ملک میں سیاسی بدعنوانی کے حوالے سے ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا سہل نہیں رہا۔ بلکہ صورت حال اس حد تک افسوسناک اور ذاتیات تک محدود ہو چکی ہے کہ دلیل اور اصول شرمندہ ہو کر منہ چھپائے پھرتے ہیں۔ یہ رویہ عام ہے کہ جو لوگ ملک میں جمہوریت کے فروغ کی بات کرتے ہوئے گزشتہ کچھ عرصہ میں رونما ہونے والے معاملات پر رائے کا ظاہر کرتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں بدعنوانی صرف سیاست دانوں کا ہی وطیرہ نہیں بلکہ وسیع تر معاشرتی ، سماجی اور اخلاقی انحطاط کی وجہ سے معاشرہ کا کوئی بھی طبقہ اور فرد اس برائی سے بچا ہؤا نہیں ہے۔ گزارش یہ کی جاتی ہے کہ بدعنوانی کے خاتمہ کی بحث اس کے میرٹ اور سماج سدھار کی وسیع تر اصلاح کے پس منظر میں کی جائے۔ اور اسے ملک کی جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کا ہتھیار بنانے اور اسے استعمال کرنے والی قوتوں کو قوم و ملک کا محسن و مربی ثابت کرنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔
تاہم اس ضمن میں متوازن اور اصولی مؤقف رکھنے والوں کو دشنام طرازی کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے صحافیوں اور ملک کے حقیقی سیاسی پس منظر میں رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے گفتگو کرنے والوں کو لبرل اور لفافہ جرنلسٹ قرار دیتے دیر نہیں لگتی۔ یوں تو لبرل خیالات رکھنا دراصل معاشرہ میں متوازن سوچ اور سیاست پر غیرجذباتی رویہ کو فروغ دینے کی خواہش کا ہی کا نام ہے۔ لبرل خیالات رکھنے والے مذہب دشمن نہیں ہوتے لیکن وہ معاشرہ کے سب لوگوں کے لئے مساوی حق کی بات کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کیوں مواصلاتی ترقی کے اس دور میں یہ بات نہ تو تسلیم کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اسے دنیا میں قبول عام نصیب ہوسکتا ہے کہ کسی سماج میں طبقاتی تقسیم کو اس قدر راسخ کردیا جائے کہ اس میں کمزور لوگوں کو نشانے پر دھر لیا جائے اور اس رویہ کی حفاظت کرنے والے سیاسی ، سماجی اور مذہبی عناصر کو قوت عطا کی جائے۔ لبرل عناصر انہی رویوں کے خلاف بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی لبرل دوسروں کے حق کے لئے تو آواز اٹھاسکتا ہے لیکن وہ اپنی دلیل کا جواب سننے کے لئے بھی تیار رہتا ہے۔ سیاسی و سماجی مباحث میں لبرل عناصر سر پھٹول اور رائے یا نظریہ کی بنیاد پر دوسروں کی تضحیک کرنے کا تصوربھی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح اگر ملک کے لبرل دانشور جمہوریت کی سربلندی کے لئے آواز اٹھاتے ہیں اور اس حوالے سے موجودہ صورت حال کو سیاسی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت سمجھتے ہوئے ایک خاص رائے کا اظہار کرتے ہیں یا نواز شریف کی جد و جہد اور سیاسی نظریہ کی حمایت کرتے ہیں تو اس رائے سے بلاشبہ اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اس کے بارے میں دلائل بھی دئیے جاسکتے ہیں لیکن اس رائے کو ملک و معاشرہ میں بدعنوانی کے فروغ کی مہم قرار دینے کی کوشش کرنا اور روشن خیال عناصر کی جمہوریت اور انسانوں کےحق آزادی کے لئے آواز کو عوام کے حق جوابدہی کے خلاف قرار دینا درست نہیں ہو سکتا۔
سوشل میڈیا پر سرگرم بعض ’سرفروش‘ کچھ سوچے سمجھے بغیر جمہوریت کے احیا اور ملک میں عوام کے حق حکمرانی کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو ’لفافہ صحافت ‘ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ یوں لگتا ہے کہ نواز شریف کے جرائم کے بارے میں اتنے ثبوت ثامنے لائے جاچکے ہیں کہ اب کوئی ذی شعور یہ بات نہیں کر سکتا کہ نواز شریف یا دیگر سیاست دانوں پر خواہ بدعنوانی اور سرکاری اختیار کے ناجائز استعمال کے کیسے ہی الزامات ہوں لیکن انہیں بھی قانون کے سامنے وہی مراعات اور سہولتیں حاصل ہونی چاہئیں جو اس ملک کے کسی بھی شہری کو حاصل ہیں۔ حالانکہ یہ ایک اصولی بات ہے جو کسی بھی جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہوتا ہے اور جس کا نعرہ اب وزیر اعظم عمران خان بھی بلند کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے متحرک چیف جسٹس بھی سب پر قانون کے مساوی اطلاق کی بات تسلسل سے کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ اگر بعض معاملات میں نواز شریف کے حوالے سے انہی اصولوں کا ذکر کیا جائے تو یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے ولا ایک بدعنوان اور عوام دشمن شخص کی حمایت صرف اپنے ذاتی فائدے کے لئے کرسکتا ہے۔ نواز شریف کی معزولی، پاناماکیس میں ان کی نااہلی کے بعد نیب عدالت کی طرف سے سزائیں دینے کا معاملہ قانون اور عدالتوں کی خود مختاری کی منہ بولتی تصویر تھا۔ تاہم جب اسلام آباد ہائی کورٹ نیب عدالت کے ناقص فیصلہ کے خلاف نواز شریف کو ریلیف دینے اور ان کی سزائیں معطل کرنے کا حکم دیتی ہے تو اسے آسمان سر پر اٹھانے کی وجہ بنا لیا جاتا ہے۔ کنٹینر پر چڑھ کر نواز شریف کے خلاف عائد کئے گئے الزامات کی فہرست از سر نو گنوانے اور یہ یقین ظاہر کرنے میں دیر نہیں کی جاتی کہ بالآخر خود مختار عدالتیں اور ملک کا بالادست قانون پورے شریف خاندان کو اڈیالہ جیل میں بند کرکے ہی دم لے گا۔
ملک کے سیاسی تناظر میں یہ رویہ افسوسناک اور جمہوریت کش ہے۔ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس مزاج کو فروغ دینے کے لئے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ عمران خان نے حصول اقتدار کی جد و جہد میں اور کچھ سیکھا ہو یا نہ لیکن وہ گزشتہ انتخابات کے بعد یہ ضرور سیکھ گئے کہ وہ اپنے قد کی بنا پر وزارت عظمی تک نہیں پہنچ پائیں گے بلکہ اس کے لئے انہیں دوسرے لیڈروں کی کردار کشی کے ذریعے سیاسی اقتدار کا راستہ ہموار کرنا پڑےگا۔ وہ اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس حکمت عملی کو مستقبل کی سیاست کا رہنما اصول بنا لیا جائے۔ کیوں کہ الزام تراشی کی سیاست سے جمہوریت کمزور، منتخب ادارے بے اعتبار اور سیاست دان معتوب ہوتے رہیں گے۔ کیا عمران خان کے حامی واقعی یہ یقین رکھتے ہیں کہ جن عناصر نے ان کی کامیابی کے لئے کردار ادا کیا ہے، وقت آنے پر وہ انہی ہتھکنڈوں کو اس ’مقبول‘ لیڈر کے خلاف استعمال کرنے کا اہتمام نہیں کریں گے۔ یا وہ الیکٹ ایبلز جن کے بارے میں بیس برس سیاست کرنے کے بعد عمران خان کو یہ القا ہؤا کہ ان کی مدد و تعاون کے بغیر اقتدار حاصل نہیں کیا جاسکتا، کل ہو ا کا رخ پلٹنے پر بھی ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ عمران خان یا ان کے مخلص ہمدرد اگر ایسا تصور کرتے ہیں تو وہ جس قدر جلد اس غلط فرہمی کو خیر آباد کہہ دیں ان کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ مقبولیت کے جس گھوڑے پر عمران خان سوار ہیں ، اس کی رکابیں ان کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہیں۔
یوں بھی جمہوریت میں مقبولیت اگر ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت کا نام ہے تو 2013 کے انتخابات کے بعد پانچ برس تک عمران خان نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا یہ حق تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔ وہ پچھتر لاکھ ووٹ لے کر اپوزیشن کی اہم جماعت کے طور پر قومی اسمبلی میں نمائیندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن سابقہ اسمبلی میں ان کی حاضری اور کارکردگی کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ 2013سے 2018 کے دوران انہوں نے قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر وصول کی جانے والی تنخواہ اور مراعات کو کس قدر ’ حلال‘ کیا تھا۔ خواہ اسے منطق نہ بنایا جائے لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا بدعنوانی صرف سرکاری اختیار کے غلط استعمال اور اس طرح وسائل اینٹھنے کا نام ہے یا کام کا معاوضہ لینے کے باوجود کام نہ کرنے کو بھی بدعنوانی اور دھوکہ دہی قرار دیاجائے گا۔ یہ واضح ہونا چاہئے کہ کہ جو لوگ اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے ہیں اور اس منصب کو ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں جیسا کہ آزاد ارکان منتخب ہو کر اقتدار میں آنے والی پارٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔۔۔ یا رکن اسمبلی کے طور پر کام کرنے سے گریز کرتے ہیں ، وہ صرف تنخواہ اور مراعات کو ہی ناجائز طور سے استعمال میں نہیں لاتے بلکہ اس فریضہ سے کوتاہی کا سبب بھی بنتے ہیں جو ان کے حلقے کی اکثریت اپنے ووٹ کی صورت میں متعلقہ ارکان کو تفویض کرتی ہے۔
عمران خان کو ملنے والے ووٹ ان کی صلاحیتوں اور منشورسے زیادہ دوسرے سیاست دانوں کی ناقص کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار تھے۔ اسی لئے امید کی جارہی ہے کہ وہ اس بار عوام کے اعتماد پر پورا اتر سکیں اور ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکیں جو وہ عوام کی بہبود کے لئے کرنے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ تاہم حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے بھی ان کی کامیابی کے اتنے ہی خواہاں ہو سکتے ہیں جس قدر منتخب وزیر اعظم کی ہر بات پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے والے عمران خان سے خلوص کا دعویٰ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح جو سیاسی جماعت سیاسی اختلاف کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعرے کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھتی ہے اسے کسی جمہوری انتظام میں قابل قدر قوت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
نواز شریف کو ملک کی ایک زیریں عدالت نے سزا دی ہے اور ہائی کورٹ نے اسے معطل کیا ہے۔ سپریم کورٹ اس فیصلہ کو تبدیل کرسکتی ہے۔ یہی ہمارے عدالتی نظام کا طریقہ کار ہے۔ نواز شریف یا دیگر سیاست دانوں کے خلاف قائم کئے گئے مقدمات کا جو بھی فیصلہ ہو جب تک ملک کے اداروں ، قانون اور عدالتوں کو جمہوری قوتوں کو قابو میں رکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہے گا، اس وقت تک ان مقدمات اور فیصلوں کو مسترد بھی کیا جاتا رہے گا۔ کیوں کہ اسی طرح اس ملک میں جمہوری عمل کی بالادستی کے لئے کام کیا جاسکتا ہے۔ حالات تبدیل ہونے پر اگر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جو اس وقت نواز شریف، ان کے اہل خاندان اور ساتھیوں کو درپیش ہے تو بھی یہی کہا جائے گا کہ سیاست دان اور سیاسی پارٹی کی تقدیر کا فیصلہ عوام کے ووٹوں سے ہوگا۔ بدعنوانی پر سزا ملک کا قانون دے گا لیکن اس کا اطلاق بلا تخصیص ہونا چاہئے۔ سیاست دان کو معتوب کرتے ہوئے غیر جمہوری اداروں کو گلوری فائی کرنے کا رویہ نہ آج قابل قبول ہے اور نہ عمران خان پر برا وقت آنے کی صورت میں اس کی تائید کی جائے گی۔
آج جو لوگ اس رائے پر نواز شریف کا وظیفہ خوار ہونے کی پھبتی کستے ہیں، کل ہوسکتا ہے کہ نواز شریف کے حامی ایسی ہی رائے کو عمران خان کی بھتہ خوری کا نتیجہ قرار دیں۔ لیکن جمہوریت کی بالادستی، قانون کی سرفرازی اور پارلیمنٹ کے اختیار کے لئے کی جانے والی باتیں نہ آج غلط ہیں اور نہ ہی کل ناجائز ہوں گی۔ عمران خان کی سیاسی سرخروئی کی خواہش اس ملک اور جمہوریت سے محبت کا تقاضہ ہے۔ اس لئے دعا کی جانی چاہئے کہ ان سطور میں کبھی ان کے استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت نہ پڑے۔
(بشکریہ:ہم سب)
فیس بک کمینٹ