انتخابات کے سال میں جمہوریت کے بارے میں مباحث بھی عروج پر ہیں۔ اس طرز حکومت کی وضاحت کرنے کے لئے بعض لیڈر برطانیہ جیسے جمہوری ملک کی مثالیں سامنے لاتے ہیں اور خود اس کے لیڈروں سے برعکس زندگی گزارنا معیوب خیال نہیں کرتے۔ سب سیاسی لیڈر جمہوریت کو زینہ بنا کر ملک کا اقتدار سنبھالنے کا خواب بھی دیکھتے ہیں اور اس کوشش و خواہش میں اپنے حامیوں کو بھی ایسے خواب دکھاتے ہیں جن کی تکمیل کی کوئی حقیقی وجہ موجود نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ملک میں روزگار کے وافر مواقع پیدا کرنے کا دعویٰ، ضروریات زندگی کو ارزاں کرنا اور بد عنوانی ختم کرکے ملک میں سب کے لئے مساوی بنیادوں پر انصاف فراہم کرنا۔ معیاری تعلیم کی دستیابی چونک ہر کس و ناکس کا مسئلہ ہے لہذا انتخابی سال میں ہر سیاسی پارٹی اس بارے میں بھی بلند بانگ دعوے کرتی دکھائی دے گی کہ اسے اقتدار مل گیا تو وہ پرائیویٹ اسکولوں سے یا تو جان چھڑا دے گی یا سرکاری اسکولوں کا ایسا متبادل نظام فراہم کیا جائے گاکہ غریب ترین لوگ بھی اپنے بچوں کو عمدہ تعلیم دلوا سکیں گے۔ تاہم ایسے دعوے کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کرلی جاتی ہے کہ ملک میں ان بچوں کا ذکر کرنے سے گریز کیا جائے جنہیں اسکول جانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اسی لئے پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں بچوں کی بہت بڑی تعداد بنیادی تعلیمی سہولتوں سے محروم رہتی ہے بلکہ سماجی عدام توازن کی وجہ سے ان کی بڑی تعداد چائلڈ لیبر کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہے لیکن سیاست دان سیاسی بیان بازی کرتے ہوئے ان لکھوکھ ہا بچوں یا اس سنگین مسئلہ کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔
اسی طرح جمہوریت، انتخابات اور عوام کی تکون میں صحت کا معاملہ بھی سر فہرست ہوتا ہے۔ اگر سیاست دانوں کی باتوں پر یقین کرلیا جائے تو یوں لگے گا کہ بس انتخاب منعقد ہونے اور اس پارٹی کے برسر اقتدار آنے کی دیر ہے، ملک میں اعلیٰ سہولیات سے لیس اسپتالوں کا جال بچھا دیا جائے گا اور ایسی اعلیٰ طبی سہولتیں ملک کے اندر ہی دستیاب ہو جائیں گی کہ نہ تو کوئی بیماری سے ہلاک ہو گا اور نہ ہی علاج کے لئے جائیداد فرخت کرکے یا قرضہ اٹھا کر اپنے کسی عزیز کا علاج کروانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسی طرح زندگی کے دیگر شعبوں سے متعلق متعدد ایسے مسائل ہیں جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں عام طور سے درپیش ہوتے ہیں۔ سیاست دان انتخاب جیتنے کی دھن میں ان سب معاملات پر لوگوں کو سہانے خواب دکھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ملک کے عوام بھی چونکہ اس قسم کی پرفریب باتوں کی حقیقت جان چکے ہیں اس لئے وہ بھی ان باتوں کو سنتے ضرور ہیں لیکن ووٹ اسے ہی دیتے ہیں جس شخص کو وہ جانتے ہیں اور جو رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد اپنے اثر و رسوخ سے ان کے جائز یا ناجائز کام کروا سکے گا۔
عام لوگوں کی بیشتر ضرورتوں کو چونکہ آؤٹ آف میرٹ اقدام کرتے ہوئے ہی پورا کیا جاسکتا ہے اس لئے ووٹ مانگنے اور دینے والے کے درمیان مقامی سطح پر انتخاب کے حوالے سے ہونے والے مکالمہ میں میرٹ کا کوئی ذکر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سیاسی ایجنڈا کا حوالہ دیا جاتا ہےجو متعلقہ پارٹیوں نے خانہ پری کے لئے ایک کتابی صورت میں جاری کیا ہوتا ہے۔ اس سطح پر ہی دراصل جمہوریت کا عملی روپ دیکھنے میں ملتا ہے یعنی اسمبلی میں جانے کے خواہش مند ان لوگوں سے براہ راست لین دین کرتے ہیں جن کے ووٹ لے کر وہ اس خواب کو پورا کرسکتے ہیں۔
اس لین دین میں نہ ملکی مسائل کا ذکر ہوتا ہے، نہ ان بلند بانگ سیاسی اصلاحات کا حوالہ دیکھنے کو ملتا ہے بلکہ امید وار اپنے خاندان کی حیثیت اور پارٹی میں اپنے اثر و رسوخ کا حوالہ دیتے ہوئے علاقے کی برداریوں اور قابل ذکر لوگوں کو یہ یقین دلوانے کی کوشش کرتا ہے کہ اول تو اس کی پارٹی کے بر سراقتدار آنے کا بہت امکان ہے اور جوں ہی پارٹی برسر اقتدار آئے گی اور وہ اسمبلی کے راستے سے ہوتا ہؤا کسی حکومتی عہدے پر مامور ہؤا تو وہ اپنے علاقے کے نوجوانوں کو آؤٹ آف میرٹ یعنی سفارش اور رسوخ کے زور پر ملازمتیں بھی لے کر دے گا، علاقے میں ترقیاتی کام بھی کروائے گا اور اگر حلقے کے کسی فرد کو پولیس، کسی سرکاری محکمہ یا عدالتوں سے کوئی مسئلہ ہو گا تو اس شخص کے منتخب ہونے کی صورت میں انہیں اس قسم کی درد سری سے نجات بھی مل جائے گی۔ ایسے امیدوار کی کامیابی کی صورت میں اس کے حامیوں کے وارے نیارے اور مخالف یا حکومت میں شامل ہونے سے رہ جانے والے امید وار کے حامیوں کو آئندہ پانچ برس مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ کامیاب ہونے والا تو مقامی سیاست کے میکینزم کی بنیاد پر صرف انہی لوگوں، خاندانوں اور برادریوں کے کام آئے گا جنہوں نے اسے جتوانے میں مدد فراہم کی ہوتی ہے اور جو آئیندہ بھی اس انتخابی عمل میں اس کے لئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت کے اسی مزاج اور طریقہ کار کی وجہ سے ملک میں الیکٹ ایبلز کی قدر و قیمت اور مانگ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے امیدوار جو ہوا کا رخ دیکھ کر سیاسی وفاداریوں کا تعین کرتے ہیں یا کسی پارٹی سے نکلنے اور اس میں شامل ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں، عرف عام میں لوٹے بھی کہلاتے ہیں۔ لیکن سماجی لحاظ سے اس طعن آمیز اصطلاح کے باوجود سیاسی نظام میں مؤثر رہنے والوں کو اس قسم کی فقرے بازی سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور انتخابات کا موسم قریب آتے ہی ان کی بلند پروازی شروع ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ ’پسندیدہ‘ پارٹی میں شامل ہوکر ہی وہ کامیاب ہو سکتے ہیں اور اس کامیابی کے لئے درست پارٹی کے علاوہ منتخب ہونے کی صورت میں اقتدار سے قریب رہنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس لئے لوگ بھی ایسے امید واروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں جو جیت کر قوم کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کروا سکتے ہیں۔سیاست اور جمہوریت کے جو مباحث ٹی وی ٹاک شوز، اخباری کالموں اور مضامین میں دکھائی دیتے ہیں، ان کا اس حد تک تو زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہو تا کہ حلقوں میں لوگ صرف انہی امید واروں کی طرف رجوع کرتے ہیں جنہوں نے ماضی میں ان کی مدد کی ہوتی ہے اور جو آئیندہ بھی ہر قیمت پر اپنے حلقے کے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے یعنی ملک کے مسلمہ طریقہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے حامیوں کی مقدور بھر خدمت کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ اس حقیقت حال کو تبدیل کئے بغیر ملک میں جمہوریت کا وہ ماحول پیدا کرنا ممکن نہیں ہے جس کے تحت ایسا نظام قائم ہو سکے جہاں لیڈر کو عوامی احتساب سے گزرنے کا خوف ہو اور سیاسی پارٹیوں کو اس بات کی فکر ہو کہ اگر انہوں نے اپنے منشور کے مطابق قومی معیشت یا نظام کو درست کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی تو وہ آئیندہ انتخاب میں لوگوں کو منہ دکھانے اور ووٹ مانگنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس حد تک ملک میں جاری انتخابی نظام اور اس میں منتخب ہونے والے نمائیندے دراصل نیم جمہوری کلچر کی نمائیندگی کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ منتخب تو لوگوں کے ووٹوں سے ہوتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد کوئی سیاسی ایجنڈا ان کے پیش نظر نہیں ہوتا بلکہ وہ ان وعدوؤں کو پورا کرنے کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتے ہیں جو انہوں نے اپنے حلقے کے عوام سے کئے ہوتے ہیں۔
اسی طرح سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ وہ ا نتخاب جیت کر کیوں کر اپنے سیاسی منشور پر عمل کریں گے بلکہ یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ وہ ان الیکٹ ایبلز یا فصلی بٹیروں نما ارکان اسمبلی کو خوش رکھ سکیں جن کی بنیاد پر کوئی پارٹی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرتی ہے یا سیاسی فائدے کے لئے بارگیننگ پوزیشن میں آتی ہے۔ یہ بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ حکومت سازی کے عمل میں چھوٹی پارٹیاں ترقیاتی فنڈز اور وزارتوں میں حصہ پر لین دین کرتی ہیں تاکہ وہ زیادہ قوت حاصل کرکے اپنے اپنے حلقہ اثر کو مطمئن کرنے کے اقدامات کرسکیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جو طریقہ کار ایک امید وار اور اس کے ووٹروں کے درمیان حلقہ کی بنیاد پر اختیار کیا جاتا ہے وہی طریقہ اسمبلیوں کے منتخب ارکان اور ان کی پارٹیوں یا اقتدار کی بساط پر حصہ لینے والے دوسرے گروہوں کے ساتھ لین دین میں اختیار ہوتا ہے۔ اس سارے عمل میں اصول، قومی مسائل یا سیاسی ایجنڈا سیاسی معاہدوں کی بنیاد نہیں بنتا۔ نہ ہی میرٹ یا صلاحیت اور مساوی سلوک کا اصول کسی کے پیش نظر ہوتا ہے۔ کیوں کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر ایک ایسا نظام مروج کرلیا گیا ہے جو صرف انفرادی یا گروہی مفادات کی بنیاد پر استوار ہے۔ اس میں اصول اور میرٹ کی گنجائش نہیں رہتی۔
جمہوری تفہیم کی اسی خرابی یا اس پر عمل کرتے ہوئے اختیار کی گئی کج روی کے سبب ہی سیاسی لیڈروں کو نعرے لگاتے ہوئے یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے وسائل کیسے فراہم کریں گے۔ ملک کو کسی ترقی یافتہ ملک کی سطح پر لانے کے لئے ٹیکس لئے اور آمدنی میں اضافہ کئے بغیر وہ معاشی اور سماجی اصلاحات کیسے متعارف کروا سکیں گے۔ کیوں کہ نعرہ لگانے والوں کو ہ وعدے پورا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ نعرے تقریروں کو خوشنما بنانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ نہ کوئی ان پر یقین کرتا ہے اور نہ کوئی یہ توقع کرتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی جو وعدے کررہی ہے، انہیں پورا کرنے کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ کیوں کہ مطمح نظر جمہوریت کا نفاذ، نظام کی اصلاح اور مساوات کا حصول نہیں ہوتا بلکہ اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ملک کے اکثر ووٹر بھی اس صورت حال سے اپنے اپنے حلقے میں سودے بازی کرتے ہوئے سمجھوتہ کرچکے ہوتے ہیں، لہذا ان کی طرف سے بھی نہ قومی سطح پر احیا کے لئے امیدیں قائم کی جاتی ہیں اور نہ ان کے پورا ہونے پر کسی پارٹی یا لیڈر کو سزا ملنے کا امکان ہوتا ہے۔ یہ سارا نظام کسی قومی پراجیکٹ کی تکمیل کی بجائے مختلف سطح پر ذاتی مفادات کے دائروں میں گھومتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب جمہوریت کو استعمال کرتے ہوئے مرضی ٹھونسنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسے مسترد کرنے والا طبقہ نہایت محدود اور بے بس دکھائی دیتا ہے۔ 2018پاکستان میں انتخابات کا سال ہے اور عوامی حکمرانی کی باتیں زبان زد عام ہیں لیکن سیاست کے پارکھ اور تجزیہ نگار یہ سنہری اصول سامنے لاتے ہیں کہ وہی سیاست دان کامیاب ہو ں گے جو ملک کے طاقتور اداروں کو قابل قبول ہوں گے۔ اسی لئے سیاسی جماعتیں اور لیڈر اپنے اپنے طور پر اسی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب ووٹر سے لے کر ارکان اسمبلی، سیاسی پارٹیوں اور قومی لیڈروں کی سوچ مفادات کی لڑی کی صورت اختیار کرچکی ہو تو اس معاشرے میں جمہوریت کی بات کرنا واقعی بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔
(بشکریہ: کاروان ۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ