وزیر اعظم عمران خان نے دورہ کراچی کے دوران پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان اور بنگلہ دیشی باشندوں کو پاکستان کی شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح ملک کے نو منتخب وزیر اعظم نے بد عنوانی، سادگی اور آبی بحران کے دیرینہ اور گھسے پٹے موضوعات پر سیاست سے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ایک جرات مندانہ اور انقلابی قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم جس جلدی میں یہ اعلان کیا گیا ہے، اس سے یہ اندیشہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے اس اعلان سے پہلے کیا حکومت نے مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی ٹھوس حکمت عملی بنا لی ہے یا وزیر اعظم نے لمحاتی جوش میں فوری طور پر ایک اعلان کر دیا لیکن عملی طور سے اس معاملہ کی پیچدگیوں اور قانونی، سیاسی اور سماجی تقاضوں کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کا اندازہ اس اعلان میں بیان کئے گئے دلائل سے بھی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی روز بعد آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کا فوکس انہی امور پر رہا جن کا تذکرہ وزیر اعظم اور ان کے وزرا ایک ماہ قبل اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے افغان یا بنگلہ دیشی باشندوں کی شہریت کے معاملہ پر بات نہیں کی ۔
صدر عارف علوی نے پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں بدعنوانی کے خلاف کارروائی، سادگی کو شعار بنانے اور پانی کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے زرعی شعبہ کی ضرورتوں کا بھی حوالہ دیا۔ یہ تینوں امور گزشتہ ایک ماہ کے دوران تحریک انصاف کی نئی حکومت کے لئے خبروں پر چھائے رہنے کا سبب بنے رہے ہیں۔ تینوں معاملات اہم ہیں لیکن ان تینوں مقاصد کی تکمیل کے لئے جس قومی جذبہ اور اشتراک کی ضرورت ہے، وہ ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا۔ نہ ہی نئی حکومت ابھی انتخابی جیت کی سرشاری پر قابو پا کر وسیع تر سیاسی تعاون کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔ نئی حکومت کے دور میں نئے صدر کا یہ پہلا خطاب ایک لحاظ سے تحریک انصاف کی حکومت کا پالیسی بیان ہوسکتا تھا۔ لیکن اسے بھی ان معاملات تک محدود رکھا گیا ہے جو روایتی ہیں اور جن کے بارے میں کوئی اصولی اختلاف نہیں۔ البتہ طریقہ کار اور دائرہ اختیار کے معاملات پر مباحث ہوتے رہتے ہیں لیکن ان مباحث کو قومی اتفاق رائے میں بدلنے کے لئے سیاسی تعاون و احترام کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ کل کراچی میں افغان اور بنگلہ دیشی نژاد شہریوں کو پاکستان کی شہریت دینے کا اعلان بنیادی اہمیت اور انقلابی نوعیت کا حامل ہے۔ حکومت اگر اس معاملہ پر اصولی فیصلہ کرچکی ہے اور اسے قومی مفاد اور انسانی ہمدردی کی ضرورتوں کے تحت انجام تک پہنچانے کا تہیہ کیا گیا ہے تو صدر مملکت کی تقریر میں اس کا ذکر وزیر اعظم کے اعلان کو معتبر بنا دیتا اور ان پناہ گزینوں کے علاوہ اہل پاکستان کو بھی یہ یقین ہوجاتا کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک اہم اور حساس معاملہ پر فیصلہ کن اقدام کرنے کا ارادہ کرچکی ہے۔ تاہم صدر نے بالواسطہ طور سے بھی اس معاملہ کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ جس سے اس معاملہ میں حکومت کی منصوبہ بندی اور خام خیالی کے بارے میں شبہات پیدا ہونا فطری ہے۔
ملک میں کرپشن کے خاتمہ اور پانی کی کمیابی کو ختم کرنے کے لئے ڈیم بنانے کی باتیں سہانی اور دل نشین ہیں اور قابل فہم بھی ہیں۔ لیکن بدعنوانی کو گزشتہ ساٹھ برس کے دوران سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار اور ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ فوج نے چار بار آئین شکنی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور ہر بار سیاست دانوں کی بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے اس انتہائی بدعنوان اقدام کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی ۔ اسی طرح ملک کے دو منتخب صدور نے تین منتخب حکومتوں کو برطرف کیا اور تینوں بار بدعنوانی کے الزامات ہی عائد کئے گئے لیکن ہر بارسیاسی مصلحتیں حاوی ہوتی رہیں اور کوئی ایسا انتظام مروج نہیں کیا جاسکا جس کے سبب ملک میں بدعنوانی کا مزاج تبدیل ہو سکے۔ اس کی بجائے کرپشن نے معاشرے کے ہر شعبہ میں گھر کر لیا ہے۔ حتیٰ کہ انتخابات کے دوران بھی اس کا علی الاعلان مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔
الیکشن کمیشن پاکستان نے صوبائی اور قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والوں پر چند لاکھ روپے صرف کرنے کی پابندی عائد کی ہوئی ہے لیکن ہر حلقہ کے تمام اہم امید وار کروڑوں روپے انتخابی مہم پر صرف کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن کو یہ قانون شکنی دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کا سیاسی ہی نہیں تمام انتظامی ڈھانچہ یوں استوار ہو چکا ہے کہ رشوت کے بغیر کسی جائز کام کو پورا کرونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی عدالتیں انصاف فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی قیادت میں اس وقت سماج سدھار کا بیڑا بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ لیکن ملک کا عدالتی نظام ہی سب سے زیادہ کرپٹ اور عام شہریوں کے لئے مشکلات اور مصائب کا سبب بنا ہؤا ہے۔ ملک کا کوئی عام شہری اس بات کی شہادت نہیں دے سکتا کہ وہ کسی کچہری میں دربدرجہ سرکاری عمال کو رشوت دئیے بغیر کوئی معمولی کام بھی کروا سکتا ہے۔ رشوت ستانی کو گناہ اور علت سمجھنے والے ملک کے معدودے چند لوگ شدید مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ یا تو ان کے جائز کام بھی نہیں ہو پاتے یا مجبوری کے عالم میں انہیں بھی سرکاری اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔
نیب یا اسی قسم کے اداروں کو برسر اقتدار طبقوں کی سیاسی ضرورتوں کے لئے استعمال کرنے کا دیرینہ طریقہ اس نظام کا مکروہ آئینہ ہے۔ اینٹی کرپشن کا محکمہ زیادہ رشوت لینے کا مرکز بن چکا ہے۔ عسکری ادارے ملک کی ایک تہائی معیشت پر قابض ہیں لیکن اس پر بحث کی اجازت نہیں اور نہ ہی ان اداروں میں ہونے والی بےقاعدگیوں اور بے ایمانی کی باز پرس ہوتی ہے۔ اعلیٰ فوجی اور سول افسروں کی کرپشن کے معاملات کی بھی کچھ ایسی ہی کہانی ہے لیکن ملک کی اہم پارٹیوں کے لیڈروں کے خلاف بد عنوانی کے الزامات عائد کر کے اور دہائیوں پرانے مقدمات کو حسب ضرورت تازہ کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے کا کام صرف فوجی حکومتوں کے دور ہی میں نہیں ہؤا بلکہ سول حکومتیں بھی اس فعل بد میں ملوث رہی ہیں۔ یہ صورت حال ابھی تک تبدیل نہیں ہو سکی۔ تحریک انصاف کی کامیابی میں حصہ دار بننےکے بعد اس کی حکومت میں شامل ہونے والے متعدد ایسے پرانے چہرے موجود ہیں جو ہر دور میں اپنا دامن صاف کروانے کے لئے نئی حکومت سے تعاون کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جب تک کوئی حکومت ان عناصر سے نجات حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کرتی، سیاسی عناصر کی بدعنوانی کا باب بند نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس کی بنیاد پر سیاسی انتقام کا کاروبار جاری رہے گا جو بجائے خود بدترین بدعنوانی کی ایک قسم ہے۔
اسی طرح ملک میں پانی کی قلت کا معاملہ ہے۔ بلاشبہ عمران خان کی حکومت نے اس معاملہ پر تواتر سے بات کرنے اور عوام سے چندہ مہم کو تیز تر کرنے کا قصد کیا ہے۔ لیکن عمران خان سے پہلے یہ کام ملک کے چیف جسٹس انجام دینے کا اعلان کرتے رہے ہیں جو بدستور بھاشا ڈیم بنوانے کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں اور عدالت میں پیش ہونے والے لوگوں اور اداروں کو جرمانہ عائد کرتے ہوئے یہ رقم ڈیم فنڈ میں جمع کروانے کا حکم دیتے ہیں۔ حالانکہ پارلیمنٹ نے کسی قانون کے تحت سپریم کورٹ کے ججوں کو یہ اختیار تفویض نہیں کیا کہ وہ عدالتی جرمانہ کی رقوم کو من پسند فنڈ میں شامل کرنے کا حکم دیں۔ دیانت داری سے دیکھا جائے تو یہ بھی بدعنوانی ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس پر انگلی اٹھانے والوں کو آئین کا غدار قرار دینے کی دھمکی دی جا چکی ہے۔ بھاشا ڈیم شاید ملک میں پانی کی قلت دور کرنے کے لئے اہم ہو گا لیکن اس معاملہ پر اختلاف رائے کا جائزہ لینے اور مل جل کر بہتر حل تلاش کرنا ہی پانی کی قلت کے لئے عملی مدد فراہم کرسکتا ہے۔ عمران خان کی طرف سے چیف جسٹس کے قائم کردہ فنڈ کو وزیر اعظم فنڈ میں تبدیل کرنے سے اس میں چندہ دینے والوں کی تعداد میں ضرور اضافہ ہؤا ہے لیکن حکومت نے اس منصوبہ کے حوالے سے کرنے کا کوئی کام نہیں کیا۔ گلگت بلتستان کے علاقہ میں ہونے کی وجہ سے اہم عالمی دارالحکومتوں میں بھاشا ڈیم کے حوالے سے تحفظات موجود ہیں لیکن حکومت نے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ان تحفظات کو دور کئے بغیر عالمی اداروں سے مالی اور تکنیکی تعاون حاصل کرنا بھی ممکن نہیں ہو گا جو اس ڈیم کی تکمیل کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کوئی بھی منصوبہ نعرے لگانے یا جذباتی فیصلے کرنے سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا۔ اس کے لئے منصوبہ بندی کے ذریعے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔
افغان اور بنگلہ دیشی باشندوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان بھی اسی قسم کا جذباتی اعلان ہے جس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لئے بغیر اور ٹھوس حکمت عملی کے بغیر وزیر اعظم کو یہ بات زبان سے نہیں نکالنا چاہئے تھی۔ عمران خان نے یہ اعلان کراچی میں جرائم کی صورت حال کا ذکرکرتے ہوئے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرائم میں اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ افغان اور بنگلہ دیشی مہاجرین کے پاس شناختی کاغذات نہیں ہوتے ۔ور وہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے پہلے سے معاشرہ کے کمزور ترین طبقہ کو ’سماجی کلنک ‘ قرار دینے کی بالواسطہ غلطی کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں پیدا ہونے والے لوگوں کو پاکستان کی شہریت لینے کا حق دینا مستحسن اور اہم فیصلہ ہو سکتا ہے لیکن اس کی بنیاد اگر کسی معاشرہ میں جرائم کو قرار دیا جائے گا تو اس نیک کام سے کسی بھلائی کی امید نہیں کی جا سکے گی۔ اس مقصد کے لئے معاملہ کے سماجی، سیاسی اور قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر مناسب قانون سازی کی ضرورت ہوگی۔
اسی تناظر میں یہ یاد کروانا بھی بے محل نہیں ہو گا کہ افغان اور بنگلہ دیشی باشندوں کو پاکستانی شہریت دینے کا اعلان کرنے والی حکومت سے یہ سوال بھی پوچھا جائے گا کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں انتہائی تکلیف دہ زندگی گزارنے والے ان تین لاکھ بہاریوں کا کیا قصور ہے جنہیں بنگلہ دیش پاکستانی قرار دے کر دھتکارتا ہے اور پاکستان انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ