اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت صدیقی نے راولپنڈی بارایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو انکشافات کئے ہیں، ان کا چرچا اب بچے بچے کی زبان پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر جسٹس شوکت صدیقی کا ’کچا چٹھا‘ کھولنے کی بھرپور مہم کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ اگرچہ ملک کی خفیہ ایجنسی کو بھی خود پر کھلم کھلا الزامات عائد کرنے والے شخص سے حساب برابر کرنے کی آرزو ہوگی لیکن جسٹس صدیقی کے الزامات کو تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرف سے نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا ہتھکنڈا سمجھا جا رہا ہے لہذا یہ گروہ جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف سب سے زیادہ متحرک نظر آتا ہے۔یہاں یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو اداروں پر الزامات عائد کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینے اور دائرہ قانون کے اندر رہنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ملک کے ہر شہری سے یہی توقع کی جاتی ہے لیکن سیاسی تصادم اور انتخابات کی گہما گہمی کی وجہ سے سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں سے اس حوالے سے لغزش ہونا معمول کی بات ہے لیکن ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کو بات کرنے سے پہلے نہ صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا بات کس فورم پر کررہا ہے اور کیا اس کے پاس اپنے دعوے کا ٹھوس اور دستاویزی ثبوت موجود ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے عدالتی فیصلوں پر آئی ایس آئی کے اثر انداز ہونے کے جو الزامات عائد کئے ہیں اور سپریم کورٹ تک پیغام رسانی اور نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت کی کارروائی کی ڈیلی رپورٹ خفیہ اداروں تک پہنچانے کا قصہ سناتے ہوئے جس طرح ’مومنانہ‘ شان سے کہا ہے کہ ان انکشافات کے بعد وہ نہیں جانتے کہ انہیں زندہ چھوڑا جائے گا یا نہیں۔ یہ ساری باتیں کسی جج کی تقریر سے زیادہ کسی سیاسی جلسے میں نوآموز سیاسی لیڈر کی گفتگو لگتی ہیں۔
جسٹس شوکت صدیقی کے پاس اگر یہ ساری معلومات موجود تھیں تو انہیں سب سے پہلے مناسب طریقے سے ان معاملات پر دستاویزی شہادتیں جمع کرنی چاہئیں تھیں اور ان کے بارے میں متعلقہ اداروں کو مطلع کرنا چاہئے تھا۔ یہ پروفیشنل اور زیادہ دیانتدارانہ طریقہ ہوتا۔ لیکن انہوں نے جو طریقہ اختیار کیا ہے، اس سے ان کی ذات کے بارے میں تو سوالات سامنے آئے ہیں لیکن بطور جج ان کی صلاحیت اور غیر جانبداری پر بھی سوالیہ نشان عائد کیا جاسکتا ہے۔جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات سنگین تو ہیں لیکن انہیں ایک تقریر میں عائد کیا گیا ہے۔ اگر وہ اس حوالے سے باقاعدہ ثبوت کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مطلع کرتے اور کارروائی نہ ہونے کی صورت میں وکیلوں کے ادارے کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے تو ملک کے نظام انصاف کی اصلاح اور خود مختاری کے لئے ان کی یہ کاوش قابل تحسین ہوتی ۔ اس طرح متعلقہ ادارے نہ چاہتے ہوئے بھی ان باتوں پر غور کرنے اور ان کا جواب دینے پر مجبور ہوتے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونے اور ساری زندگی وکالت کے شعبہ سے وابستہ رہنے کے باوجود اگر وہ الزام میں ثبوت کی اہمیت کو نہیں جانتے اور مناسب طریقہ کار کو اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اسے ملک میں اداروں کی کمزوری کے علاوہ ان سے وابستہ افراد کی استعداد کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔سیاسی بحران، سماجی تصادم، اداروں کے بارے میں شبہات اور بے یقینی کے موجودہ ماحول میں کسی بھی جج کی طرف سے اس قسم کی تقریر کو قومی خدمت کی بجائے سنسنی پیدا کرنے کی کوشش ہی کہا جائے گا جو معاشرہ میں تقسیم کو گہرا اور بد اعتمادی کو راسخ کرنے کا کردار ادا کرے گی۔ جسٹس صدیقی اپنے متعدد فیصلوں کے حوالے سے خبروں کی زینت بنتے رہے ہیں ۔ اس طرح وہ خود بھی بطور جج قانون کے مطابق معاملات پر غور کرنے اور شواہد کی روشنی میں دلائل کے ساتھ فیصلہ لکھنے تک محدود رہنے کی بجائے، اپنے ریمارکس اور سنسنی خیز الزام نما بیانات سے خبروں میں جگہ بنانے والے ججوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ کسی بھی نظام انصاف کی اعلیٰ سطح پر ایسے منصفوں کی موجودگی کوئی خیر کی خبر نہیں۔ پاکستان کے نظام عدل میں گزشتہ کچھ عرصہ سے مسند عدل کو شہرت اور مقبولیت کی وجہ بنانے والے متعدد جج سامنے آچکے ہیں جو عدالتوں کی توقیر اور اعتبار کو نقصان پہنچانے کا ہی سبب بنے ہیں۔ جسٹس صدیقی کے خلاف چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس موجود ہیں جن پر کارروائی کا اعلان کیا جا چکا ہے، اس لئے جسٹس صدیقی کے آج کے بیان کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی قرار دیا جائے گا۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے گزشتہ دنوں جسٹس صدیقی کے خلاف ریفرنس کی سماعت کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ حکم اسی روز دیا گیا تھا جس روز جسٹس شوکت صدیقی نے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس کو زیریں عدالت کے فیصلے بدلنے کا اختیار ضرور حاصل ہے لیکن انہیں ججوں کا مضحکہ اڑانے اور توہین کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ اس طرح چیف جسٹس کا حکم ’جیسے کو تیسا‘ کی عملی تصویر کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے متعدد ججوں کے خلاف ریفرنس زیر التوا ہیں لیکن ان پر کارروائی عمل میں نہیں آئی تاہم شوکت صدیقی کے معاملہ پر کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ سماعت کرنے والی جوڈیشل کونسل کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار ہوں گے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور خان کانسی بھی اس کے رکن ہوں گے۔ ان دونوں کے خلاف بھی شکایات ریفرنسز کی صورت میں جوڈیشل کونسل کے پاس موجود ہیں لیکن ابھی ان پر کارروائی کی نوبت نہیں آئی۔ چیف جسٹس کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے یہ تضاد دور کرنا چاہئے۔ جوڈیشل کونسل میں آنے والی شکایات کو چیف جسٹس کی صوابدید کی بجائے اس ترتیب سے سماعت کے لئے مقرر کیا جائے جس طرح وہ دائر کی گئی ہیں۔ یعنی جو شکایت پہلے موصول ہوئی ہے اس کا فیصلہ پہلے کر دیا جائے تاکہ ملک میں ججوں کا احتساب کرنے والے اس اعلیٰ ترین ادارے پر جانبداری کا الزام عائد نہ کیا جا سکے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر میں عائد کئے جانے والے الزامات کے طریقہ کار اور حکمت پر سوال اٹھانے کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ انتخابات سے فوری پہلے ان باتوں کا ملکی سیاست پر اثر مرتب ہو گا۔ اسی طرح یہ بحث زیادہ شدید اور سنگین صورت اختیار کرجائے گی کہ ملک کے حساس اداروں کی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں کیا ہیں اور ان کی نگرانی کیسے کی جاتی ہے۔ سیاست میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کا معاملہ اصغر خان کیس میں ثابت ہو چکا ہے۔ اس مقدمہ کے فیصلہ کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی ایک مخصوص پارٹی کو انتخابات میں ناکام کروانے کے لئے متحرک رہے تھے اور مخالف سیاسی گروپوں اور لیڈروں میں اس مقصد کے لئے رقوم تقسیم کی گئی تھیں۔ اس طرح خفیہ ایجنسیوں کے ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کے الزامات ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فورم پر ثابت ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب تک یہ طریقہ جاری ہے؟
ملک کے بیشتر سیاست دان موجودہ انتخابات کے حوالے سے پری پول رگنگ کے الزامات عائد کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کرتے رہے ہیں۔ انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے متعدد الیکٹ ایبلز کی اڑان اور سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف سیاسی تحریک منظم و متحرک کرنے کے لئے درپردہ عناصر کی سرگرمیاں اکثر مباحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ سینیٹ کے سابق چئیرمین رضا ربانی نے آج سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت کی غیر جانبداری کو مشکوک قرار دیا ہے۔ آرمی چیف اور پاک فوج کے ترجمان حال ہی میں انتخابات میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے بریت کا اعلان کرچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فوج صرف الیکشن کمیشن کی درخواست پر سیکورٹی فراہم کرنے کا کام کرے گی۔ تاہم ملک میں عام طور سے اس دعوے کو قبول نہیں کیا جاتا۔ انتہائی محتاط اور نظام دوست تبصرہ نگار بھی مستقبل کی سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ قرار دیتے ہیں کہ اس بار تحریک انصاف کو موقع دینے اور مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ یا خفیہ اداروں کی مداخلت کا یوں اظہار ہوتا ہے کہ نواز شریف فوج سے تصادم کی پالیسی کی وجہ سے اس انجام تک پہنچے ہیں۔ یہ بات تو فوج اور اسٹبلشمنٹ کے سب سے بڑے ہمدرد چوہدری نثار علی خان بھی بار بار کہہ چکے ہیں۔اسی طرح انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے ملک میں صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ پر اسرار قوتیں پاکستان تحریک انصاف کے لئے مزاج تیار کرنے کی ہدایات دیتی ہیں۔ مالکان نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے آزادی اظہار پر سخت ترین پابندیاں قبول کرلی ہیں جنہیں ’سیلف سنسر شپ‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ روزنامہ ڈان کے چیف ایگزیکٹو حمید ہارون نے گزشتہ دنوں بی بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں اخبار کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام فوجی اداروں پر عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ ملک کے صحافیوں کو بدترین دباؤ کا سامنا ہے۔اس دوران عابد باکسر نامی سابق ٹارگٹ کلر کی اچانک پاکستان واپسی، عدالت سے فوری ضمانت اور اس کے بعد شہباز شریف کے خلاف ٹی وی انٹرویوز بھی انتخابات میں مطلوبہ نتائج لینے کے لئے کسی خفیہ قوت کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اسی طرح کراچی کے بدنام زمانہ معطل ایس ایس پی راؤ انوار کی ضمانت پر رہائی بھی ملکی سیاست، عدالتی نظام اور بنیادی حقوق کے حوالے سے متعدد سوالات سامنے لاتی ہے۔ راؤ انوار پر ایک نوجوان نقیب اللہ کو ماورائے عدالت کارروائی کرتے ہوئے قتل کرنے کا الزام ہے اور اس نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے سو موٹو نوٹس کے تحت کارروائی کے بعد گرفتاری دی تھی۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
اس قتل سے پیدا ہو نے والے غم و غصہ نے پشتون تحفظ موومنٹ کی صورت اختیار کی ہے جسے پشتون عوام میں ذبردست پذیرائی نصیب ہوئی ہے۔ لیکن فوج کے ترجمان نے اس تحریک کو بیرون ملک سے ملنے والی امداد کے بارے میں شبہات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم جب راؤ انوار جیسے مشکوک کردار کو انتخابات سے پہلے رہا کیا جائے گا اور عابد باکسر جیسے بد کردار لوگوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا کھیل طشت از بام ہو گا تو سیاسی و انتظامی معاملات کے علاوہ عدالتی امور میں ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں شبہات پیدا ہوں گے۔ ہائی کورٹ کا ایک سینئر جج جب ان شبہات کو زبان دے رہا ہے تو ان کی سنگینی اور نقصان کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔
اس صورت حال میں یہ ضروری ہے کہ ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی رسوخ حاصل کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور آئی ایس آئی یا دیگر اداروں کو سیاست دانوں کی نگرانی کرنے یا ان کی کمزوریوں کا ریکارڈ جمع کرنے کی بجائے ان عناصر کے خلاف کام کرنے پر مامور کیا جائے جو اس ملک کے لوگوں کو دہشت گردی کے ذریعے ہلاک کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ فوجی انٹیلی جنس اداروں کے سیاسی سیل فوری طور پر بند ہونے چاہئیں اور ان کے دائرہ کار کے بارے میں واضح حدود متعین کی جائیں۔ ان اداروں کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے فوج کا احترام متاثر ہوتا ہے اور ملک میں جمہوریت کے بارے میں فوج کی نیت پر شبہات کا اظہار سامنے آتا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کی غیر جانبداری اور جمہوریت پر مکمل یقین کا اظہار کرچکے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کو ختم کر کے وہ اپنے ان نیک ارادوں کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔