تحریک انصاف کی حکومت بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ حکومت میں آنے کے بعد عوام کو دکھائے گئے سبز باغات اور ملک کے وسائل و مشکلات کے بیچ توازن قائم کرنے کی تگ و دو کررہی ہے۔ دو اڑھائی ماہ تک وزیر اعظم سے لے کر تحریک انصاف کے معمولی عہدیدار تک نے کرپشن کا جاپ کرنے کے علاوہ سابقہ حکومتوں کے ’سیاہ کرتوتوں کا پردہ چاک‘ کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ اب یوں لگتا ہے کہ بالآخر حکومت کو یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے وزیر اطلاعات کی صورت میں فرنٹ مین مل گیا ہے جو سیاسی چھکوں اور چوکوں کی مدد سے اپنی قیادت کو اس بحران سے نکالنے اور اپوزیشن کو خاک چٹوانے کے کام میں پوری طرح مصروف ہیں۔
یوں تو ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں نے خاموشی اختیار کر کے اور باہمی اختلافات کا بھانڈا چوراہے کے بیچ پھوڑ کر حکومت کو اعانت فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔ تاہم تحریک انصاف ’غیرت مندوں‘ کی پارٹی ہے، وہ اپنی کامیابی کے لئے اپوزیشن کی محتاج ہونا پسند نہیں کرتی اس لئے انہوں نے فواد چوہدری کی صورت میں ایک ایسا مرد میدان دریافت کرلیا ہے جو پہلے بھی کئی حکمرانوں کی کشتیوں میں پتھر بھر کر انہیں ڈبونے کا اہتمام کرچکا ہے۔ لہذا خاطر جمع رکھی جائے فواد چوہدری کے ہوتے تحریک انصاف یا عمران خان کو اپوزیشن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ عمران خان اپنے اس کارنامے پر یوں بھی مسرور ہوسکتے ہیں کہ اب اپوزیشن کے پاس کرنے کو کچھ باقی نہیں رہے گا۔ شہباز شریف کسی پریشانی کے بغیر نیب کی حراست میں آرام کی زندگی گزار سکتے ہیں۔
ملک اس وقت شدید سیاسی اور جذباتی بحران کا شکار ہے۔ انسانی حقوق کے ممتاز لیڈر آئی اے رحمان آزادی اظہار پر پابندی کے حوالے سے شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے واضح کررہے ہیں کہ اب حکومت اور اس کے ادارے اخباروں اور ٹیلی ویژن پر قدغن عائد کرنے کے بعد مسائل کی نشاندہی کرنے والی سول سوسائیٹی کی زبان بندی کا بھی اہتمام کررہے ہیں۔ اس وقت گہری مایوسی اور شدید سناٹے کا عالم ہے جہاں بنیادی حقوق کی حفاظت اور اظہار رائے کے تحفظ کے لئے کوئی ادارہ بھی کردار ادا کرنے سے معذور دکھائی دیتا ہے۔ لیکن وزیر اطلاعات گزشتہ ہفتہ کے آخر میں تحریک لبیک کا دھرنا ختم ہونے کی کامیابی کے نشے میں اس قدر دھت ہیں کہ اب وہ ملک میں مخالفانہ آواز اٹھانے والوں کو خلا میں بھیج کر ملک کو ہر قسم کی ’شر پسندی‘ سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ روز ایک انٹرویو میں چین کے ساتھ خلائی منصوبے کا ذکر کرتے ہو ئے وزیر اطلاعات نے بتایا کہ آئیندہ چار برس میں پاکستان انسان کو خلا میں بھیجنے کے قابل ہوجائے گا تاہم اس کے ساتھ ہی فواد چوہدری نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے والوں کے علاوہ بعض ناپسندیدہ سیاسی لیڈروں کو بھی ون وے ٹکٹ پر مستقل طور سے خلا میں بھیج دینا چاہئے۔ گویا وزیر اطلاعات یہ اعلان کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کی جمہوری حکومت اپنے سیاسی و مذہبی مخالفین کو ’سزائے موت‘ دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔
حکومت اور اس کے فاضل وزیر اطلاعات جن مذہبی لیڈروں کی شر پسندی سے اس وقت عاجز ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے انہیں نعروں کی سرپرستی کرنے کے لئے تحریک انصاف کے لیڈر ایک دوسرے سے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ ایک ناجائز معاملہ پر گزشتہ برس نومبر میں فیض آباد کے مقام پر جو دھرنا دیا گیا تھا، اس نے ملک میں ایک سخت گیر اور شدت پسندانہ مزاج استوار کیا ہے۔ اب ایک نئی حکومت کو جو مسلم لیگ (ن) کو ناکام بنانے والے عناصر پر ہی مشتمل ہے، کل تک اپنے ممدوح رہنے والے شدت پسندوں کے ساتھ ایک پانچ نکاتی ’معاہدہ‘ کرنا پڑا ہے۔ اس معاہدہ کی بدولت ہی اسلام آباد و راولپنڈی کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں دئیے جانے والے دھرنے ختم ہو سکے تھے۔
اس معاہدہ کی نہ صرف زبان ناقص ہے بلکہ اس کی قانونی حیثیت بھی مشکوک ہے لیکن اس کے باوجود نصف صفحہ پر لکھے گئے اس معاہدہ نے تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کے عزم اور سیاسی ناپختگی کا پول کھول دیا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری اب اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے قانون سازی کرنے، سیاسی ترجیحات تبدیل کرنے، ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر مذہبی منافرت کے خلاف وسیع تر سیاسی اور سماجی اشتراک عمل پیدا کرنے کی بجائے، انسانوں کو ’غائب‘ کرنے اور سوشل میڈیا کی بڑی کمپنیوں کے ذریعے مخالفین کی مواصلت کا راستہ روکنے جیسے بچگانہ اور ناقابل عمل منصوبوں کا اعلان کرکے اپنی ذہانت اور حکومت کی بدحواسی کا کھلم کھلا مظاہرہ کررہے ہیں۔
آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد تحریک لبیک کے احتجاج کی ملک کے کسی ذمہ دار شخص، گروہ یا سیاسی جماعت کی طرف سے تائید نہیں کی گئی۔ یہ طرز عمل تحریک انصاف کے اپنے طریقہ سیاست سے قطعی مختلف تھا جس نے گزشتہ برس فیض آباد میں قانون کی دھجیاں بکھیرنے والے اسی گروہ کی حرکتوں کی بھرپور اخلاقی اور سیاسی حمایت کی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت مذہبی انتہا پسندوں کے اس ٹولہ سے گزشتہ ہفتہ کے دوران اسی لئے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی کیوں کہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے اس احتجاج کی حمایت نہیں کی بلکہ پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری پہلے قومی لیڈر تھے جنہوں نے عدالت عظمی کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کرتے ہوئے احتجاج کو مسترد کیا تھا۔ اس تعاون اور سیاسی ذمہ داری پر شکرگزار ہونے کی بجائے تحریک انصاف کے نمائیندوں نے قومی اسمبلی میں گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے ارکان کے ساتھ بھڑنا مناسب سمجھا۔ اب وزیر اطلاعات مخالفین کو خلا میں بھیجنے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں۔ اس طور طریقے اور چلن کے ساتھ جمہوریت کا نام لے کر اقتدار سنبھالنے والی حکومت صرف اس تاثر کو قوی کررہی ہے کہ وہ ملک میں درحقیقت ایک نئی طرز کے غیر آئینی اور عوام دشمن منصوبہ کی تکمیل میں آلہ کار بنی ہوئی ہے۔
تحریک لبیک کے ساتھ ہتک آمیز معاہدہ کی خفت مٹانے کے لئے حکومت نے اگلے ہی روز سے یہ اعلان کرنا شروع کیا ہے کہ مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ کرنے اور نازیبا زبان استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ سرکاری ترجمانوں کے مطابق ملک بھر میں ہزاروں لوگوں کو ان الزامات میں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ حالانکہ 2 نومبر کو طے پانے والے معاہدہ کے مطابق حکومت مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والے لوگوں کو رہا کرنے کا وعدہ کر چکی تھی۔ اس معاہدہ اور وعدہ کے فوری بعد کسی نئی قانون سازی اور واضح حکمت عملی کے بغیر گرفتاریوں کے اعلانات اور سخت کارروائی کی دھمکیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ تحریک لبیک کے سرپرست پیر افضل قادری ایک بار پر پھر پوری شدت سے مظاہرے شروع کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ایسے کوئی آثار موجود نہیں ہیں کہ حکومت اس بار نئی دھمکی سے مرعوب نہیں ہوگی۔ جب وزیر اعظم عمران خان کی دو ٹوک وارننگ کے تین روز کے اندر ان کی حکومت نے ’شر پسند عناصر‘ کے ساتھ تحریری معاہدہ کر لیا تھا تو اس میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ انتہا پسندانہ مزاج کے خلاف علمی، سیاسی اور سماجی اقدامات کئے بغیر موجودہ یا کوئی بھی حکومت مستقبل میں بھی ان عناصر سے خوش اسلوبی سے نمٹنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرسکتی ہے۔
حکومت کی ناکامی صرف معاہدہ کی تحریر سے ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ توڑ پھوڑ کرنے والے عناصر کے خلاف نام نہاد ’کارروائی‘ کا آغاز کرتے ہوئے جب سرکاری عمال کے ہاتھ عام کارکنوں یا مشتعل ہونے والے شہریوں کی گردن تک تو پہنچ رہے ہیں لیکن اس آگ کو بھڑکانے والے افضل قادری اور خادم رضوی محفوظ و مطمئن اپنے گھروں میں فروکش ہیں تو حکومت کے ارادوں اور عملی صلاحیت کے بارے میں شبہات پیدا ہونا فطری ہے۔ مظاہروں اور احتجاج کی شدت کے دوران تحریک لبیک کے ان دو رہنماؤں اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں نے عدالت کے ججوں، فوج اور حکومت کے خلاف جو بد زبانی کی اور جس طرح کے الفاظ استعمال کئے تھے، ملک کے میڈیا نے بھی ان سنگین الفاظ کی رپورٹنگ کر نے کا حوصلہ نہیں کیا تھا۔ البتہ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں خود بتایا تھا کہ کس طرح چیف جسٹس کے خلاف موت کے فتوے دئیے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اگر اس غیر قانونی احتجاج کے اصل ذمہ داروں اور درپردہ ان کی سرپرستی کرنے والے اداروں یا افراد کا سراغ لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا حوصلہ نہیں رکھتی تو قوم کو مستقبل قریب میں ایک بار پھر اس سے ملتے جلتے یا کسی بڑے فساد اور تنازعہ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
ملک میں مذہبی شدت پسندی کی تاریخ سے سبق سیکھنے اور اس کے خلاف کام کرنے کے لئے بلاتخصیص ہر انتہا پسند کے خلاف ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح عوام کو احتجاج، مظاہروں اور دھرنوں کی آفت سے محفوظ رکھا جاسکے گا اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کو مذہبی منافرت اور شدت پسندی کے خلاف کام کرنے والے سنجیدہ ملک کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ یہ کام کرنے کے لئے سب سے پہلے آزادی رائے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔گھٹن کے ماحول میں شدت پسندوں کے گمراہ کن پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو سکتا۔ البتہ وزیراطلاعات کے فرمودات سے لگتا ہے کہ وہ اس صورت حال میں مذہبی شدت پسندی کی بجائے سیاسی مخالفین سے نمٹنا زیادہ اہم اور ضروری سمجھتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اس وقت مذہبی شدت پسندی کے خلاف وسیع تر سیاسی اتفاق رائے موجود ہے۔ حکومت نے اگر اپنی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے اس موقع کو ضائع کیا اور قانون سازی کے علاوہ باہمی احترام کی بنیاد پر رائے سازی کی مناسب حوصلہ افزائی نہ کی گئی تو پاکستان میں اقلیتوں اور متبادل رائے ہی کو مشکل کا سامنا نہیں ہو گا بلکہ نفرت کی بنیاد پر بھڑکنے والی آگ پورے چمن کو خاکستر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ہم سب)
فیس بک کمینٹ