامیابی ‘ کا کریڈت انہی کو جانا چاہئے۔ یہ اور ایسے ہی دیگر بیانات بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہیں ۔کیوں کہ میڈیا میں مہم جوئی اور الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملانے کی حد تک مسلم لیگ (ن) کو کامیابی حاصل ہورہی ہے ۔ اس سے بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمی کا عہدہ دور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حالانکہ اول تو گزشتہ سال سیلاب سے ریکارڈ تباہ کاری کے باوجود عالمی امداد کے کوئی بلند بانگ وعدے بھی نہیں کیے گئے اور حقیقی امداد بہت کم رہی تھی۔ دوسرے اگر پاکستان کو کوئی امداد مل رہی تھی یا بحالی کے کسی منصوبہ کے لیے کوئی عالمی معاہدہ ہؤا تھا تو یہ معاملات حکومت وقت کے ساتھ طے ہورہے تھے جس کے سربراہ وزیر اعظم کے طور پر شہباز شریف تھے۔ تاہم بلاول بھٹو زرداری یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ شہباز حکومت میں وزیر خارجہ کے سوا کوئی وزیر فعال نہیں تھا۔ یہ دعویٰ بجائے خود مضحکہ خیز ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت بلاول بھٹو زرداری کی براہ راست نکتہ چینی کا جواب نہیں دے رہی البتہ دوسرے درجے کے لیڈر کسی بیان یا پریس کانفرنس میں ہلکی سی چٹکی ضرور لیتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی پیپلز پارٹی کی پریشانی سے ’محظوظ‘ ہورہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور سابق وفاقی وزیر رانا ثنااللہ نے آج ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ لیگی لیڈروں کے خلاف جعلی اور جھوٹے مقدمے ختم ہورہے ہیں، کیا اسے دھاندلی کہیں گے یا اس سے کوئی لیڈر لاڈلا ہوجاتا ہے؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ منظم طریقے سے انتخابات لڑنے کی تیاری کررہی ہے ۔ ہر حلقے میں اس کے پاس ایک سے زیادہ قابل اعتبار امید وار ہیں ۔ اس لیے انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) سادہ اکثریت سے آئیندہ حکومت بنائے گی۔
ملکی سیاست کے متعدد مبصر اور تجزیہ نگار بھی رانا ثنااللہ کے اس دعوے سے اتفاق کریں گے۔ اسے خواہ اسٹبلشمنٹ کا اشارہ قرار دیا جائے، مسلم لیگ (ن) کا ٹھوس ہوم ورک کہا جائے یا میاں نواز شریف کی مقبولیت کو اس کا سبب سمجھا جائے لیکن عملی طور سے یہی نظر آتاہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں واضح اکثریت نہ بھی حاصل کرسکی تو بھی اسے اس حد تک نشستیں ضرور مل جائیں گی کہ وہ مرکز میں چند دوسرے سیاسی گروہوں کے تعاون سے اور پنجاب میں شاید تن تنہا حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائے ۔ ملکی سیاست پر ناقدانہ نگاہ رکھنے والے اسی صورت حال کو انتخابات سے پہلے ہی فیصلہ کرنے کا طریقہ قرار دے رہے ہیں۔ اس قیاس کے مطابق ایسا صرف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کسی پارٹی کو اسٹبلشمنٹ کی غیر مشروط حمایت حاصل ہو۔
نواز شریف کے دورہ بلوچستان کے موقع پر تیس کے لگ بھگ اہم لیڈروں نے مسلم لیگ میں شمولیت کااعلان کیا تھا۔ پنجاب کے متعدد الیکٹ ایبلز بھی روزانہ کی بنیاد پر نواز شریف سے مل کر ان کے ساتھ چلنے کا اعلان کررہے ہیں۔ یادش بخیر یہ وہی صورت حال ہے جو 2018 کے انتخابات سے پہلے عمران خان اور تحریک انصاف کے حوالے سے دیکھنے میں آرہی تھی۔ جہانگیر ترین روزانہ کی بنیاد پر جہاز بھر کر ہونہار سیاسی لیڈروں کو بنی گالہ لے کر جاتے اور وہاں عمران خان ان کے گلے میں تحریک انصاف کا گلوبند ڈال کر انہیں اپنے ساتھ شامل کرلیتے۔ تاہم اس بار ایک فرق بہر حال محسوس کیا جاسکتا ہے کہ الیکٹ ایبلز کو نون لیگ کی طرف دھکیلنے کے لئے کوئی ’محکمہ زراعت یا خلائی مخلوق‘ متحرک نہیں ہے ۔ اپنے علاقوں میں سیاسی برتری رکھنے والے لوگ ازخود یہ اندازے قائم کررہے ہیں کہ اس بار کامیابی کی ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں جو تاثر تقویت پکڑ رہا ہے، وہ یہی ہے کہ اسٹبلشمنٹ عمران خان کے تجربے سے مایوس ہوکر ایک بار پھر نواز شریف کو موقع دینے پر آمادہ ہوگئی ہے۔
اس تاثر کے لئے دلیل دینے والے البتہ بالواسطہ طور سے یہ اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ملک میں خواہ انتخابات کا نام لیا جائے اور ایک خاص دن ووٹ ڈالنے کی مشق کی جائے لیکن نتائج پہلے سے ہی مرتب کرلیے جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ایسا مؤقف نہ صرف ملک میں جمہوری روایت کے برعکس ہے بلکہ آئینی تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ تاہم ماضی قریب میں اسی طریقے سے انتخابات مینیج ہوتے رہے ہیں، اس لیے عام رائے میں اسی طریقے کو ’درست ‘ مانا جارہا ہے۔ کسی کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ واقعی اسٹبلشمنٹ کسی ایک پارٹی کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور اسے انتخابات میں کامیاب کروانے کا تہیہ کرچکی ہے۔ البتہ پیپلز پارٹی کی مسلسل الزام تراشی، مسلم لیگ (ن) کی خاموشی اوراسٹبلشمنٹ کی لاتعلقی سے یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے۔
ان حالات میں مسلم لیگ (ن) کو اسے پیپلز پارٹی کی بدحواسی سمجھ کر نظر انداز کرنے یا اس کا ’سیاسی فائدہ‘ اٹھانے کی کوشش کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ اگر ایک بار پھر ملک میں پہلے سے طے شدہ پارٹی یا گروہ کو سیاسی اقتدار دینے کی کوشش کی گئی تو اس سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچنے گا۔ اب پاکستان کے علاوہ، پورے ریجن اور دنیا بھر کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ جعلی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار سنبھالنے کا کوئی طریقہ سود مند نہیں ہوسکتا۔ یہ ممکن ہے کہ شفاف انتخابات کے نتیجہ میں تحریک انصاف عام اندازوں سے زیادہ کامیابی حاصل کرلے یا قومی اسمبلی میں کسی ایک گروہ کو اکثریت نہ ملے اور کئی چھوٹے چھوٹے گروہوں کو مل کر مخلوط حکومت بنانی پڑے جو بظاہر ایک کمزور حکومت ہوگی۔ کیوں کہ اس میں شامل ہر پارٹی زیادہ سے زیادہ عہدے اور سہولت لینے کی کوشش کرے گی۔ ماضی میں یہ صورت حال دیکھی جاچکی ہے۔ عمران خان کے علاوہ شہباز شریف کو انہی حالات کا سامنا رہا تھا۔ لیکن جائز طریقے سے منتخب ہونے والی کوئی کمزور حکومت بھی ناجائز طریقے سے مسلط کی ہوئی مضبوط حکومت کے مقابلے میں مؤثر اور عوام کے فائدے میں ہوگی۔
ان افسوسناک سیاسی الزام تراشی اور میڈیا مباحث سے اگرچہ ملکی عسکری قیادت کو علیحدہ ہی رہنا چاہئے تاکہ شفاف انتخابات کے بعد یہ دھول خود ہی بیٹھ جائے۔ تاہم صورت حال کے بعض پہلوؤں کی وجہ سے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کواپنی پوزیشن ضرور واضح کرنی چاہئے۔ ایک تو اسٹبلشمنٹ سانحہ9 مئی کے بعد پوری شدت سے تحریک انصاف کے لوگوں کو سزا دلوانے اور پارٹی کو غیر فعال کرنے میں متحرک دکھائی دی ہے۔ اگر ملکی عسکری قیادت ایک خاص سیاسی لیڈر یا پارٹی سے ناراضی کا برملا اظہار کرے گی تو اس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملے گی کہ ایک مقبول پارٹی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسرے میڈیا مباحث اور سیاسی بیانات میں ایک خاص پارٹی کو کنگز پارٹی قرار دے کر جو تاثر قائم ہورہا ہے ، اس کا براہ راست اشارہ اسٹبلشمنٹ کی سیاسی انجیئنرنگ کی طرف ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں چونکہ یہ طریقہ نہایت ڈھٹائی سے استعمال کیا گیا، اس لیے قیاس آرائیوں کے اس طوفان میں اسٹبلشمنٹ کا کردار مشکوک ہورہا ہے۔ تیسرے عسکری قیادت کی طرف سے مسلسل یہ اشارے دیے گئے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر ملکی معاشی بحالی کے منصوبے کو کامیاب کروائے گی۔ البتہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ اسٹبلشمنٹ اس مقصد کے لیے ایک بار پھر اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کا حقیقی مفہوم تو یہ ہونا چاہئے کہ فوج جائز طور سے اقتدار سنبھالنے والی حکومت کو معاشی بحالی کے منصوبوں میں مکمل تعاون فراہم کرے گی۔ البتہ یہ تعاون منتخب حکومت کی مرضی و منشا اور فوج کے آئینی مینڈیٹ کے مطابق ہوگا۔
فوج کی غیر جانبداری کسی شک و شبہ سے بالا ہونی چاہئے۔ البتہ ماضی کے تجربات، سانحہ 9 مئی اور اوپر بیان کی گئی گزارشات کی روشنی میں ضروری ہوگا کہ فوج کا شعبہ تعلقات عامہ پراسرار طور سے خاموش نہ رہے بلکہ انتخابات اور تحریک انصاف کے حوالے سے اپنا مؤقف دوٹوک الفاظ میں بیان کردے۔ ایسا کوئی بیان انتخابات کے بارے میں شبہات دور کرے گا اور عوام کو یقین ہوسکے گا کہ اسٹبلشمنٹ اس بار ماضی کی غلطیاں دہرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ وہ ملک کی حفاظت کا عزم ضرور رکھتی ہے لیکن یہ کام وہ کسی بھی منتخب حکومت کی نگرانی میں ،اس کی مرضی کے مطابق انجام دے گی۔
اسی طرح الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے شدید دباؤ کے بعد صدر مملکت کی مشاورت سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے لیکن انتخابات کے بارے میں اس کی حکمت عملی ابھی تک صیغہ راز میں ہے۔ خاص طور تحریک انصاف کی قانونی حیثیت، انتخابی نشان اور دیگر پارٹیوں کی طرح پی ٹی آئی کو مساوی موقع دینے کے حوالے سے کمیشن کا پالیسی بیان سامنے آنا چاہئے۔ یہ اعلان اس لئے بھی اہم ہے کیوں کہ خبریں آتی رہی ہیں کی تحریک انصاف کو کسی بھی قسم کا اجلاس کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ الیکشن کمیشن پر یہ براہ راست ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملکی انتظامیہ اگر کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ جابرانہ سلوک روا رکھتی ہے تو اسے تبدیل کروانے میں کردار ادا کرے۔ الیکشن کمیشن تک ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ فراہم کرنے کے مطالبوں کی گونج ضرور پہنچی ہوگی۔ کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوٹوک الفاظ میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کی یقین دہانی کروائے اور اس کے عملی اقدامات ان ارادوں کو ظاہر کریں۔
تاہم چونکہ یہ ہوا باندھ دی گئی ہے کہ اقتدار کا تاج ایک بار پھر نواز شریف کے سر پر رکھنے کا ’فیصلہ‘ ہوچکا ہے، اس لیے مسلم لیگ (ن) کو خاص طور سے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ ایک بڑی اور ذمہ دار سیاسی پارٹی کے طور پر نون لیگ تمام سیاسی پارٹیوں کو مساوی موقع دینے کا مطالبہ کرے۔ تحریک انصاف سے اختلافات کے باوجود ضروری ہے کہ نواز شریف یہ اصولی مؤقف اختیار کریں کہ تحریک انصاف کے ہاتھ پاؤں باندھنے کا طریقہ قابل قبول نہیں ہے ۔ مسلم لیگ (ن) ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے پر قائم ہے اور انتخابات میں اس بات کو یقینی بنانے کی خواہش رکھتی ہے کہ سب پارٹیاں عوام سے ووٹ مانگیں اور جسے اکثریت مل جائے اس کے حق حکومت کو تسلیم کیا جائے۔
ممکن ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی تنظیمی صلاحیت اور سیاسی مقبولیت کی بنا پر انتخابات جیتنے کی امید کرتی ہو۔ لیکن ایسی کوئی بھی جیت اسی وقت قابل قبول ہوگی اگر پارٹی سیاسی مخالفین کو انتخابات میں مساوی موقع دینے کے لیے باقاعدہ مہم چلائے گی۔ بظاہر مسلم لیگ (ن) نواز شریف کو وزیر اعظم منتخب کروانا چاہتی ہے۔ نواز شریف البتہ خود وزارت عظمی کا امید وار بننے کی بجائے خاندان سے باہر کسی دوسرے شخص کو اس پوزیشن کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کریں تو مخالفانہ سیاسی مباحث کی شدت میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ نواز شریف کا سیاسی قد بھی بہت بلند ہو گا اور وہ ایک پارٹی کی بجائے قومی لیڈر کے مرتبے پر فائز ہوسکیں گے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ