12 اکتوبر گزر گیا ۔ کسی طرف سے انیس برس پہلے جمہوریت پر ڈالے جانے والے ڈاکہ کا ذکر نہیں ہؤا۔ نوازشریف مسلسل اپنی اہلیہ کے سوگ میں ہیں اور سیاسی سرگرمیوں سے گریز کر رہے ہیں۔ جولائی میں ہونے والے انتخابات سے پہلے نواز شریف اور مریم نواز کو قید کرکے اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ عام انتخابات ملک کی تاریخ کے شفاف ترین انتخاب ہوں تاکہ منتخب ہونے والی حکومت ملک کو درپیش تمام مسائل حل کرسکے اور برے سیاست دانوں کی پیدا کردہ خرابیوں کا خاتمہ کردے ۔ الحمداللہ وہ مقصد پورا ہؤا۔ کل لندن کے پاکستانی ہائی کمیشن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس کی تصدیق بھی کی اور یہ ضمانت فراہم کی کہ پاکستان کی تاریخ میں 25 جولائی 2018 سے زیادہ شفاف اور آلودگی سے پاک انتخابات کی مثال نہیں ملتی۔ جمہوریت کے حسن کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اہل پاکستان کو یاد دلایا کہ یہی اس نظام کی خوبی ہے کہ کبھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، پھر مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی اور اب تحریک انصاف کو موقع ملا ہے۔ اس میں جز بز ہونے کی کیا بات ہے۔
ملک بھر میں اس وقت ضمنی انتخابات ہورہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلیوں کی 24 نشستوں پر نئے رکن منتخب کئے جائیں گے۔ وفاق اور پنجاب میں چند ووٹوں کے سہارے پر کھڑی تحریک انصاف کی حکومتوں کے لئے یہ انتخابات خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتے تھے۔ لیکن کل میجر جنرل آصف غفور نے قوم کو یقین دلا دیا ہے کہ فوج کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کہ لوگ کس کو ووٹ دیتے ہیں۔ وہ تو سرحدوں کی حفاظت کرنے اور دہشت گردی کو ختم کرنے میں مصروف ہے۔ اس یقین دہانی اور انتخابی شفافیت کی ضمانت کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کو سیاہ بادلوں سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس بارے میں کوئی شبہ موجود تھا تو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یہ کہہ کر اسے دور کردیا ہے کہ تحریک انصاف تمام نشستوں پر انتخاب جیتے گی۔ اور کیوں نہ ہو جب ایک مخلص حکومت قومی مفاد کے لئے تجویز کردہ تمام نسخوں کو آنکھیں بند کرکے برضا و رغبت قبول کرنے پر تیار ہو تو کون عقل کا اندھا ایسی حکومت کو گرانے کی بات کرے گا۔
لوگ بھی سول ملٹری چپقلش کی باتیں سن سن کر تنگ آچکے تھے ۔ اب خیر سے ہم آہنگی کی خبریں آرہی ہیں۔ سویلین اور فوجی بھائی بھائی ہوچکے ہیں اور ملک کی انصاف پسند عدالتیں اور آئین کے ایسے پاسبان چیف جسٹس جو اپنے فرض کی ادائیگی میں وکیلوں کے ’احتجاج‘ کی بھی پرواہ نہیں کرتے، پوری توانائی اور تندہی سے اس سول ملٹری ہم آہنگی کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ اس خوشگوار فضا کو خراب کرنے کے لئے شبہ کی کنکری اچھالنے والے جج کی گوشمالی کرتے ہوئے ، اسے نکالنے میں بھی دیر نہیں کی جاتی۔ اب ہر طرف امن ہی امن ہے۔ اگر اسد عمر کو ملک کی ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے کبھی دوست ملکوں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اور کبھی آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑتا ہے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی اس سے تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی خطرہ ہے۔ اب عوام کو یہ بات سمجھا دی گئی ہے کہ یہ مسائل کیسے پیدا ہوئے ہیں۔ سابقہ حکمران قرض تو ملک کے نام پر لیتے تھے لیکن لٹیروں کی طرح اسے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک اپنے اکاؤنٹس میں جمع کرواتے تھے ۔ جب ان کے ادا کرنے کا وقت آیا تو مجبوراً تحریک انصاف کی حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض لینے کی درخواست کرنا پڑی۔ فواد چوہدری نے بتا دیا ہے کہ حکومت ایک طرف قرض ادا کرنے کے لئے قرض لے رہی ہے اور دوسری طرف لٹیروں کو پکڑنے کا اہتمام ہو رہا ہے تاکہ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جاسکے۔ روشن مستقبل کی نوید دیتے ہوئے دانشمند وزیر اطلاعات نے بتایا ہے کہ جب گھر میں ہی لٹیرے گھسے ہوں تو چوروں کو پکڑنے کے ساتھ باہر سے امداد لینا پڑتی ہے۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ