دو روز گزر جانے کے بعد بھی وزیر اعظم عمران خان کے قوم کے نام خطاب پر داد و تحسین کا ہنگامہ کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اس تقریر سے ٹھوس مطالب جاننے کی بعض سنجیدہ کوششیں ضرور کی گئی ہیں لیکن سوشل میڈیا کے علاوہ اظہار کے دیگر فورمز پر تحریک انصاف کے سرفروشوں نے مثبت یا منفی ہر قسم کی تنقید کو اپنے نو منتخب وزیر اعظم کے خلاف بغض و عناد سے تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مقبول رہنما کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان کے حقیقی جاں نثاروں اور حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہوتی لیکن جب کوئی بھی شخص اقتدار تک پہنچتا ہے تو اس کی توصیف کرنے والوں کا ایک جم غفیر فصلی بٹیروں کی طرح برآمد ہوتا ہے۔ عمران خان کی وزارت عظمی تک رسائی کے بعد ’اقبال بلند ہو‘ کا نعرہ بلند کرنے والے عناصر نے بھی اس وقت ایک ایسی تقریر پر واہ واہ کا ایک ایسا ہنگامہ بپا کیا ہے کہ کام کی بات کرنا، نقد کے ساتھ معاملات کا جائزہ لینا اور تبدیلی مخالف کا طعنہ سنے بغیر رائے دینا ناممکن ہو چکا ہے۔ جب توصیف کرنے والوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ایسی قسم بھی شامل ہو جو عمران خان کی تقریر کو قائد اعظم کی 11 اگست 1947 والی تقریر کے بعد کسی رہنما کی یادگار ، تاریخی ، اہم ترین ، وژن ، عقل و دانش سے بھرپور بیانیہ قرار دے تو عقل انگشت بدنداں ہے کہ کیا کہا اور کیا سنا جائے۔
عمران خان نے اس قوم کو ایک خواب دکھایا ہے۔ اب یہ اس ملک کے لاکھوں متحرک نوجوانوں کے دلوں میں بسا ہے۔ اب عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ انہیں اس خواب کو حقیقت میں بدلنا ہے۔ ایسی صورت میں صرف ان کے کٹر حامی ہی نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرنے والے سب لوگ بلا تفریق یہ خواہش اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوں۔ تحریک انصاف کے حامیوں کو اس بات کا حق نہیں پہننچتا کہ وہ اپنے علاوہ اس ملک کے شہریوں سے اپنے نئے وزیر اعظم سے توقعات وابستہ کرنے کا حق چھین لیں۔ یہ بھی ایک سیاسی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کو ملنے والے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ووٹروں کی بڑی تعداد شاید تحریک انصاف سے تو تعلق نہیں رکھتی لیکن انہوں نے تبدیلی کے نعرے اور ایک نئے سیاست دان اور سیاسی پارٹی کو موقع دینے کے لئے تحریک انصاف کی کامیابی کے لئے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ ان سےپہلے ملک میں دو بڑی سیاسی قوتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی موجود تھیں ۔ ان پارٹیوں کو اگرچہ تین تین بار حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن وہ عوام سے کئے گئے وعدے پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
سیاسی گفتگو اور رائے سازی میں ناکامی کے عوامل کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں ہوتی اور عذر خواہی کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ یہ بھی جانا نہیں جاتا کہ گزشتہ تیس برس کے دوران مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی بار بار ناکامیوں کی کیا وجوہات تھیں اور کس طرح صدارتی یا فوجی اختیار استعمال کرتے ہوئے ان حکومتوں کی مدت مختصر کی جاتی رہی ۔ یا جمہوری حکومتوں کو کس طرح مقتدر حلقوں اور گزشتہ کچھ عرصہ سے منہ زور عدلیہ کی غیر ضروری مداخلت کی وجہ سے اہداف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسی صورت میں سیاسی لیڈر اور ان کی پارٹی آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں اور ان کے خلاف ایک خاص رائے تیار کی جاتی ہے جو تبدیلی کے ہر نعرے کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ عمران خان کو بھی سیاست دانوں کی ناکامیوں سے پیدا ہونے والی مایوسی سے سیاسی فائدہ اٹھانےکا موقع ملا ہے۔ اسی لئے اب سب پاکستانی شہریوں اور پاکستان سے محبت کرنے والے دنیا بھر میں آباد پاکستانی تارکین وطن کی خواہش ہے کہ عمران خان خواہ کوئی بھی ہیں اور ان کا سیاسی طریقہ خواہ کچھ بھی رہا ہے ، اب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اگر ان کے ہاتھوں پاکستان کو درپیش معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل حل ہو سکتے ہیں تو انہیں اس کا موقع ملنا چاہئے۔
پیپلز پارٹی کےچئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ہی واضح کیا تھا کہ منتخب ہونے کے بعد عمران خان اب اس ملک کے ہر شہری کے وزیر اعظم ہیں۔ وہ صرف اپنے حامیوں یا پارٹی کارکنوں کے لیڈر نہیں رہے۔ اس لئے ہر پاکستانی عمران خان کے اقوال ، کام اور طریقہ کار کے بارے میں رائے کا اظہار بھی کرے گااور اس پر انگلی بھی اٹھائے گا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو جمہوری لیڈر اور پارٹی ہونے کےناطے ہر رائے کو سننا ہوگا اور تنقید سے تعمیر کی صورت نکالنا ہوگی۔ کیوں کہ اسی کا نام جمہوریت ہے اور اسی نقد و شرح سے گنجلک راستوں میں منزل کا سراغ نکالا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر ایک لیڈر کی ہر بات کو کسی مقدس صحیفے کی طرح تنقید سے بالا اور اس کی باتوں میں کمزوریاں کی نشاندہی کرنے والی ہر تحریر اور گفتگوکو عوام دشمنی اور عمران خان کے خلاف عناد قرار دینے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے رائے دینے والے اور نیک نیتی سے معاملات کی نشاندہی کرنے والوں کا تو نقصان نہیں ہو گا لیکن ملک کے نئے وزیر اعظم ضرور ایسی آرا سے محروم ہو جائیں گے جو ان کی اہم ذمہ داریوں کی تکمیل میں معاون ہو سکتی ہیں۔
آزادی رائے کسی بھی جمہوری انتظام کی بنیاد ہوتی ہے۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں مدینہ کی ریاست کے علاوہ جن مغربی ملکوں کا حوالہ دیا ہے ان میں ناروے، ڈنمارک اور سویڈن شامل ہیں۔ ان ملکوں کی جمہوریت آزادی اظہار کے بنیادی اصول پر استوار ہے۔ کوئی صاحب اقتدار کسی بھی وجہ سے خود پر ہونے والی تنقید یا متبادل رائے کو ملک دشمنی یا بغض و عناد قرار دے کر مسترد نہیں کرتا بلکہ مخالفانہ رائے کو غور سے سننےاور اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ آزادی رائے کے احترام کا ہی کمال ہے کہ اسکینڈے نیویا کے ممالک فلاحی ریاستیں تعمیر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔رائے کے احترام اور سیاسی انتظام کی شفافیت کی دو مثالیں بالترتیب ناروے اور سویڈن میں حال ہی میں دیکھنےمیں آئی ہیں۔ ناروے کے وزیر برائے ماہی گیری اور حکومتی اشتراک میں شامل اہم پارٹی فریم اسکرتس پارٹی کے سینئر نائب صدر پیر ساند برگ کو گزشتہ ہفتہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ انہوں نے نہ صرف وزارت کو چھوڑا بلکہ پارٹی کے عہدے سے بھی علیحدہ ہوئے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ جولائی میں اپنی ایرانی نژاد محبوبہ بہارے لیتنیس کے ساتھ چھٹیاں منانے جب ایران گئے تو اپنا سرکاری موبائل ٹیلی فون بھی ساتھ لے گئے اور قواعد کے مطابق انہوں نے وزیر اعظم کے دفتر کو اس دورہ کے بارے میں اطلاع نہیں دی تھی۔ وزیر اعظم ارنا سولبرگ اور پارٹی لیڈر سیو ینسن نے شروع میں اپنے ساتھی وزیر کا دفاع کیا لیکن میڈیا کا دباؤ اس قدر شدید تھا کہ چند ہی روز میں ساندبرگ کو استعفیٰ دینا پڑا۔ کسی نے اس معاملہ میں تنقید کو منفی یا نامناسب قرار نہیں دیا اور نہ ہی خبروں و تبصروں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔
اسی نوعیت کا دوسرا واقعہ عمران خان ہی کے ایک دوسرے پسندیدہ ملک سویڈ ن میں پیش آیا ہے جہاں چند روز پہلے ایک لیبر کورٹ نے ایک مسلمان خاتون کو انٹرویو کے دوران کمپنی کے مرد نمائندہ سے ہاتھ ملانے سے انکار کرنے پر ملازمت نہ دینے کو امتیازی سلوک قرار دیا۔ اور کمپنی کو چالیس ہزار کرونر یا پانچ ہزار ڈالر کے لگ بھگ جرمانہ عائد کیا۔ فرح الحجہ نامی خاتون کا مؤقف ہے کہ اس نے اپنے عقیدہ کی وجہ سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا تھا۔ کمپنی نے لیبر کورٹ کو بتایا کہ کمپنی امتیازی سلوک کےخلاف ہے اسی لئے اس نے ایک ایسی خاتون کو کام دینے سے گریز کیا جو جنس کی بنیاد پر ہاتھ ملانے سے انکار کرتی ہے۔ تاہم عدالت نے الحجہ کی وکیل کے اس مؤقف کو تسلیم کیا کہ خاتون نے مرد ہی نہیں انٹرویو لینے والی خاتون سے بھی ہاتھ نہیں ملایا تھا بلکہ سینے پر ہاتھ باندھ کر تعظیم پیش کی تھی۔ اس طرح عدالت نے مذہبی عقیدہ کے احترام کے اصول کی بنیاد پر ایک مسلمان خاتون کو معاوضہ دینے کا حکم دیا۔
ان ملکوں کی جمہوریت، انصاف پسندی اور قانون کی بالادستی کا حوالہ دیتے ہوئے یہ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ انصاف اور آزادی کی بنیاد پر کام کرنے والے معاشرے چھوٹے چھوٹے معاملات طے کرتے ہوئے کتنا واضح اور متوازن رویہ اختیار کرتے ہیں اور غلطی کی نشاندہی پر سیاسی اختلاف کو بنیاد بنا کر واویلا نہیں کیا جاتا۔ اس تناظر میں اگر عمران خان کے قوم سے خطاب پر غور کیا جائے تو اس میں کئی جھول اور سہو دکھائی دیں گے لیکن اگر اس پر بات کی جائے تو حکم زباں بندی صادر ہوتا ہے جو جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں دو بار یہ ذکر کیا ہے کہ ملک پر 28 ہزار ارب روپے کا قرض ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیرونی قرض کا حجم 95 ارب ڈالر بتایا ہے۔ امریکی ڈالر اس وقت تقریباً 122 روپوں کا ہے۔ اس طرح حساب لگایا جاسکتا ہے کہ اگر 95 ارب ڈالر کے اعداد و شمار درست ہیں تو یہ قرض گیارہ ہزار ارب روپے کے لگ بھگ بنتا ہے اور اگر 28 ہزارارب کا حساب درست ہے تو امریکی ڈالروں میں یہ قرض اڑھائی سو ارب تک جا پہنچتا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تصحیح جاری کرنا ضروری نہیں سمجھا ہے۔ عمران خان کو یہ جاننا ہو گا کہ سیاسی تقریروں کے جھوٹ وزیر اعظم کی زبان سے اچھے نہیں لگتے۔ ملک کے سادہ لوح عوام کی اکثریت وزیر اعظم کی بات کو پتھر پر لکیر سمجھتی ہے۔ اسی لئے اس کی گرفت کرنا بھی ضروری ہے اور اصلاح بھی ہونی چاہئے۔
اسی طرح وزیر اعظم ہاؤس کے مصارف بیان کرتے ہوئے 524ملازمین ، 80 کاروں اور 33 بلٹ پروف گاڑیوں کا ذکر کیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ وزیر اعظم ہاؤس گیارہ سو کنال پر بنا ہؤا ہے جس میں رہتے انہیں شرم آتی ہے اس لئے وہ تین کمرے کے مکان میں رہیں گے۔ لیکن یہ بتاتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ عام شہری کے طور پر وہ بنی گالہ کے تین سو کنال کے گھر میں رہتے رہے ہیں۔ اس وقت سادگی اور عوام سے ہمدردی کا یہ معیار کیوں پیش نظر نہیں تھا۔ عمران خان نے صرف دو ملازمین پر گزارہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی نعرہ کے طور پر یہ بیان درست ہو سکتا ہے لیکن یہ دعویٰ حقیقت بیان کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے جن سو اپانچ سو ملازمین کا ذکر کیا گیا ہے ، ان میں وزیر اعظم کی معاونت کرنے والا بیشتر عملہ اور اس کے معاونین اب بھی عمران خان کے اسٹاف کا حصہ ہو ں گے ۔ یہ 524 لوگ کسی سابقہ وزیر اعظم کی ذاتی خدمت پر مامور نہیں تھے۔ جس طرح عمران خان نے دو ملازمین کا ذکر کرتے ہوئے اپنی پشت پر کھڑے رہنے والے ملٹری سیکرٹری اور اس کی معاونت اور خدمت پر مامور افراد کو شمار نہیں کیا ہوگا لیکن سابقہ وزیر اعظموں کا جرم بتانے کے جوش میں کل عملہ کی تعداد بتا کر داد حاصل کرلی ۔
اس تقریر میں اس قسم کی کئی سطحی اور فاش غلطیاں موجود ہیں۔ ان کی نشاندہی عمران سے بغض یا نئی پاکستانی حکومت سے مخالفت برائے مخالفت نہیں بلکہ نئی حکومت کو غلطیوں سے باز رہنے کا مخلصانہ مشورہ ہے۔ عمران خان اگر اس مشورہ کو درگزر کریں گے یا مخالف رائے پر ان کے حامی کیچڑ اچھالیں گے تو قانون کی بالا دستی، شفاف معاشرہ کی تعمیر اور سب کے لئے انصاف کے ارفع مقاصد کی باتیں خواب و خیال ہی رہیں گی۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )