تین سو وکیلوں کے خط اور تحریک انصاف کی طرف سے حکومت کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن پر مسلسل عدم اعتماد کے اظہار کے بعد سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کی شکایات کا جائزہ لینے کے لیے از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس معاملہ کی سماعت اب بدھ سے 7 رکنی لارجر بنچ کرے گا۔ اس کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔
اس سے پہلے سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے دو اجلاسوں میں اس معاملہ پر غور کیا گیا تھا اور سپریم کورٹ نے متفقہ طور سے اعلان کیا تھا کہ عدالتی معاملات میں انتظامیہ کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ فل کورٹ کی تائید اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیر اعظم شہباز شریف کی ملاقات کے بعد ہی یہ طے ہوا تھا کہ حکومت اس معاملہ کی تحقیقات کرنے اور ججوں کی شکایات کا جائزہ لینے، ان کا تدارک کرنے اور عدلیہ کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے کسی غیر جانبدار ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تحقیقات کروائے گی۔ ہفتہ کے روز کابینہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کی سربراہی میں ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن بنانے کی منظوری دی گئی تھی اور اس کے قواعد و ضوابط میں کمیشن کو اس معاملہ اور اس سے متعلق دیگر پہلوؤں کا وسیع تر بنیاد پر جائزہ لینے کا مکمل اختیار دیا گیا تھا۔
البتہ اس دوران میں تحریک انصاف کی مہم جوئی جاری رہی۔ جسٹس (ر) تصدق جیلانی کے کردار پر تو انگلی نہیں اٹھائی جا سکی لیکن تحریک انصاف کے لیڈروں نے مسلسل ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کی مخالفت میں بیان بازی کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ سوال اٹھایا جاتا رہا کہ ایسے کمیشن کی سفارشات پر کیسے عمل درآمد ہو گا۔ اسی تناظر میں ملک بھر سے تین سو سے زائد وکلا نے اتوار کو ایک خط میں سپریم کورٹ سے اس معاملہ میں از خود نوٹس لینے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ’6 بہادر ججوں‘ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ تحریک انصاف اور اس کے حامی وکیلوں کے اسی دباؤ کا نتیجہ ہے کہ آج جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے کمیشن سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، یوں تحقیقاتی کمیشن کا باب بند ہو گیا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے سینکڑوں وکیلوں کی استدعا پر از خود اختیار کے تحت اس معاملہ پر براہ راست غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے وزیر اعظم شہباز شریف کے نام خط میں تحقیقاتی کمیشن سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میں نے 6 ججوں کے لکھے گئے خط اور کابینہ کی جانب سے منظور کردہ ٹرمز آف ریفرنس کے ساتھ ساتھ متعلقہ آرٹیکل 209 کو دیکھا ہے۔ ججوں نے خط میں سپریم جوڈیشل کونسل اور اس کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کو مخاطب کیا ہے۔ لہٰذا یہ عدالتی وقار کی خلاف ورزی ہو گا کہ میں ایسے معاملے کی انکوائری کروں جو سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ یہ معاملہ آرٹیکل 209 کے تحت نہیں آتا‘ ۔ تاہم جسٹس تصدق جیلانی اس سے پہلے اس کمیشن کی سربراہی قبول کرچکے تھے اور انہوں نے روزنامہ ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے کمیشن کی سربراہی کا کہا گیا تھا۔ حکومت کے پیش کیے گئے ٹی او آرز کا بغور جائزہ لیا ہے اور میں نے کمیشن کی سربراہی کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے‘ ۔
عام شخص بھی اڑتالیس گھنٹے کے دوران میں تصدق جیلانی کے موقف میں 180 ڈگری کے فرق کو نوٹ کر سکتا ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف سمیت کسی بھی حلقے کی طرف سے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی غیر جانبداری پر تو انگلی نہیں اٹھائی گئی لیکن بظاہر انہیں اس اہم کام سے معذرت کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا تھا۔ اس کا پہلا اظہار گزشتہ روز تین سو وکلا کے خط میں سامنے آیا جس پر تصدق جیلانی کے بیٹے ثاقب جیلانی نے بھی دستخط کیے تھے۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے وکیل رہنماؤں نے جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کی سربراہی سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ جسٹس (ر) تصدق جیلانی کی معذرت سامنے آنے سے کچھ دیر قبل لاہور ہائی کورٹ کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے وکیل رہنماؤں نے انکوائری کمیشن کے خلاف جارحانہ تقاریر کی تھیں۔ سینئر وکیل رہنما حامد خان نے تصدق جیلانی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی عزت بچائیں اور حکومتی کھیل کا حصہ بننے سے باز رہیں۔
کسی بھی مہذب شخص کے لیے اس قسم کے جارحانہ دباؤ کا سامنا کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے ایک معاملہ میں ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اس سے انکار کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک میں سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے مایوس سیاسی عناصر کس حد تک جانے پر تیار ہیں۔ اس طرز عمل کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملکی نظام کو کسی بھی طرح کام نہ کرنے دیا جائے۔ بلند آہنگ بیانات اور سوشل میڈیا مہم جوئی کے ذریعے ایک خاص بیانیہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ وکیلوں سے زیادہ کون اس بات کی حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے کہ کسی بھی معاملہ کی حقیقت جاننے کے لیے اس کی تحقیقات بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے اپنے کام میں مداخلت نگرانی یا دھونس و دھمکی کے بعض واقعات کی نشاندہی کی ہے۔ ہائی کورٹ کے جج کو جو چاہے مقام و مرتبہ دے لیا جائے لیکن قانونی نقطہ نظر سے کسی بھی الزام کو اس وقت تک مبنی بر حقیقت تسلیم نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے تمام فریقین کی رائے سامنے نہ آ جائے اور کسی عدالتی فورم پر اس بات کا تعین نہ ہو جائے کہ کون سا فریق سچ کہہ رہا ہے۔
یہ معاملہ کیوں کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے بارے میں ہے اور ملک میں وکیلوں کی تنظیموں، میڈیا اور تحریک انصاف نے اس موضوع پر حکومت پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ اختیار کیا تھا، اسی لیے سپریم کورٹ اور حکومت نے مل کر ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ بصورت دیگر کسی دباؤ، دھمکی یا دھونس کی صورت میں ہر کس و ناکس کے لیے ملک کا قانون ایک ہی طریقہ تجویز کرتا ہے بلکہ یہ طریقہ عالمگیر طور سے اختیار کیا جاتا ہے کہ متاثرہ فرد یا ادارہ پولیس کے پاس کسی غیر قانونی سرگرمی کی رپورٹ درج کرواتا ہے اور متعلقہ پولیس افسر اس معاملہ کے میرٹ پر اس کی تحقیقات کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ تحقیقات کے دوران میں شکایت کنندہ کو اپنی شکایت یا پریشانی کے بارے میں ضروری شواہد پولیس کو فراہم کرنے پڑتے ہیں۔ اس معاملہ کا جائزہ لینے اور تفتیش مکمل کرنے کے بعد اگر پولیس اس نتیجہ پر پہنچے کہ کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو اس معاملہ کو کسی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ پولیس اور استغاثہ کا کیس تیار کرنے والے پراسیکیوٹر کسی بھی ملکی انتظامی مشینری کا حصہ ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے نامور وکیل اپنی سیاسی حیثیت کا ناجائز طور سے استعمال کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے کہ 6 ججوں کی شکایت جن ایجنسیوں کے خلاف ہے، وہ وزیراعظم ہی کے ماتحت ہیں، اس لیے تصدق جیلانی جیسے جج کو اس ’حکومتی کھیل‘ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ جبکہ حقیقت تو یہی ہے کہ ملک میں کسی بھی جرم کے بارے میں تحقیقات ہوں گی تو وہ کسی ایسے ادارے کے تحت ہی ہوں گی جو حکومت وقت کے زیر نگیں ہو گا۔ اس سے ماورا کوئی بھی اقدام لاقانونیت اور انارکی کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔
اب سپریم کورٹ نے سو موٹو اختیار کے تحت ججوں کی شکایات پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ ججوں کے خط میں انصاف طلب کرنے کی بجائے سپریم جوڈیشل کونسل سے رائے یا مشورہ طلب کیا گیا تھا اور جوڈیشل کنونشن میں اعلیٰ عدلیہ کے تمام ججوں سے ان کے تجربات کے بارے میں رائے مانگنے کی تجویز دی گئی تھی۔ فل کورٹ نے البتہ اس معاملہ کی تہ تک پہنچنے کے لیے اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن پر اتفاق کیا تھا۔ اس کمیشن کو کام کرنے دیا جاتا تو شاید ججوں کی شکایات اور ایجنسیوں کے ناروا طرز عمل کے بارے میں کچھ حقائق سامنے آتے اور انہیں حل کرنے کے لیے کوئی مناسب لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا۔ یہ مسئلہ حل کرنے اور عدلیہ کو مضبوط کرنے کی طرف ایک ٹھوس قدم ہوتا۔ اس میں متعلقہ ججوں کی عزت بھی محفوظ رہتی اور حقائق بھی منظر عام پر لائے جا سکتے۔ لیکن اگر اچھی شہرت رکھنے والے ایک سابق چیف جسٹس کی خود مختاری پر بھی اتفاق نہیں کیا جائے گا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیسے تلاش ہو سکتا ہے۔ یہ تو دکھائی دے رہا ہے کہ بعض سیاسی عناصر اور وکلا کے لیے مسئلہ کو سمجھنا اور اسے حل کرنا ضروری نہیں ہے لیکن ایک خط کی بنیاد پر غیر ضروری ہنگامہ آرائی کے ذریعے پورے نظام حکومت و عدالتی خود مختاری پر سوال اٹھانا زیادہ اہم ہے۔ اس منفی سوچ کے ہوتے سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ یا حکم بھی کسی مسئلہ کو مناسب طریقے سے حل نہیں کر سکتا۔ اس کی مثال حال ہی میں انتخابی نشان کے سوال پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف کی جانے والی تحریک انصاف کی سیاسی مہم جوئی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کا 7 رکنی بنچ اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی شکایت پر غور کرے گا۔ لیکن اس بنچ کا دائرہ اختیار محدود ہے۔ کوئی عدالت کسی معاملہ کی تحقیقات نہیں کر سکتی۔ نہ ہی متاثرہ فریق کا بیان درج کر سکتی ہے۔ یہ کام تو بہرحال متعلقہ اداروں ہی کو کرنا ہو گا۔ سپریم کورٹ زیادہ سے زیادہ اپنے حکم میں عدالتی امور میں مداخلت پر تشویش ظاہر کر کے حکومت سے عدلیہ کی غیر جانبداری یقینی بنانے کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ یا اگر وہ اپنے طور پر آگے بڑھا چاہتی ہے تو کوئی جے آئی ٹی بنا کر اسے تحقیقات کی ہدایت کر سکتی ہے۔ کیا ایسی تحقیقات اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے شایان شان ہوں گی؟
جسٹس (ر) تصدق جیلانی نے تحقیقاتی کمیشن سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو مشورہ دیا ہے کہ اس معاملہ کو ادارہ جاتی طور سے حل کیا جائے۔ البتہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے اسے پبلک پلیٹ فارم پر لا کر خود ہی کسی قابل عمل ادارہ جاتی حل کے راستے مسدود کر دیے ہیں۔ یہ قیاس کرنا ممکن نہیں ہو گا کہ ان ججوں کو اپنے خط اور اسے عام کرنے کے مضمرات کا علم نہیں تھا۔ لیکن اب بہر حال تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ سپریم کورٹ کا 7 رکنی بنچ بدھ سے اس معاملہ پر سماعت شروع کرے گا۔ قیاس غالب ہے کہ تحریک انصاف کے وکلا اس موقع پر سیاسی دنگل برپا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔
یوں لگتا ہے کہ ملک میں خاص مقاصد کے لیے بعض اہداف حاصل کرنے کا آخری معرکہ اب سپریم کورٹ میں برپا ہونے والا ہے۔ عدالت عظمی کے جج حضرات کو ایک طرف عدلیہ کے وقار اور خود مختاری کی حفاظت کرنی ہے تو دوسری طرف یہ بھی یقینی بنانا ہے کہ کوئی سیاسی گروہ ججوں یا عدالتوں کو اپنی سیاسی مہم جوئی میں استعمال نہ کرسکے۔
(بشکریہ: کاروان ۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ