اگرچہ انتخابات سے چند روز قبل سیاسی ہیجان اور سنسنی خیزی میں اضافہ فطری امر ہے لیکن اس بار ماحول میں تصادم کی شدید کیفیت پیدا کرنے میں عمران خان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہیں اس وقت ملک کا آئندہ وزیر اعظم سمجھا جارہا ہے لیکن وہ ابھی تک جمہوری مزاج یا سیاسی وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔ انہیں ایک ایسا جمہوری لیڈر ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو برسر اقتدار آنے کے بعد بکھرےاور تقسیم شدہ لوگوں کو ملانے اور سیاسی اور سماجی سطح پر مصالحت اور احترام کا ماحول پیدا کرنے کی بات کرنے کی بجائے ہر جلسہ، انٹرویو حتیٰ کہ ٹویٹ پیغامات میں سیاسی مخالفین پر رکیک حملے کرنے اور انہیں خود سے کم تر قرار دینے میں مصروف ہے۔
سیاسی لیڈروں کو گھٹیا اور ہر برائی کا حامل قرار دینے کے بارے میں فوجی آمروں کے بعد سب سے زیادہ نفرت انگیز مہم عمران خان نے چلائی ہے۔ ان کی زبان کی کاٹ اور الزام تراشی سے ملک کا کوئی لیڈر محفوظ نہیں۔ اس کے علاوہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا علم بلند کرنے کے بعد سے انہوں نے یہ اصول تسلیم کروانے کی کوشش کی ہے کہ ملک کے صرف وہی لوگ ایماندار، قابل احترام یا محب الوطن ہیں جو پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں۔ پارٹی یا ان کی ذات سے اختلاف کرنے والا ہر شخص نہ صرف عمران خان کی نظر میں بلکہ ان کے شدت پسند حامیوں کی نظر میں بھی قابل گردن زدنی ہے۔ عمران خان انتخابی جلسوں میں کھلے عام نواز شریف کے بعد شہباز شریف ، آصف زرداری اور دیگر لیڈروں کی جگہ جیل بتاتے ہیں ۔ گو کہ ان کا مؤقف ہے کہ ان لوگوں کو ماضی کی بدعنوانیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے جیل میں ہونا چاہئے لیکن وہ اس کا فیصلہ عدالتوں یا ملک کے نظام پر چھوڑنے کی بجائے یہ تاثر قوی کررہے ہیں کہ ان کی حکومت میں سیاسی مخالفین کو جیل جانے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
اختلاف سے ’نفرت‘ کرنے کے اس مزاج کے ساتھ برسر اقتدار آنے والا کوئی بھی لیڈر کسی بھی جمہوری نظام کے لئے خطرہ قرار پائے گا۔ عمران خان کو اس حوالے سے استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ اس بات کا موقع ضرور دیا جاسکتا ہے کہ انتخابات کی ہیجان خیزی سے نکلنے کے بعد جب وہ بالآخر قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو وہ اپنے ان جذباتی اور جمہوریت دشمن بیانات سے رجوع کرلیں گے کیوں کہ کوئی جمہوری حکومت یا لیڈر سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرتے ہوئے، انہیں جیلوں میں بھر کر ملک و قوم کی بھلائی کا کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ گو عمران خان کو یہ گمان رہا ہے کہ وہ مغربی جمہوری نظام کو باقی سب لیڈروں سے بہترسمجھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی حالیہ چند ماہ کے دوران الیکٹ ایبلز کو گلے لگاتے ہوئے انہوں نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ پاکستان میں سیاست ان اصولوں پر چلتے ہوئے نہیں ہو سکتی جن کی بنیاد پر مغربی معاشروں کے جمہوری نظام استوار ہیں۔ عمران خان چونکہ سوال کا جواب دینے کی بجائے اپنی بات پر اصرار کرنے اور ضد کی حد تک اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے وہ پاکستان کے جمہوری نظام اور اپنے ممدوح مغربی ممالک کے جمہوری طریقہ کار میں فرق سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان کا پارلیمانی جمہوری آئین ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہی استوار ہے لیکن یہاں اس نظام کو پھلنے پھولنے اور استوار ہونے کا مناسب موقع نہیں ملا۔ اس کے علاوہ بوجوہ ملک میں تعلیم کے فروغ اور طبقاتی تقسیم کم کرنے کے لئے کام نہیں کیا جا سکا۔ ان وجوہات کی بنا پر عام لوگوں میں ووٹ کی قدر و قیمت اور اہمیت کے بارے میں شبہات پیدا ہونا فطری امر ہے۔ اس کے علاوہ جب سیاسی جماعتیں اور لیڈر کسی منشور پر عمل کرنے کی بجائے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے سیاسی جدوجہد کریں گے اور نظام کو اسی مقصد سے استعمال کیا جائے گا تو لوگوں کو بھی یہی تربیت حاصل ہوگی کہ وہ بھی اپنے گروہی یا علاقہ جاتی مفادات کے تحفظ پر توجہ دیں اور ان لوگوں کو ووٹ دیں جو منتخب ہونے کے بعد اپنے اثر و رسوخ سے ان کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پورا کرسکتے ہیں۔ اسی مزاج اور سیاسی طریقہ کار کی وجہ سے ملک میں الیکٹ ایبلز نام کی مخلوق نے جنم لیا ہے جو اپنے حلقے کے لوگوں کی ضرورتیں پورا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اور اپنی ضرورتیں پورا کروانے کے لئے ان پارٹیوں مٰیں شامل ہوتے ہیں جن کی کامیابی کا سو فیصد یقین ہوتا ہے۔
کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کی کامیابی کی ہوا باندھنے میں ہمیشہ وہی عناصر اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں جو اس وقت ’عمران خان ہی وزیر اعظم ہوں گے‘ کا تاثر تبصروں، جائزوں اور خبروں کے ذریعے قائم کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں جاگیرداری و قبائلی نظام اور گدی نشینوں سے جذباتی وابستگی نے بھی کسی حد تک الیکٹ ایبلز کو پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اس نظام کو توڑنے اور عوام کو ان عناصر کے چنگل سے نجات دلانے کی کوشش نہیں کی جو جمہوری نظام کو ذاتی طاقت اور مفادات کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس طرح لوگوں کا یہ شبہ یقین میں بدلتا رہا ہے کہ ان کے ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس تاثر کے قوی ہونے کی وجہ سے ہی ووٹرں کی بڑی اکثریت نے گروہی یا برادری کی بنیاد پر ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے اتحاد کرتے ہوئے اپنے علاقے سے انتخاب میں حصہ لینے والوں سے ووٹ دینے سے پہلے بعض مطالبات منوانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔
یہ طریقہ ملک کی طاقت ور اسٹبلشمنٹ کی ضرورتوں کو بھی پورا کرتا رہا ہے، اسی لئے الیکٹ ایبلز اور اسٹبلشمنٹ ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں۔ اس وقت ملک کے بیشتر تجزیہ نگار اگر تحریک انصاف کی کامیابی کی پیش گوئیاں کررہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ اسے جتوانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ یہ جائزے کسی اصول یا سیاسی پروگرام کے مقبول یا غیر مقبول ہونے کی بنیاد پر تیار نہیں ہوتے۔ اسی لئے ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کا خواب دیکھنے والے اس طریقہ کار کو مسترد کرتے ہیں اور اس کی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔
وزیر اعظم کی کرسی کی طرف بڑھتے ہوئے عمران خان ملک کے سیاسی لیڈروں کے علاوہ ایسے لوگوں کے بارے میں بھی سنگین عناد کا اظہار کرتے رہے ہیں جو ان کی پارٹی کو کامیاب کروانے کی بجائے دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ وہ عوام کے مینڈیٹ کو قبول کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ہیں اور صرف ان لوگوں کو قابل قدر اور انسا ن کے رتبے پر فائز سمجھتے ہیں جو ان کی پارٹی یا شخصیت سے متاثر ہیں ۔ باقی لوگوں کے بارے میں ان کی رائے وہی ہے جو انہوں نے گزشتہ جمعہ کو نواز شریف اور مریم نواز کی لاہور واپسی کے موقع پر ان کا استقبال کرنے والوں کے بارے میں دی تھی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے باز پرس پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے اس طرز تکلم اور انسانوں کے لئے ’گدھے‘ کا لفظ استعمال کرنے کو درست قرار دیا تھا۔ پانچ برس تک خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ رہنے والے پرویز خٹک نے پیپلز پارٹی کی حامیوں کے بارے میں جو بدکلامی کی ہے وہ بلاشبہ عمران خان کی سیاسی تربیت ہی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لئے عمران خان یا پارٹی کی طرف سے اس گھٹیا طرز تکلم سے فاصلہ اختیار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
سیاسی لیڈروں اور عوام کے بارے میں یہ رائے رکھنے والے عمران خان ملک پر غیر آئینی طور سے حکومت کرنے والے فوجی آمروں کے بارے میں کبھی رائے زنی نہیں کرتے خواہ اس کا تعلق مالی بد عنوانی سے ہو یا یہ معاملہ ملکی آئین و قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جمہوری فلاح اور بہتری کا راستہ روکنے سے متعلق ہو۔ پاکستان میں جمہوریت کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کوئی سیاست دان یا مبصر اگر فوجی آمروں کے منفی کردار اور تباہ کن فیصلوں کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا تو اس کے بارے میں یہ سمجھنے کی غلطی نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس ملک میں جمہوری نظام کی بہتری کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ البتہ یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ذاتی اقتدار کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ عمران خان بھی وہی کر رہے ہیں۔
عمران خان نے اس مقصد کے لئے بلاشبہ ہر اصول کی قربانی دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں ہاتھ رنگنے کے بعد الیکٹ ایبلز کا بڑا ٹولہ تحریک انصاف میں پناہ گزین ہو چکا ہے۔ اور ان کی مدد و تعاون سے عمران خان ملک میں بدعنوانی کے مشن کو مکمل کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ یہ مضحکہ خیز صورت حال خود ہی مستقبل میں پیش آنے والے حالات کی آئینہ دار ہے۔ عمران خان نے اقتدار کے لئے عوام دشمن قوتوں سے سمجھوتہ کیا ہے۔ ان میں اسٹبلشمنٹ اور الیکٹ ایبل سر فہرست ہیں۔ اس سمجھوتہ کے بعد بھی اگر وہ وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو اس کا الزام وہ اپنے سوا کسی دوسرے کو نہیں دے سکیں گے۔ انہوں نے کبھی عوام کے شعور پر بھروسہ نہیں کیا اور نہ ہی عوام کے مینڈیٹ کو قبول کیا ہے کیوں کہ اس کے ذریعے وہ ابھی تک اقتدار سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ برسر اقتدار آنے کے بعد بھی وہ اپنے مد مقابل لیڈروں کو جیل بھیجنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
حیرت ہے کہ وہ ملک کے جمہوری نظام کو کرپشن کا عنوان بنانے والے عناصر اور اداروں کے ساتھ تعاون کے بعد کس طرح بدعنوالی ختم کرنے کے مقصد میں کامیاب ہونے کا یقین کرسکتے ہیں۔ ملک کے عوام کو تو وہ بے شعور سمجھتے ہیں حالانکہ اس ملک کے عوام باشعور ہیں اور دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں کے لوگوں کے مقابلے میں حالات حاضرہ، سماجی و معاشی معاملات اور سیاسی اتار چڑھاؤ کی بہتر تفہیم رکھتے ہیں۔ لیکن استحصال کی مسلسل صورت حال نے انہیں ’سمجھوتے‘ کرنے پر مجبور ضرور کیا ہے جن میں الیکٹ ایبلز کو ووٹ دینا اور جس لیڈر کی ہوا بندھی ہو اس کی طرف جھکاؤ کا اظہار بھی شامل ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیاں اگر جمہوریت کے اس اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لئے کام کریں تو یہی عوام بہترین لوگوں کو منتخب کرکے اسمبلیوں میں بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بی بی سی کو انٹریو دیتے ہوئے عمران خان نے معلق پارلیمنٹ کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ وہ بدعنوان پارٹیوں کے ساتھ اشتراک کر کے حکومت بنانے کی بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے۔ عمران خان کی پارٹی کو گزشتہ پانچ برس اپوزیشن میں بیٹھنے کا موقع ملا تھا۔ لیکن اس حیثیت میں وہ یا ان کی پارٹی کوئی مثبت جمہوری کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ برسر اقتدار آکر یا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ قوم کی خدمت کرنے کے لئے عمران خان کو سب سے پہلے عوام کے فہم و شعور پر یقین کرنا ہو گا ۔ اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جمہوریت میں لوگوں کے ووٹ لے کر پارلیمنٹ تک آنے والے سب ہی لوگ قابل احترام ہوتے ہیں۔ اگر ان میں کچھ ’چور‘ شامل ہیں تو ان کا تعین عمران خان کی پسند یا ناپسند سے نہیں ہو گا بلکہ ملک کا نظام قانون و انصاف ہی اس کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ