یوں تو زیادہ تر سیاسی سرگرمیاں ’گرے زون‘ میں ہوتی ہیں لیکن پاکستان میں سیاسی حوالے سے مقابلے بازی کی موجودہ فضا میں لگتا ہے کہ اس میں صرف سیاہ و سفید علاقہ باقی ہے۔ ایک طرف سیاسی گروہ بندی میں مواصلت و مفاہمت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں تو دوسری طرف ایسے تبصرے اور قیاس آرائیاں سننے میں آتی ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ عمران خان کے ساتھ صلح کرلی جائے۔ جن عناصر کو صلح کا مشورہ دیا جاتا ہے، انہوں نے اعلان جنگ کیا ہؤا ہے۔
البتہ اس جنگ میں یہ جاننا مشکل ہے کہ کون درست اور کون غلط ہے۔ سیاست اصولوں، معاشی و سماجی مسائل حل کرنے کی پالیسیوں، ملکی انتظام کی حکمت عملی اور اختلاف رائے کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے طے کرنے کا نام ہے۔ لیکن اس وقت کردار کشی، الزام تراشی، تصادم اور ایک دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کے لیے زور بیان صرف کرنے کا ماحول دیکھا جاسکتا ہے۔ چند ہفتے پہلے تک مسلم لیگ (ن) یا حکومت کی طرف سے تحریک انصاف سے بات چیت و مذاکرات کا نیم دلانہ اعلان کیا جاتا رہا ہے۔ البتہ دو روز پہلے سینیٹر عرفان صدیقی نے موجودہ حالات میں تحریک انصاف سے مواصلت کے ہر امکان کو مسترد کردیا ہے ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے بہت کوشش کرلی لیکن اب اس وقت تک بات نہیں ہوسکتی جب تک تحریک انصاف سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتی۔
دوسری طرف عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈر بھی کسی نہ کسی طرح مفاہمت کی بات کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ بات چیت کے لیے عمران خان کی رہائی اور اقتدار تک رسائی کی پیشگی شرائط عائد کی جاتی رہی ہیں لیکن ا س کے باوجود کسی نہ کسی صورت میں تحریک انصاف کا کوئی نہ کوئی لیڈر مذاکرات کا تذکرہ کرلیتا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ متعدد مقدمات میں گھیرے گئے عمران خان کو رہا کرانا اتنا آسان نہیں ہوگا اور انتخابات کے بعد ملک پر اکثریتی پارٹیوں کی حکومت کو ہٹا کر تحریک انصاف کو اقتدار تھما دینا بھی ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ مایوسی و بیزاری کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں تو جنگل کا قانون ہے۔ یعنی لاقانونیت کا راج ہے اور جس کا جو چاہے کرتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ برا بھلا جیسا بھی ہے کوئی نہ کوئی نظام کام کررہا ہے۔ یہ بہر حال مارشل لا یا کسی غیر آئینی انتظام سے بہتر ہے۔ اسی لیے جب فریقین کی طرف سے سخت شرائط کے ساتھ بات چیت کے امکان ظاہر کیا جاتا تھا تو اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ سیاسی لیڈر مذاکرات اور مفاہمت کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر شدید اختلافات رکھنے والے دو گروہ کسی صورت بات چیت کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہوجائیں تو یہ بجائے خود ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ اس کے بعد فریقین اپنی سخت شرائط میں نرمی کرکے کوئی درمیانی راستہ نکال سکتے ہیں۔
مذاکرات کے حوالے سے تحریک انصاف 8 فروری کے انتخابات کو صریحاً جعلی قرار دے کر ان کے نتائج ماننے سے انکار کرتی رہی ہے لیکن بات چیت کی صورت میں اسے اپنی اس پوزیشن میں کچھ نرمی پیدا کرنا پڑتی۔ جبکہ دوسری طرف حکومت اور حکمران جماعتیں سانحہ9 مئی کو بہت بڑا المیہ اور سازش قرار دے کر تحریک انصاف کے اہم لیڈروں کو سزائیں دلوانے کی بات کرتی رہی ہیں اور اس سے کم پر کسی صورت راضی نہ ہونے کا اعلان کیا جاتا رہا ہے۔ البتہ جب مذاکرات کی میز پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر بات ہوتی ہے تو مل بیٹھ کر بات کرنے پر متفق ہونے والا ہر فریق کچھ نہ کچھ رعایت دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ بصورت دیگر اسے مذاکرات میں آنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے اب دونوں طرف سے اس کم از کم امکان کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے اور ایک دوسرے پر تلوارین تان لی گئی ہیں۔
باہمی مذاکرات پر اصرار کرتے ہوئے اکثر تجزیہ نگار کسی متوازن اور قابل قبول حل کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔ یعنی حکومت کا بھرم بھی قائم رہے اور تحریک انصاف کا احتجاج بھی رجسٹر کرکے اسے کچھ رعایت دے دی جائے۔ اس حوالے سے ایک تجویز تو یہ موجود رہی ہے کہ اگر سیاسی فریق متفق ہوجائیں تو 2025 کا بجٹ پیش کرنے کے بعد مڈ ٹرم انتخابات پر اتفاق کرلیا جائے۔ اس وقت تک موجودہ سیٹ اپ کو سکون سے کام کرنے دیا جائے تاکہ ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز کا سامنا ہوسکے اور پاکستان کے جو دوست ممالک سیاسی بے یقینی کی وجہ سے مالی امداد یا سرمایہ کاری سے ہچکچا رہے ہیں، انہیں اطمینان دلوایا جاسکے۔ اور ملکی مالی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے پیش قدمی ہوجاسکے۔ اسی سے متوازی یہ تجویز بھی سامنے لائی گئی تھی کہ مڈ ٹرم انتخابات کی بجائے قومی حکومت قائم کردی جائے جس میں سب سیاسی پارٹیوں کے نمائیندے شامل ہوں یا اسے خالصتاً تکنیکی حکومت بنایا جائے یعنی صرف ماہرین پر مشتمل حکومت بنائی جائے اور دو تین سال معاشی حالات بہتر ہونے کے بعد مناسب وقت پر انتخابات کرواکے جیتنے والی پارٹی کو اقتدار سونپ دیا جائے۔
ان دونوں تجاویز میں کمزوریا ںموجود تھیں۔ تحریک انصاف موجودہ اسمبلی میں اکثریت کا دعویٰ رکھتی ہے اور اس کی سیاسی حکمت عملی میں تحمل یا صبر کا عنصر موجود نہیں ہے۔ اس لیے قیاس غالب ہے کہ تحریک انصاف نے اس قسم کی کسی تجویز کو قبول کرنے یا اس پر غور کرنے سے انکار کیا ہوگا۔ قومی حکومت بنانے کے بارے میں تجویز میں یہ قباحت ہے کہ ایک تو ملکی آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ دوسرے اگر سیاسی عناصر پر مشتمل حکومت بنائی جاتی تو تحریک انصاف کو اس میں شامل کرنے کے بارے میں موجودہ حکمران پارٹیوں اور اسٹبلشمنٹ میں شدید تحفظات موجود تھے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے بغیر کوئی حکومت کیوں کر قومی حکومت قرار پاتی؟ اگر ماہرین کی حکومت بنائی جاتی ہے تو بھی سب سیاسی عناصر کے اتفاق رائے کے بغیر ایسا اقدام ممکن نہیں ہوسکتا تھا ، ورنہ بحران کی کیفیت جاری رہتی۔
ابھی یہ دونوں تجاویز اور ان میں کسی ایک پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی خواہش رکھنے والے عناصراپنے اپنے طور پر ماحول بنانے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ پہلے آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی گرماگرم پریس کانفرنس، پھر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا سخت ’پالیسی ‘ بیان اور یوم آزادی سے ایک دن پہلے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی گرفتاری نے پورا منظر نامہ تبدیل کردیا۔ بظاہر تو یہ فوج کا اندرونی معاملہ ہے اور فیض حمید کو بدعنوانی اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں پر کورٹ مارشل کا سامنا ہے لیکن ماضی میں جنرل فیض حمید کی پوزیشن اور حیثیت کی وجہ سے اس گرفتاری کو براہ راست ملکی سیاسی حالات سے منسلک کیا جارہا ہے۔ اس گرفتاری کے بعد یوں لگتا ہے کہ مفاہمت کی باتیں یا کسی عبوری حکومتی انتظام کے ذریعے ملک میں سیاسی تصادم کی کیفیت ختم کرنے کی تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ یہ قیاس آرائی بھی کی جارہی ہے کہ فیض حمید کی گرفتاری سوچ سمجھ کر ہوئی ہے اور اب براہ راست عمران خان اور تحریک انصاف پر ’وار‘ ہوگا۔
اس سوچ کی تصدیق عمران خان نے فیض حمید کی گرفتاری پر اپنے متنوع بیانات میں خود ہی کررہے ہیں جس سے خوف و پریشانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آج ہی انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ فیض حمید کو ان کے خلاف گواہ بنا کر ان پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا کیوں کہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ ثابت نہیں ہوسکا۔ اب ان کے پاس یہی ایک راستہ بچا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا سارا ڈرامہ مجھے فوجی عدالت لے جانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سب کو معلوم ہے میرے خلاف باقی سارے کیس فارغ ہو چکے ہیں۔ یہ اس لیے مجھے اب ملٹری کورٹس کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید سے کچھ نہ کچھ اگلوانا چاہتے ہیں‘۔
اس قسم کی بیان بازی حفظ ماتقدم کے طور پر بھی کی جاسکتی ہے۔ تاکہ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوجائے تو عمران خان اور ان کے حامی کہہ سکیں کہ یہ باقاعدہ سازش کا نتیجہ ہے اور اس کی پہلے سے تیاری کی گئی تھی۔ ایسا ہی مؤقف سانحہ نو مئی کو ’فالس فلیگ آپریشن‘ کہہ کر بھی اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ ورنہ حقیقی صورت حال تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ابھی تک شہریوں کے مقدمے فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے فیصلے کی توثیق نہیں کی ہے۔ اور نہ ہی فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ سامنے آئی ہے جس سے اندازہ ہوسکے کہ انہیں کس حد تک سیاسی ’جرائم‘ کی سزا دی جائے گی۔ اس کے بعد ہی یہ واضح ہوسکے گا کہ عمران خان کی قانونی پوزیشن پر اس کا کیا اثر مرتب ہوگا۔ اس سے پہلے ہونے والی بیان بازی محض سیاسی ماحول کو مزید آلودہ کرے گی۔
البتہ اس گرفتاری کے تناظر میں پیدا ہونے والے ماحول میں سیاسی مفاہمت کے ہر امکان کا ختم ہونا خوش آئیند نہیں ہے۔ اس وقت ایک طرف تحریک انصاف یا تو خود کو مقبول مگر مظلوم اور زیر عتاب سیاسی پارٹی ثابت کرنے پر زور صرف کررہی ہے تو دوسری طرف فوجی قیادت اور حکومت مسلسل سراسیمگی اور خوف کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔ پر امن سیاسی احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی اور ایسا احتجاج کیا جائے تو اسے ملک دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یوٹیوبرز کو ہراساں کرنے کا طریقہ عروج پر ہے اور انٹرنیٹ پر کنٹرول کے نت نئے ہتھکنڈے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ بعض سیاسی تجزیہ نگار وں کے نزدیک عمران خان اور تحریک انصاف کے بغیر ملک میں بہتری کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف حکومت اور فوج تحریک انصاف کا ’نام و نشان مٹادینے‘ کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ تصادم میں شدت کی یہ صورت حال ملک میں خوف کی ایک عجیب صورت پیدا کررہی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کسے کس وقت اٹھا لیا جائے گا یا اس سے کیا تقاضہ کیا جائے گا۔
یہ سوچ لینا خام خیالی ہے کہ ملک کی حقیقی طاقت مطالبے یاشرائط مان لے گی۔ البتہ اگر تمام سیاسی عناصر ہوشمندی سے کام لیں اور مل جل کر ملک میں آئینی بالادستی قائم کروانے کے لیے کام کریں تو کسی نہ کسی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ البتہ اس کے لیے صرف تحریک انصاف ہی کو حقیقت پسندی سے کام نہیں لینا ہوگا بلکہ حکمران سیاسی عناصر کو بھی ماننا ہوگا کہ ان کی بھلائی فوج کے کاندھے پر بندوق رکھ کر سیاسی فائدہ اٹھانے میں نہیں ہے۔ سیاسی گروہ کے طور پر انہیں عوام میں واپس جانا ہے اور فوج بھی کسی سیاسی پارٹی کا اسی وقت تک ساتھ دے گی جب تک وہ اس کے مشن کی تکمیل میں معاون ہو۔ ورنہ ماضی میں نواز شریف بھی پوچھتے رہے تھے کہ ’مجھے کیوں نکالا‘۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )