کابینہ میں منظور ی کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ نے تمام سروسز کے سربراہان کے عہدوں کی مدت تین کی بجائے پانچ سال کرنے کا بل منظور کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر34 اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ تعداد 9 سے بڑھا کر 12 کردی گئی ہے۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اس قانون سازی پر احتجاج کیا ہے۔
بظاہر یہ تبدیلیاں چھبیسویں آئینی ترمیم کے تقاضے پورے کرنے، پالیسی کے تسلسل کو یقینی بنانے اور اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کی بھرمار کم کرنے کے نقطہ نظر سے کی گئی ہیں۔ لیکن ناقدین کا مؤقف ہے کہ پہلے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے چیف جسٹس اور ججوں کی تقرری پر سیاسی تسلط قائم کرنے کے بعد اب سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد دو گنا کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ موجودہ حکومت من پسند ججوں کو اعلیٰ عدالتوں میں بھرتی کرکے عدلیہ کی خود مختاری کو داؤ پر لگارہی ہے۔ البتہ وزیر قانون اعظم اعظم نذیر تارڑ کا ججوں کی تعداد میں اضافہ کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں سے ہی چھبیسویں ترمیم کے تحت آئینی بنچ قائم ہوگا۔ اسی لیے سپریم کورٹ میں زیادہ ججوں کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ اس کے علاوہ وکلا تنظیمیں بھی مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ پر مقدموں کی تعداد کا بوجھ کم کرنے کے لیے ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
یہ ممکن ہے کہ وزیر قانون کی کچھ باتیں واقعی حقیقت پسندانہ ہوں لیکن حکومت کی پراسرار عجلت اور عدلیہ پر سیاسی کنٹرول کے لیے یکے بعد دیگرے ہونے والے اقدامات کی روشنی میں شبہات پیدا ہونا لازمی ہے۔ تادم تحریر وکلا کی کسی تنظیم کی طرف سے تو کوئی اختلافی بیان سامنے نہیں آیا تھا تاہم متعدد وکیلوں نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے، عدلیہ کی خود مختاری کے حوالے سے تشویش و پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی کا کہنا ہے کہ ’ان بلوں کی منظور سے ملک کو جمہوریہ سے بادشاہت میں تبدیل کردیا گیا ہے‘۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ نئی قانون سازی سے ملک میں کس حد تک جمہوری ادارے کمزور ہوئے ہیں اور کہاں تک بادشاہت کا راستہ ہموار کیا گیا ہے لیکن ان ترامیم کے بعد البتہ یہ طے ہوگیا ہے کہ حکومت نے ’اپنا اپنا جنرل ، اپنا اپنا جج‘ کے اصول کو نافذ کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔
حیرت انگیز طور پر موجودہ حکومت عدلیہ میں تبدیلیوں یا ججوں کی نامزدگی پر سیاسی دسترس حاصل کرنے کے علاوہ سروسز یعنی پاک فوج، ائیرفورس اور بحریہ کے سربراہان کے عہدوں کی مدت تین سے پانچ سال کرتے ہوئے ماضی میں فوج کے ساتھ ہونے والی مناقشت کو پوری طرح بھول چکی ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ حکومت نے سروسز کے سربراہوں کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے محض قانون سازی کی حد تک ائیرچیف اور بحریہ کے سربراہ کو بھی شامل کیا ہے کیوں کہ قانونی اور عملی طور سے مسلح افواج کے تینوں شعبوں کے سربراہ یکساں رتبے کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن حکومت درحقیقت آرمی چیف کے عہدے پر اپنا ’کنٹرول‘ راسخ کرنا چاہتی تھی کیوں کہ اسی عہدے کے ذریعے اس سیاسی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے جسے شہباز شریف کی سرکردگی میں شروع کیا گیا ہے اور جسے پاک فوج کی مکمل اعانت و سرپرستی حاصل ہے۔
ملک میں جو نیا سیاسی تجربہ کیا جارہا ہے وہ سابقہ دور میں ہونے والے تجربہ سے مختلف نہیں ہے جس کے تحت ملک کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاست سے نکال باہر کرنے اور عمران خان کی قیادت میں نئی سیاسی لیڈر شپ کو ملک میں معاملات کا ذمہ دار بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ یہ منصوبہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں شروع ہؤا اور عمران خان کی سرپرستی اور پھر ان کے زوال کا سبب بننے کی شہرت پانے والے جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے دور تک جاری رہا۔ اسے منصوبہ کی ناکامی کہا جائے یا حالات کی ستم ظریفی کہ جنرل باجوہ نے عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے تمام قانونی و اخلاقی حدود عبور کی تھیں۔ بعد میں انہیں خود ہی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کا پراجیکٹ مکمل کرنا پڑا۔ پہلے مرحلے میں عمران خان کونواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف استعمال کیا گیا اور پھر معیشت بچانے کے نام پر ایک نئی تبدیلی کے لیے نواز شریف اور آصف زرداری کا کاندھا عمران خان کے زوال کے لیے استعمال کیا گیا۔
عمران خان کو اقتدار میں لانے اور اس دور میں اپوزیشن کو دبانے اور تحریک انصاف کو فری ہینڈ دے کر ملک کو نئی منازل کی طرف گامزن کرانے کے لیے شروع کیے منصوبے کو عام طور سے ہائیبرڈ نظام کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی دور میں سیاسی تنقید کو مسترد کرنے اور عمران خان کی حکومت کو سپیس دینے کے لیے ففتھ جنریشن وار جیسی بے معنی اور غیر ضروری اصطلاحات پاکستانی حافظے پر مسلط کرائی گئیں۔ اگر شہباز شریف کی قیادت میں جاری موجودہ نئے تجربے کو ماضی قریب کے حالات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی جائے تو بلامبالغہ اسے ہائیبرڈ دوئم یا ہائیبرڈ ثانی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ مقصد ایک ہی ہے لیکن ہیرو اور ولن تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے ملکی مباحث میں گرمئی گفتار سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کیسے درپردہ طے کیے جانے والے معاملات عام لوگوں کے جذبات اور سوچ کے انداز کو متاثر کرتے ہیں۔
سادہ و عام فہم الفاظ میں اس صورت حال کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ پاک فوج کی قیادت نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اقتدار میں ’باریاں لینے‘ کے مقابلے سے تنگ آکر نیا سیاسی منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبہ کے تحت ریاست کے سب اداروں کو ایک طویل مدت تک ایک خاص طرح کی سوچ ومزاج کے تحت چلانا مطلوب تھا۔ اسی لیے پاک فوج میں ترقیوں اور نتیجتاً سربراہان کی تقرریوں کا خاکہ تیار ہؤا ۔ اور اسی کے تحت سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں ’آزاد‘ ہونے والی عدلیہ کو اس منصوبے کا پشتی بان بنانے کا پروگرام بنایا گیا یعنی خاص مزاج کے ججوں کو عدلیہ میں لایا گیا اور ایک ایسا انتظام کیا گیا کہ مستقبل میں عدالت عظمی ٰ کی سربراہی سنبھالنے والے ججوں کے ناموں تک کا تعین ہوگیا۔ بدقسمتی سے عدلیہ بحالی تحریک کے بعد عدالتی انتظام سنبھالنے والے جسٹس افتخار چوہدری کی خود مختاری کسی قانون و آئین یا ضابطے کی پابند نہیں تھی۔ بلکہ ججوں نے قانون و آئین کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے کا طریقہ اختیار کرلیا تھا۔ یہ طریقہ ایک خاص مزاج کو فروغ دینے اور خاص طرح کے سیاسی نتائج حاصل کرنے کے لیے سود مند تھا ۔ لہذا یہ سلسلہ صرف یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے برطرف کرنے تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ نواز شریف کو گھر بھیجنے اور پھر عمران خان کو ’صادق و امین‘ قرار دینے تک دراز ہؤا۔
البتہ ملک و قوم کے محافظوں نے وسیع تر مفاد کے لیے جو منصوبہ تیار کیا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے جو انتظامات کیے تھے، وہ بوجوہ کامیاب نہ ہوسکے۔ فوج کو اسی لیڈر سے اندیشے لاحق ہوگئے جسے بڑی امیدوں کے ساتھ قوم کا پالن ہار ثابت کیا گیا تھا ۔ عمران خان کو عروج دلانے کے بعد اقتدار سے دور کرنے کا منصوبہ بھی کوئی خاص خوشگوار نہیں رہا۔ اس کے نتائج اپریل 2022 کے بعد سے پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ خیال تھا کہ اس سال فروری میں ہونے والے انتخابات میں ’کامیاب‘ ہونے والی سیاسی پارٹی خود ہی سارے معاملات سنبھال لے گی لیکن اسے فارم 47 والی حکومت کی شہرت حاصل ہوگئی اور اس کا اعتبار قائم نہیں ہوسکا۔ دوسری طرف ہایئبرڈ اولیٰ کے تحفظ کے لیے پرعزم ججوں نے ہائیبرڈ ثانی کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے میں دشواری محسوس کی۔ اگر حالات و واقعات کی اس گنجلک گتھی کو سمجھ لیا جائے تو 26 ویں آئینی ترمیم اور آج منظور ہونے والے 6 قانونی بلوں کا اسرار فاش ہوسکتا ہے۔
حیرت البتہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ ہائیبرڈ ثانی میں وہی عناصر دست و بازو بنے ہوئے ہیں جو ہائیبرڈ اول کو ملک و قوم کے لیے مہلک اور جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دے کر عوام کے حق حکمرانی اور ووٹ کو عزت دو کے لیے مہم جوئی کرتے رہے تھے۔ ان نعروں کا ایک خالق اب حقیقی ’گاڈ فادر‘ بن کر قومی و بین الاقوامی طور پر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی تگ و دو کررہا ہے ۔ اور ان نعروں کا بلند بانگ پرچار کرنے والی مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے طور پر ’کارکردگی‘ دکھا کر ملک کی آئیندہ وزیر اعظم بننے کے لیے ’کوالی فائی‘ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ کچھ ایسی ہی کوشش بلاول بھٹو زرداری بھی کررہے ہیں جنہیں ملک کا وزیر اعظم دیکھنا آصف زرداری کا دیرینہ خواب ہے اور وہ اس خواب کی تکمیل کے لیے کسی بھی جوڑ توڑ پر راضی ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے بلاول کی پرجوش وکالت ودوڑ دھوپ اور نئی قانون سازی میں کسی سقم کی نشاندہی کی بجائے، خاموشی سے اسے منظور کرانے میں ادا کیا جانے والا کردار ، اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے والد کی خواہش پوری کرنے کے لیے اسی راستے کو منتخب کرچکے ہیں جس کی طرف سینئر زرداری نے اشارہ کیاہے۔
شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری پورے جوش و خروش سے ایک ایسا قانونی جال تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو تحریک انصاف کو پھانس سکے اور عمران خان کا سیاسی راستہ مسدود کرسکے۔ البتہ وہ یہ سمجھنے پر آمادہ نہیں ہیں کہ جو قوت آج ان کی دسترس میں ہے، وہ کل کلاں کسی دوسرے کی طرف راغب ہوسکتی ہے۔ عمران خان اس سانحہ کا تازہ ترین شکار ہیں۔ اس سے پہلے نواز شریف اسی انجام سے دو چار ہوچکے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شہباز یا بلاول بھٹو پرانے ہتھکنڈوں سے ’پارلیمنٹ‘ کو طاقت ور بنالیں اور عسکری قیادت کے محتاج نہ رہیں؟
اپنا اپنا جنرل اور اپنا اپنا جج کا نعرہ سہانا ہوسکتا ہے لیکن جیب میں پڑے سکے کھوٹے ہوجائیں تو نعرے و خواہشات قدر و قیمت کھو دیتی ہیں۔ کیا عجب جو ترامیم دوسروں کو پھنسانے کے لیے متعارف کرائی جارہی ہیں ، کل کلاں حالات پلٹنے سے وہ خود اپنے ہی پاؤں کی زنجیر بن جائیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ