جس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کابل میں صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے اور یہ یقین دلا رہے تھے کہ پاکستان افغانستان میں افغان قیادت کی سربراہی اور ملکیت میں ہونے والے امن عمل میں مکمل تعاون کرنے کے لئے تیار ہے … عین اس وقت افغانستان میں امریکی سفیر جان باس کا بھارتی روزنامہ اکنامک ٹائمز میں یہ انٹرویو منظر عام پر آیا کہ پاکستان نے اس سال کے شروع میں افغان حکومت سے کہا ہے کہ وہ بھارت سے تجارتی سامان کی افغانستان ترسیل کے لئے زمینی راستے کھولنے کے لئے بات چیت پر آمادہ ہے۔ یوں امریکی سفارت کار نے اس خطہ میں امن کے حوالے سے حائل مشکلات میں سے ایک کی جانب بالواسطہ اشارہ کرتے ہوئے یہ امریکی مجبوری بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کرنا چاہتا ہے لیکن چاہ بہار بندر گاہ کے ذریعے بھارتی مصنوعات اور پیداوار کی افغانستان ترسیل کا متبادل تلاش کرنے میں بھی سرگرداں ہے۔
پاکستان کی طرف سے بھارت کو 2015 سے منجمد، زمینی راستہ سے تجارت کی بحالی کے لئے مذاکرات کی پیش کش تو براہ راست پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی کرچکے ہیں۔ لیکن اکتوبر 2017 میں میں کابل ہی کے توسط سے کی جانے والی اس پیشکش کو بھارتی حکام نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ زبانی باتوں پر بین الملکی سفارتی بات چیت شروع نہیں ہو سکتی۔ تاہم اب لگتا ہے کہ ایران اور بھارت کے حوالے سے دو مختلف قسم کی امریکی پریشانیوں کے سبب پاکستان کی سنگین سفارتی مشکلات کے حل کا کوئی امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے افغان قیادت کو اسلام آباد کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام پہنچاتے ہوئے صدر اشرف غنی کو نو منتخب وزیر اعظم عمران خان کا مراسلہ بھی پہنچایا ہے اور پاکستان کی خلوص نیتی کے اظہار کے لئے چالیس ہزار ٹن گندم کا تحفہ بھی افغان عوام کو پیش کیا ہے۔ تاہم ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے باہمی تعلقات کا سرا ایک طرف طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ پاکستان کے رویہ سے جڑا ہؤا ہے تو دوسرا سرا بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت سے جا ملتا ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنے اہداف پورے کرنے کے لئے جنگ اور سفارت کاری کے علاوہ افغانستان میں بھارت کو سرگرمی سے متحرک ہونے اور سفارتی ، معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔
اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے افغان قیادت کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے بھاری بھر کم سرمایہ کاری کی اور متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے۔ اس کے علاوہ بھارت کا نجی شعبہ بھی مسلسل افغانستان میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں جاری جد و جہد آزادی کا انتقام لینے کے لئے بلوچستان میں علیحدگی پسند قوم پرست گروہوں کی مالی اور سفارتی سرپرستی کا بیڑا اٹھایا اور افغان سرزمین کو پاکستان میں تخریب کاری کے مقاصد سے استعمال کرنا شروع کیا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جو دہشت گرد عناصر 2014 اور 2015 کے دوران آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے پاکستان کے قبائیلی علاقوں سے فرار ہوکر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ گزین ہوئے تھے، بھارت نے ان کو آلہ کار بناتے ہوئے پاکستان کی فوج اور عوام کے لئے مشکلات میں اضافہ کیا۔ اس معاملہ پر بھارت کی معاشی حیثیت اور امریکہ کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات کی وجہ سے پاکستان کے واویلا کو کسی بھی عالمی فورم پر پذیرائی نصیب نہیں ہوئی۔
یہ بات موجودہ افغان تنازع شروع ہونے کے بعد سے روز روشن کی طرح عیاں رہی ہے کہ بھارت کو افغانستان میں جس قدر رسوخ اور قوت حاصل ہوگی پاکستان کو اپنے اسٹریجک مفادات کے لئے متبادل عناصر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ یہ عناصر مقبوضہ کشمیر کے علاوہ افغانستان کی پراکسی وار میں بھی ملوث ہیں اور پاکستان سے سہولتیں حاصل کرنے کی وجہ سے بدستور عالمی طاقتوں کی نظر میں رہتے ہیں۔ انہی کے خلاف کارورائی کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکہ نے پاکستان کی ہمہ قسم امداد بند کی ہوئی ہے اور اسی کی بنیاد پر بھارت کا مطالبہ ہے کہ پاکستان جب تک دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جائیں گے۔ ایسی تمام کوششیں نواز شریف کے دور حکومت میں بھی ناکام رہی تھیں اور عمران خان کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلسل مذاکرات کی پیش کش کی ہے لیکن نئی دہلی کی طرف سے اس بارے میں کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اس پس منظر میں دو دیگر عوامل بھی اہم رہے ہیں۔ ایک تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال جولائی میں افغانستان کے بارے میں نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے کردار پر سخت تنقید کی اور اسلام آباد کا رویہ تبدیل نہ ہونے کی صورت میں سخت نتائج کی دھمکی دی تھی ۔ پاکستان کو اس دھمکی سے زیادہ اس بات کا افسوس رہا ہے کہ ٹرمپ نے جس سانس میں پاکستان کو حر ف تنقید بنایا اسی سانس میں بھارت کو علاقے کی بڑی طاقت قرار دیتے ہوئے افغانستان میں اس کے کردار کو اہم قرار دیا۔ پاکستان کے لئے اس علاقے اور خاص طور سے افغانستان میں بھارت کی بالادستی قابل قبول نہیں۔ اسی لئے پاکستان کی طرف سے امریکی دھمکیوں کا جواب بھی نپا تلا رہا ہے اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کو امریکی امداد کی نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کے احترام کی ضرورت ہے۔
اس معاملہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد سے مسلسل بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کے اشارے دئیے ہیں اور کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے مسائل جنگ سے حل نہیں ہو سکتے۔ اسی حکمت عملی کے نتیجہ میں افغان صدر اشرف غنی کے ذریعے بھارت کو یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ پاکستان زمینی راستہ سے بھارت کا تجارتی اسباب افغانستان بھیجنے کے معاملہ پر بات کے لئے تیار ہے۔ اس حوالے سے 2015 میں افغانستان پاکستان ٹرانزٹ معاہدہ (اپٹا) کی مدت پوری ہونے کے بعد خشکی کے پاکستانی راستے سے بھارتی مصنوعات کی ترسیل میں مشکلات حائل ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اور سرد مہری کی وجہ سے پاکستان نے بھارت کو کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے مال افغانستان پہنچانے کی پیش کش کی تھی اور واہگہ کا راستہ جو کہ مختصر اور سستا متبادل تھا، اس مقصد کے لئے بند کردیا گیا۔
اس دوران بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال کے شروع میں ایران کا دورہ کیا اور چاہ بہار بندر گاہ کی ترقی کے لئے بھارت نے 500 ملین ڈالر صرف کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ۔ پاکستان میں اس منصوبہ کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ بھارت اس منصوبہ کے ذریعے سی پیک معاہدہ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے کیوں کہ اس کے تحت گوادر کی بندر گاہ کو اس علاقے میں مواصلت اور باربرداری کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔ تاہم بھارت دراصل ایرانی بندر گاہ پر تصرف حاصل کر کے افغانستان تک متبادل تجارتی راستہ حاصل کرنے کا خواہشمند تھا۔ بھارت نے اس منصوبہ پر تیزی سے کام شروع کیا اور گزشتہ برس اکتوبر میں بھارتی اجناس چاہ بہار کے ذریعے افغانستان روانہ کی جانے لگیں۔
بھارت ایران کے ساتھ چاہ بہار کے ترقیاتی منصوبہ پر ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان 2016 میں طے پانے والے ایٹمی معاہدہ کی وجہ سے عمل درآمد کرنے میں کامیاب ہؤا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ اس سال مئی میں ایران ایٹمی معاہدہ سے علیحدگی اختیار کرکے ایران کے خلاف سخت ترین پابندیاں لگانے کا اعلان کیا تھا۔ اب ایران کو تنہا کرنے اور زیر بار رکھنے کے لئے سفارتی اور مالی دباؤ میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلہ کی وجہ سے بھارت کے لئے دو بڑے مسئلے پیدا ہو چکے ہیں۔ بھارت ایران کے تیل کا بڑا خریدار ہے اور ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے بھارت پر دباؤ ہے کہ وہ یہ تجارت بند کرے۔ دوسرا مسئلہ چاہ بہار کے ذریعے کاروبار جاری رکھنے سے متعلق ہے ۔ یہ منصوبہ ٹھپ ہونے سے افغانستان کے لئے بھارت کا متبادل راستے کا خواب پورا ہونے سے پہلے ہی منتشر ہورہا ہے۔
امریکہ اگر ایران پر پابندیاں لگانا چاہتا ہے تو وہ بھارتی مفادات کے تحفظ کا بھی ذمہ دار بنا ہؤا ہے۔ اسی لئے پاکستان کی طرف سے سال بھر پہلے دی گئی تجویز میں جان ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سفیر جان باس کا بیان اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ یوں لگتا ہے کہ امریکہ ایران کے بارے میں اپنی پالیسی اور مشرق وسطیٰ میں مفادات کے تحفظ کے لئے بھارت کو پاکستان کے ساتھ تجارتی روٹ کے لئے معاملات طے کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسی لئے جان باس نے اس انٹرویو میں اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ ایران پر دباؤ بڑھانے کے ساتھ امریکہ علاقے میں اپنے دیگر مفادات کے تحفظ کا راستہ بھی نکالنا چاہتا ہے۔ بھارت کے معاملہ میں یہ راستہ پاکستان سے ہو کر گزرتا ہے۔
امریکہ گو کہ براہ راست پاکستان کو کوئی سہولت دینے پر آمادہ نہیں کیوں کہ اسے پاکستان کی افغان پالیسی پر شدید تحفظات ہیں لیکن وہ بھارت کی مدد کرنے اور ایران کا معاشی بائیکاٹ مؤثر بنانے کے لئے بھارت کو پاکستان سے بات چیت پر آمادہ ضرور کرسکتا ہے۔ امریکہ کے اس بالواسطہ مفاد کی وجہ سے پاکستان کو بھارت کے ساتھ تعلقات میں تعطل ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بھارت ابھی تک اس تعطل کو بڑھانے پر بضد رہا ہے ۔ بھارت میں آئیندہ برس انتخابات بھی ہونے والے ہیں ۔ اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کے لئے کوئی پیش رفت 2019 کے آخر میں ہی دیکھنے میں آ سکے گی۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ