پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی ختم کرکے 2003 میں ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق سیز فائر کرنے پر اتفاق رائے ہؤا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی اور شک و شبہ کی فضا میں یہ ایک اچھی خبر ہے کیوں کہ ذمہ دار اقوام کے طور پر بھارت اور پاکستان کو یکساں طور سے سمجھنا پڑے گا کہ دونوں کے پاس امن کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور دونوں طرف ہوش کی بجائے جوش سے کام لینے والے لیڈروں اور دھمکی آمیز لہجے میں بات کرنے والے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ ایسے ہی کسی ہیجان خیز لمحے میں کوئی معمولی سی چنگاری بھی بڑے فساد کی وجہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2014 میں نئی دہلی میں نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا مزید خراب ہوئی ہے۔ اس کی وجہ مودی سرکار کی بد عہدی اور بار بار جامع مذاکرات شروع کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد اس سے انحراف کرنے کا رویہ رہا ہے۔
اس دوران مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی تحریک میں بھی تیزی آئی ہے۔ بھارت ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں تمام عالمی اصولوں اور معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے اور تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کا غیر ضروری استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر محاذ گرم کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان دراصل دہشت گرد مقبوضہ علاقے میں روانہ کرتا ہے جس کی وجہ سے وہاں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح بھارتی حکومت اپنے تئیں ایک تیر سے دو شکار کرنے کی پالیسی پر گامزن رہی ہے۔ یعنی ایک طرف کشمیری عوام کی تحریک کو دبانے کے لئے بدترین تشدد کیا جائے اور دوسری طرف پاکستان کو عالمی سطح پر بد نام کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈا کیاجائے کہ پاکستان دراصل دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا ہے جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر سمیت تمام خطے میں امن قائم ہونا مشکل ہو چکا ہے۔
اب دونوں ملکوں کے کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا اور لیفٹیننٹ جنرل انیل چوہان نے ہاٹ لائن پر بات کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر مکمل سیز فائر کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا ہے اور دونوں ملکوں کی افواج کی طرف سے اس کا باقاعدہ اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ پاکستان تو پہلے دن سے لائن آف کنٹرول اور دیگر متنازع سرحدوں پر سیز فائر کرنے اور امن کے ماحول میں بات چیت کو آگے بڑھانے کی بات کرتا رہا ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور پاکستان پر الزام تراشی کی وجہ سے ایک دوسرے پر گولہ باری کا سلسلہ تسلسل سے جاری رہا تھا۔ صرف 2017 اور 2018 کے دوران بھارت کی طرف سے تین ہزار سے زائد پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔ اور ان میں پاکستانی فوجیوں سمیت ایک سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ شہری آبادیوں کو مسلسل غیر یقینی اور جنگ کی کیفیت میں زندگی گزارنا پڑا۔ پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی میں بھارت کی فوج اور شہریوں کو بھی جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اب جنگ بندی پر اتفاق رائے سے دراصل پاکستان کے اس مؤقف کی تائید ہوئی ہے کہ دونوں ملکوں کو آپس میں جنگ کرنے اور ایک دوسرے کو تباہ کردینے کی دھمکیاں دینے کی بجائے مل جل کر مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے تواتر سے اس مؤقف کو نہ صرف پیش کیا ہے بلکہ عملی طور پر دست تعاون بڑھا کر اس خیر سگالی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں دو برس قبل جب برہان وانی کی شہادت کے بعد حالات بھارتی حکومت کے ہاتھ سے باہر نکل چکے تھے اور حریت کے لیڈروں نے بھارتی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے صاف انکار کردیا تھا تب بھی پاکستان نے بھارت کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ ایسے مذاکرات کے لئے بھی آمادہ ہے جس میں صرف کشمیر کا معاملہ ایجنڈے پر ہو۔ اس پیشکش کا مقصد بھارتی حکومت کی مشکلات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ایک بحران سے نکلنے کے لئے اسے مدد فراہم کرنا تھا تاکہ اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کا ماحول پیدا ہو جس میں ایک دوسرے کا مؤقف سننے اور مل جل کر مسائل کا حل تلاش کرنے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔
بھارت نے پاکستان کی اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے نہایت گھمنڈ سے ایک طرف پاکستان کے سفارتی بائیکاٹ کے لئے عالمی کوششوں کا آغاز کیا بلکہ تو دوسری طرف پاکستانی علاقے میں سرجیکل آپریشن کا شوشا چھوڑ کر پاکستان کو اشتعال دلانے اور حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ۔ حالانکہ اس سے پہلے جنوری 2016 میں پٹھان کوٹ ائیر بیس پر دہشت گرد حملہ کے بعد پاکستان نے بھارت کی تشفی کے لئے جیش محمد کے خلاف غیر روایتی کارروائی کی تھی اور اس کے دفاتر بند کرنے کے علاوہ اس کے اکثر لیڈروں کو گرفتار کرلیا تھا۔ لیکن بھارت نے اس قسم کے اقدامات کو پاکستان کی کمزوری سمجھنے کی غلطی کرتے ہوئے یہ باور کیا کہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور اس کی سفارتی کوششوں کو مسترد کرکے پاکستان کو کشمیر اور دیگر معاملات پر جھکنے پر مجبور کیا جاسکے گا۔
اس کے علاوہ اس قسم کی جارحانہ حکمت عملی کی ایک وجہ سی پیک منصوبہ بھی ہے جو چین کے ون روڈ ون بیلٹ عالمی معاشی اور مواصلاتی منصوبہ کا حصہ ہے۔ اس منصوبہ سے صرف پاکستان کو ہی معاشی طور سے آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملے گا بلکہ بھارت سمیت علاقے کے دوسرے ملک بھی اس عظیم معاشی منصوبہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس طرح تجارت اور معاشی تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی اور پرانے تنازعات اور دشمنیاں بھلائی جا سکیں گی۔ تاہم بھارت میں نریندر مودی کی حکومت اس زعم میں مبتلا رہی ہے کہ وہ امریکہ کی چین کے خلاف اقتصادی اور سیاسی اسٹریجک لڑائی میں فریق بن کر ایک طرف چین کے معاشی منصوبوں کو روکنے میں کامیاب ہو سکتی ہے تو دوسری طرف سی پیک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے پاکستان کی ترقی اور معاشی بحالی کے کام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
بھارت کے انتہا پسند ہندو قوم پرست سیاست دان اس غلط فہمی کا شکار رہے ہیں کہ کہ پاکستان کو کمزور کرکے وہ بھارت کو مضبوط اور سرخرو کرسکتے ہیں۔ یہ سوچ دقیانوسی اور ایک ایسے دور سے تعلق رکھتی ہے جب لوگ گھوڑوں اور گدھوں پر سفر کیا کرتے تھے اور جنگوں کا فیصلہ میدان میں تلوار کے زور پر ذاتی شجاعت کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ اب دشمن کو کمزور کرکے خود اپنے لئے مشکلات کو دعوت دی جاتی ہے۔ بحران کا شکار کوئی بھی ملک کسی بھی ہمسایہ کے لئے مشکلات اور خطرات کا سبب بن سکتا ہے کیوں کہ اب جنگیں حملہ کرکے کسی علاقے پر قبضہ کرنے کا نام نہیں رہا۔ بلکہ کسی بھی جنگ میں طاقت کے توازن سے قطع نظر زیادہ ترقی یافتہ اور وسائل سے بہرہ ور ملک کو نقصان کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان جیسے چھوٹے اور دور دراز ملک کے بحران کو عالمی امن اور خطے کے لئے مسئلہ سمجھا جارہا ہے اور امریکہ جیسی سپر پاور کا متکبر صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شمالی کوریا جیسے چھوٹے مگر جوہری صلاحیت سے لیس ملک کے ساتھ مذاکرات کرکے معاملات نمٹانے پر مجبور ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کنونشنل عسکری قوت میں واضح عدم توازن موجود ہے۔ پاکستان کی فوج کم ہے، اس کے ہتھیار پرانے اور محدود ہیں اور وہ دہشت گردی اور افغانستان کے حالات کی وجہ سے مسلسل حالت جنگ میں ہے۔ جس کی وجہ سے پاک فوج کو بھارتی محاذ کے علاوہ ملک کے اندر اور قبائلی علاقوں میں عسکری گروہوں کا مقابلہ درپیش رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے افغانستان میں امریکی تعاون سے گزشتہ دس برس کے دوران اپنے پاؤں جمائے ہیں اور افغانستان کو اقتصادی امداد فراہم کرتے ہوئے وہاں پاکستان کے خلاف مزاج سازی میں صلاحیتیں اور وسائل صرف کئے ہیں۔ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریب کاری کے منصوبوں پر بھی کام کرتا رہا ہے۔ مارچ 2016 میں بلوچستان سے کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ان پاکستان دشمن سرگرمیوں کا واضح ثبوت ہے۔
بلوچستان میں مسلح جد و جہد میں مصروف عسکری عناصر کی عملی، مالی اور سفارتی مدد کرکے بھات نے پاک فوج کی مشکلات میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ ان مشکلات اور طاقت کے عدم توازن کے باوجود بھارت سمیت دنیا بھر کے عسکری ماہرین اس بات سے باخبر ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی صورت میں بھارت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا کیوں کہ وہ معاشی ترقی میں پاکستان سے کوسوں آگے ہے اور جنگ کی صورت میں عالمی سرمایہ کاری اور اعتماد کو جو نقصان پہنچے گا اس کی بھارت کو زیادہ بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کی قیادت میں جذباتی اور عاقبت نااندیش عناصر کی موجودگی کے سبب ایٹمی ہتھیاروں کے غیر متوقع استعمال کا امکان بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں صرف برصغیر ہی تباہی کا شکار نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا کا امن متاثر ہو گا۔
پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کے خاتمہ اور نگران حکومت کے قیام سے پہلے بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ سیز فائر کا اعلان اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ نئی دہلی پاکستان میں قائم ہونے والی سیاسی حکومت کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا۔ اس کا خیال ہے کہ براہ راست فوج کے ساتھ مذاکرات سے ہی کسی ٹھوس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے۔ جنگ بندی پر عمل کرنے کی خبر کا یہ پس منظر پاکستان کے ماہرین اور سیاست دانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ اس لحاظ سے بھارت کی طرف سے امن کی طرف پیش رفت کی ٹائمنگ قابل غور ہے۔ یہ رویہ اس لحاظ سے افسوسناک بھی ہے کہ بھارت جمہوری ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں جمہوری عمل کی حوصلہ افزائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سیز فائر معاہدہ کو بحال کرنے کی دوسری اہم ترین وجہ بھارت کے سرمایہ داروں کی بڑھتی ہوئی بے چینی ہے جو پاکستان کے ساتھ بھارت کے مسلسل تنازعہ کی وجہ سے ترقی کی رفتار اور معاشی غیر یقینی کی صورت حال سے پریشان ہیں۔ نریندر مودی نے 2014 میں بھارت کے سرمایہ داروں کی مدد سے ہی انتخابات جیتے تھے۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے قوم پرستی، ہندو انتہا پسندی اور پاکستان مخالف ماحول میں شدت پیدا کرکے سرمایہ داروں کو مایوس کیا ہے۔ اب بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی 2019 کے انتخابات کی تیاری کررہے ہیں۔ اس لئے انہیں اس بات کا احساس ہے کہ پاکستان کے ساتھ ماحول کو بہتر بنائے بغیر انہیں انتخابات میں ایک باثر گروہ کی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا۔
نئی دہلی کے تبدیلی قلب کی کوئی بھی وجہ ہو تاہم ایٹمی صلاحیت کے حامل دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی نافذ کرنے کی پیش رفت نہایت مشکل حالات میں ایک اچھی خبر ہے۔ یہ چھوٹا سا پہلا قدم ہے اور مکمل امن اور مسائل حل کرنے کے لئے کافی نہیں ہو سکتا ۔لیکن یہ چھوٹا سا قدم دونوں ملکوں کی قیادت کی دور اندیشی کے سبب کسی ٹھوس اور قابل عمل امن معاہدے کی بنیاد ضرور بن سکتا ہے۔(بشکریہ:کاروان ۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ