سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کو توہین عدالت کے جرم میں عدالت کے برخواست ہونے تک قید، ایک لاکھ جرمانہ اور پانچ سال کے لئے کسی بھی سرکاری عہدہ کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔ پاناما کیس کے بعد سے سپریم کورٹ اور اس وقت حکمران جماعت کے درمیان شروع ہونے والا تنازعہ توہین عدالت کے متعدد مقدموں کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے اور پاکستان تحریک انصاف مرکز کے علاوہ پنجاب اور دیگر دو صوبوں میں حکومتیں بنانے کے لئے پر تول رہی ہے لیکن توہین عدالت کے مقدمات بدستور قائم ہیں اور ان میں ملوث افراد کے خلاف فیصلے بھی آرہے ہیں۔
تسلسل سے توہین عدالت کی شکایات اور ججوں کی طرف سے یکے بعد دیگرے ایک ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سزائیں دینے کی ایسی مثال تلاش کرنا مشکل ہو گا۔ پاناما کیس کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی فضا میں سپریم کورٹ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ نواز شریف، ان کی بیٹی مریم اور داماد کیپٹن صفدر اس وقت اڈیالہ جیل میں نیب ریفرنس میں ملنے والی سزائیں بھگت رہے ہیں لیکن ان کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے، اس کی نگرانی میں کام کرنے والی جے آئی ٹی کی کارکردگی و رپورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ کی نگرانی میں نیب عدالت کی طرف سے ان تینوں کو ملنے والی سزائیں طویل عرصہ تک سیاسی اور قانونی مباحث کا موجب بنی رہیں گی۔ اس ماحول میں نواز شریف کے حامیوں نے بعض اوقات تند و تیز لب و لہجہ اختیار کیا اور ججوں کو براہ راست تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست اور پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد اب پاناما پیپرز کے انکشافات سے شروع ہونے والے قانونی اور سیاسی مباحث اب عدالتی کارروائی تک محدود ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ ملک کی مختلف عدالتوں کو ہی لینا ہے اور انہوں نے ہی اس بارے میں احکامات بھی جاری کرنے ہیں۔ تاہم ملک میں سیاست کے علاوہ قانون کے طالب علم بھی اس بات کو دلچسپی اور تجسس سے نوٹ کریں گے کہ پاناما انکشافات کے وقت ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نواز شریف تو اپنے اہل خاندان کے ہمراہ اس وقت قید میں ہیں لیکن انہی کاغذات میں جن دیگر سینکڑوں پاکستانیوں پر آف شور کمپنیوں کے مالکان ہونے کا الزام لگایا گیا تھا، ان کے خلاف کسی فورم پر کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی تھیں کہ نیب ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے اور آف شور کمپنیوں کےسب مالکان کے مالی معاملات کا جائزہ لیا جائے گا لیکن اس کے بارے میں مزید پیش رفت سے قوم کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ نواز شریف اس معاملہ کو سیاسی معاملہ قرار دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ان کے سیاسی اقدامات کی سزا دی گئی ہے۔ وہ اس حوالے سے ’خلائی مخلوق‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں اور عدالتوں کی نیت پر شبہ کا اظہار بھی سامنے آتا رہا ہے۔ ان شبہات کا تدارک صرف نواز شریف کو قید اور جرمانے کی سزا دے کر نہیں ہو سکتا بلکہ ملک کی عدالتوں کو ان سب پاکستانیوں کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے جن کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے تھے۔ تب ہی یہ دلیل قبول عام حاصل کرسکے گی کہ ملک کی عدالتوں کے فیصلے سیاسی حالات یا کسی خلائی مخلوق کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نہیں کئے جاتے۔
سپریم کورٹ اور ملک کی دیگر عدالتیں اور ادارے اگر اس حوالے سے بہتر اور شفاف کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو عدالتی نظام کے ناقص ہونے کے بارے میں شبہات موجود رہیں گے اور نواز شریف کے خلاف معاملات انجام تک پہنچانے کی خواہش کا برملا اعلان کرنے والے ججوں کی نیتوں کے بارے میں بھی سوالات سامنے آتے رہیں گے۔ یہ ممکن ہے کہ جب تک یہ حضرات جج کے عہدہ پر فائز ہیں، ان کے خلاف ماہرین اور سیاسی کارکن کھل کر بات کرنے سے گریز کریں لیکن جوں ہی انہوں نے اپنی مدت پوری کی ان کا کردار ایک بار پھر موضوع بحث بنے گا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف سامنے آنے والی آرا اور طرز عمل اس کی مثال ہے۔
عدالتوں کا احترام کسی بھی معاشرہ کو باوقار بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ منصف انصاف فراہم کرنے اور سب شہریوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کرنے کی ضمانت دیتے ہیں اور عام لوگ اور ریاستی ادارے عدالتوں کو عزت و احترام فراہم کرکے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ عدل و انصاف کے نظام کے بارے میں لوگوں کا یقین کمزور نہ ہو۔ یہ عمل صرف عدالتوں کی طرف سے توہین عدالت کی دھمکیوں یا اس اختیار کے تحت سزائیں دینے کے طریقہ کار سے مضبوط نہیں ہو سکتا۔ عدالتوں کے وقار میں اضافہ ججوں کے کردار، گفتار اور فیصلوں کی پیشہ وارانہ بنیاد سے ہوتا ہے۔ جج اگر تحریری فیصلوں پر محنت کرنے اور انہیں قانون کی تشریح تک محدود رکھنے کی بجائے، میڈیا سرکس کا حصہ بننے لگیں گے۔ یا ان کے ریمارکس اور تبصرے حتیٰ کہ تقریریں ان کے فیصلوں سے زیادہ اہمیت اختیار کرنے لگیں گی تو اسے انصاف کی سربلندی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پاکستان میں میڈیا کے ذریعے شہرت عام حاصل کرنے کے رویہ نے ملک کی عدالتوں کے وقار میں اضافہ نہیں کیا بلکہ اس میں کمی ہوئی ہے۔ اصولی طور پر ججوں کے احکامات اور فیصلوں کا حوالہ اہم ہوتا ہے، یہ جاننا ضروری نہیں ہوتا کہ کس جج نے یہ حکم دیا یا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن پاکستان کی حد تک یہ صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔
افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ اس کا سب سے زیادہ مظاہرہ سپریم کورٹ کی کارکردگی کے ذریعے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججوں کو اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی ضروت ہے۔ ایسی صورت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ معاملات میں جج زیر بحث نہ آئیں بلکہ ان کے فیصلوں کے ذریعے قانونی رہنمائی حاصل کی جائے۔ سپریم کورٹ نے اس صورت حال میں سو موٹو ایکشن کے ذریعے اپنا دائرہ کار اور اختیار بڑھا کر بھی ایک مشکل صورت حال پیدا کی ہے۔ عدالتی اختیار سے باہر معاملات پر ججوں کے تبصرے اور ریمارکس کسی فیصلہ سے پہلے ہی میڈیا کے ذریعے زبان زد عام ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں کسی کو خبر نہیں ہو پاتی کہ اصل معاملہ کا فیصلہ کیا ہؤا ہے۔ عدالتوں کے وقار میں اضافہ کے لئے اس کیفیت کو تبدیل کرنا بے حد اہم ہے۔
توہین عدالت کےالزام میں نوٹس یا اس کے تحت کارروائی سے ججوں کے بارے میں گمراہ کن باتیں پھیلانےکی روک تھام کی جاتی ہے۔ عام طور سے عدالتیں انتہائی صورت میں اس اختیار کو استعمال کرتی ہیں اور نوٹس ملنے کی صورت میں متعلقہ شخص غیر مشروط معافی مانگ کر شرمندگی کا اظہار کرتا ہے اور جج اسے تسلیم کرتے ہوئے معاملہ ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے سیاسی بیانات کی بنیاد پر توہین عدالت کی سزائیں اور فیصلوں سے اب یہ اندیشہ پیدا ہؤا ہے کہ کیا توہین عدالت کے استحقاق کو استعمال کرتے ہوئے عدالتیں آئین کی شق 19 کے تحت حاصل آزادی اظہار کے حق کو نظر انداز کرنے کا سبب تو نہیں بن رہیں۔ عدالتیں ملک میں آزادی اظہار کا تحفظ کرنے والا سب سے طاقت ور اور خود مختار ادارہ ہوتی ہیں۔ لیکن اگر ان کے بعض فیصلوں سے اظہار کی آزادی متاثر ہونے کا اندیشہ پیدا ہونے لگے تو یہ تشویشناک صورت ہوگی۔ یہ حد فاصل کھینچنا اہم ہے کہ کون سا طرز تکلم جمہوریت کی اساس رائے کی آزادی کے زمرے میں آتا ہے اور کون سی بات اس حد کو عبور کرتے ہوئے کسی جج کی توہین کا سبب بنتی ہے اور عدالت کو بطور ادارہ متاثر کرتی ہے۔ سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے متعدد فیصلوں میں اس حد فاصل کے بارے میں واضح مؤقف اختیار نہیں کیا۔ اس لئے یہ کہنا ضروری ہو گیا ہے کہ اس معاملہ کا بطور خاص جائزہ لیا جائے اور توہین عدالت کے معاملات کو شہریوں کے حق اظہار پر پابندی کا ہتھکنڈا نہ بنایا جائے۔ چیف جسٹس آئین کے تحفظ اور جمہوریت کے تسلسل کی بات کرتے رہے ہیں۔ اس لئے ان پر بطور خاص یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کریں۔
اظہار کی آزادی کسی بھی جمہوری نظام کی اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس معاشرہ میں کسی خوف و ہراس کے بغیر اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع فراہم نہیں ہوتا، وہاں جمہوریت کا پروان چڑھنا مشکوک ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں سب ہی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس ملک میں رائے کے اظہار پر نت نوع پابندیاں عائد ہیں۔ کچھ پابندیاں بعض اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے آئین کا حصہ بنائی گئی ہیں۔ کچھ معاملات میں بعض مذہبی اور شدت پسند گروہوں نے لوگوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ کھل کر ان موضوعات پر بات نہ کریں۔ ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے سوشل میڈیا کے ذریعے اظہار خیال کرنے والے لوگوں کے خلاف ماورائے قانون اقدامات کرنے کی خبریں اکثر و بیشتر سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے خوف کی فضا پیدا ہوتی ہے اور ڈائیلاگ کی صورت پیدا نہیں ہوتی جو دراصل کسی بھی جمہوری معاشرے میں باہمی احترام، قوت برداشت اور معاملات کی تفہیم میں کردار ادا کرتی ہے۔ حال ہی میں منعقد ہونے والے انتخابات سے پہلے اور نتائج سامنے آنے کے دوران ملک کے مین اسٹریم میڈیا کو جن درپردہ پابندیوں اور دھمکیوں کا سامنا رہا ہے، اس کے بارے میں بھی معلومات سامنے آرہی ہیں۔ اخبارات ایک خاص مؤقف کے برعکس کالم شائع کرنے اور ٹی وی اسٹیشن مخصوص طریقہ سے تصویر نہ دکھانے کی صورت میں پروگرام پر پابندی لگاتے رہے ہیں۔ یہ شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ انتخابات پر تبصرہ کرنے والوں کو ایک خاص طریقے سے بات کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ تادم تحریر ملک میں جمہوریت، آئین کی بالادستی اور بنیادی حقوق کی ذمہ دار سپریم کورٹ نے ان شکایات کا نوٹس نہیں لیا تھا۔
اب توہین عدالت کی آڑ میں اگر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے بھی اظہار رائے کے بارے میں خوف پیدا کرنے کا سبب بننے لگیں گے تو اس سے بنیادی جمہوری اور آئینی حقوق متاثر ہونے کا شدید اندیشہ پیدا ہوگا۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ