پاکستان میں میڈیا کو پابند کرنے کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ یہ نئے پاکستان کی نئی جمہوریت کا لازمی جزو کہا جاسکتا ہے جس میں آزادانہ رائے کا تصور محال ہے۔ اس کے باوجود پاکستانی صحافی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوصف جمہوریت کے تسلسل کے لئے کام کریں گے۔ اور مالکان کی حکومت کے ساتھ ملی بھگت کے باوجود کوئی ایسا راستہ ضرور نکالا جائے گا کہ عوام تک درست خبر کی ترسیل ممکن ہو اور حالات کا متوازن تجزیہ بھی ان کے سامنے پیش کیا جا سکے۔
تاہم اس خواہش کو دبانے والی قوتیں پوری سرگرمی سے سرکاری اختیارات، اداروں اور وسائل کو آزادی رائے کی اس خواہش کو دبانے میں مشغول ہیں۔ سابقہ آمرانہ ادوار میں صحافیوں کو کوڑے مارنے، قید رکھنے یا اخبارات میں ناپسندیدہ خبروں کی اشاعت کو رکوانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ تاہم اس وقت بھی اخباروں کو وہ حصہ خالی یا بلینک اشاعت کے لئے بھیجنے کا حق حاصل ہوجاتا تھا جس پر ناپسندیدہ خبر یا مضمون شائع کرنے سے روکا جاتا تھا۔ تاہم اب مضمون یا خبر شائع یا نشر بھی نہیں ہوتی اور یہ کہنے کا یارا بھی نہیں ہے کہ لکھنے والے کا ہاتھ پکڑا جارہا ہے۔
گزشتہ ہفتہ کے دوران کراچی پریس کلب پر سیکورٹی اداروں کی ریڈ اور اس کے بعد ایک قومی اخبار کے سینئر صحافی کی پراسرار گمشدگی سے صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہونے کے علاوہ میڈیا کے بال و پر قطع کرنے والی قوتوں کی بے چینی اور پریشانی کا قیاس بھی ہوتا ہے۔ ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہے۔ عوام کی حمایت سے منتخب ہوکر وزیر اعظم بننے والے عمران خان 22 برس تک اس دن کے لئے جد وجہد کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی نئی حکومت کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ وہ ایک نیا پاکستان تشکیل دے رہے ہیں لیکن اب اس حکومت کے چال ڈھال سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس سال جولائی میں منعقد ہونے والے انتخابات کے ذریعے ملک میں جو نیا مزاج حاوی کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس میں آزاد میڈیا اور خبروں کی بلاخوف ترسیل کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
ملک کو ایک خاص سمت میں لے جانے اور قومی مفاد کے علاوہ جمہوریت کی ایک نئی توجیہ کو عام کرنے کے لئے اب متوازن رائے اور خبروں کی آزادانہ ترسیل کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔ ایک جمہوری دور میں کراچی پریس کلب جیسے ادارے پر مسلح افراد کا دھاوا اور صحافیوں کو ایک طرح ان کے گھر میں داخل ہو کر دھمکانے کا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی جو شکل مروج کرنے کے لئے میدان سجایا گیا ہے اس میں اختلاف کرنے اور سچ بولنے کی آزادی کا تصور محال ہو گا۔
یوں تو اس نئے اسٹیج کو سجانے کی تیاری دو سال قبل ڈان لیکس نام کے میڈیا اسکینڈل سے شروع کردی گئی تھی جب روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والی ایک خبر کی پاداش میں ملک کی نادیدہ مقتدر قوتوں نے مسلم لیگ (ن) کی منتخب حکومت کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور وزیر اطلاعات کے علاوہ ایک مشیر اور متعدد افسروں کی قربانی دینے کے باوجود یہ دیوار پر لکھ دیا گیا کہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کو سیاست سے باہر کیا جائے گا۔ ملک میں چونکہ جمہوریت کا چرچا بھی ضروری ہے اور فوج آئین کی پاسداری کرتے ہوئے کسی منتخب حکومت کے خلاف ماضی کی طرح ’بغاوت‘ کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتی، اس لئے منتخب لیڈروں اور حکومتوں کو انگلیوں پر نچانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک اخبار کا رپورٹر اور دو سابق وزرائے اعظم آئین شکنی کے الزام میں لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ بھگت رہے ہیں جبکہ کسی نامعلوم زنبیل سے نکلے ہوئے نئے مذہبی جنونیوں کا گروہ سرکار اور اس سے وابستہ سب اداروں کو پاپوش کی نوک پر رکھتے ہوئے ملک کے قانون کا ہی نہیں، ان سب اداروں کا صبر بھی آزما رہا ہے جو اس ملک میں قانون کی علم برداری اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کے ذمہ دار بھی ہیں اور دعویدار بھی۔
اب کراچی میں پریس کلب پر حملہ کے بعد ایک قومی اخبار کے سینیر صحافی پر دہشت گردی کی حمایت اور پرچار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اس صحافی کو جمعہ کی رات کو اس کے گھر سے اچانک غائب کیا گیا تھا۔ تاہم دو روز لاپتہ رکھنے کے بعد آج محکمہ انسداد دہشت گردی نے انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا اور جج کو بتایا کہ یہ شخص صحافی نہیں بلکہ دہشت گردوں کا سرپرست ہے لہذا اس سے تفتیش کرنے کے لئے دو ہفتے کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ ان پر نفرت انگیز مواد تیار کرنے اور پھیلانے کے علاوہ کالعدم تنظیموں کی اعانت کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ اس دعوے کے ثبوت میں دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے مستعد افسروں نے عدالت کے سامنے 2011 میں شائع ہونے والے نوائے افغان جہاد کی کچھ نقول پیش کیں جن میں پاکستانی حکومت کے خلاف مواد کے علاوہ نفرت انگیز مضامین شائع ہوئے تھے جن سے مذہبی منافرت پھیلنے کا اندیشہ بتایا گیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کے جج نے یہ جانے بغیر کہ 2011 میں شائع ہونے والے کسی جریدہ سے 2018 میں دہشت گردی عام کرنے کا کام کیسے لیا جا سکتا ہے، صحافی کا دو ہفتے کی بجائے دو روز کا ریمانڈ دینا مناسب سمجھا۔ عدالت نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ جو خیالات اور نظریات بعض لیڈر اور مذہبی رہنما علی الاعلان جلسوں اور انٹرویوز میں بیان کرتے ہیں ان کو پھیلانے کے لئے ایک صحافی کو ایک پرانے جریدہ کی ترسیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
الزام کی نوعیت اور طریقہ کار سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کراچی پریس کلب پر چھاپہ اور صحافی کی گرفتاری اور اب اس کے خلاف چارج شیٹ دراصل اس ملک کے میڈیا کو یہ پیغام پہنچانے کی ایک صورت ہے کہ ملک میں آزاد ی صحافت کا شوق رکھنے والوں کو کچلنے کے لئے صرف مالکان کو مٹھی میں کرنا اور اشتہار بند کرکے کسی میڈیا ہاؤس کو مجبور کرنا ہی کافی نہیں ہے حکومتی کے اداروں کے پاس ان کے علاوہ بھی بہت سے ہتھکنڈے ہیں۔ آزادی رائے کو محدود کرنے کے علاوہ سرکش صحافیوں کو سبق سکھانے کے کئی نئے گر آزمائے جاسکتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت صحافت شدید مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔ ایک طرف اسے انتہا پسند مذہبی گروہوں سے خطرات کا سامنا ہے لیکن اب تمام سرکاری ادارے ملکی صحافت کو ایک خاص ڈھب پر لانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو آزما رہے ہیں۔ کبھی مالکان کو خفیہ ملاقاتوں میں ہدایت نامہ جاری ہوتا ہے اور کبھی وزیر اعظم مالکان سے ملاقات میں سرکاری اشتہارات جاری کرنے کی نئی شرائط سے آگاہ کرتے ہیں۔ کبھی آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نام لے کر بتاتے ہیں کہ کون سے صحافی کس طرح ملکی مفاد کے خلاف کام کررہے ہیں اور کبھی لکھنے والے سے کہا جاتا ہے کہ یہ تحریر ناقابل اشاعت اور فلاں پروگرام دکھائے جانے کے لائق نہیں۔ ملک کے میڈیا پر خوف و ہراس کی کیفیت طاری کر کے واضح طور سے یہ پیغام عام کیا جارہا ہے کہ اگر مقررہ حدود کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی تو متعلقہ صحافی اور اینکر کوئی دوسرا کام دیکھ لیں۔ نئے پاکستان میں پرانے طور طریقے والے صحافیوں کی ضرورت نہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ آزادی رائے پر ہونے والے ان حملوں پر نہ تو منتخب لیڈروں کو آواز اٹھانے اور اس کا تدارک کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی ملکی عدالتیں میڈیا کی خود مختاری و آزادی اور صحافیوں کی حفاظت اور ان کے روزگار کے بچاؤ کے لئے کوئی اقدام کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے آئین کی شق 184 (3) کے تحت خصوصی اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس کی نگرانی میں سپریم کورٹ نے ان اختیارات کو وزیر اعظم کو معزول کرنے، وزیروں کو خوار کرنے اور ڈیم بنانے جیسے غیر متعلقہ معاملات میں مداخلت کے لئے تو استعمال کیا ہے لیکن کسی صحافی کے خلاف ظلم کو روکنے اور آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کی منظم حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لئے کوئی سوموٹو لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
میڈیا کے حوالے سے اگر کوئی سو موٹو لیا گیا ہے تو وہ ایک اینکر کی طرف سے زیر سماعت مقدمہ کے حوالے سے بعض دستاویز پر رائے زنی کا معاملہ ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران اے آر وائی کے اینکر ارشد شریف کے خلاف لئے گئے سو موٹو مقدمہ کا فیصلہ ملک میں آزاد صحافت اور خود مختار میڈیا کے لئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس فیصلہ میں متعلقہ اینکر کی غیر مشروط معافی کو تو قبول کرلیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میڈیا کو امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور بھارت کی مثالیں دے کر یہ لیکچر بھی دیا گیا ہے کہ عدالتوں کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے کون سے اخلاقی اور قانونی پہلوؤں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
اس فیصلہ میں پیمرا کو اپنے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا گیا ہے کہ ہر ادارے میں خبروں اور پروگراموں کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ کمیٹی کا قیام بھی یقینی بنایا جائے بلکہ ان کمیٹیوں میں وکیلوں کی تعیناتی بھی کی جائے۔ تاکہ وہ صحافیوں اور مدیروں کو ہمہ وقت ان کی قانونی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے رہیں۔ عدالت عظمی کی طرف سے ادارتی کام میں براہ راست مداخلت کا یہ حکم ملک میں صحافت کی آزادی کے لئے سنگین جھٹکا ہے۔ جس عدالت کو حبس کی فضا میں صحافیوں کی دادرسی کرتے ہوئے ان کی مدد کے لئے میدان میں آنا چاہیے، وہ خود مزید پابندیاں لگانے، دھمکانے اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔
صحافت کے خلاف عدالتی فیصلہ ہو، کسی سرکاری ایجنسی کی کارروائی ہو یا غیر ضروری سنسر شپ کا معاملہ ہو، ملک کی منتخب حکومت اور اس کے منہ زور وزیر اطلاعات کو اس بارے میں بات کرنے کا حوصلہ یا توفیق نہیں ہوتی۔ وہ سنسر شپ سے اس طریقہ کار کو منظم اور مستحکم کرنے کے نت نئے طریقے سوچنے میں مصروف ہیں۔ لیکن جمہوریت کے نام پر حکومت کرنے والے لوگوں کو خبر ہونی چاہیے کہ وہ اس مقام تک آزاد میڈیا کی وجہ سے ہی پہنچ سکے ہیں۔ میڈیا کو بے بس کرنے کے بعد منتخب حکومت کا رہا سہا اختیار اور اعتبار بھی ختم ہوجائے گا۔
(بشکریہ: ہم سب)
فیس بک کمینٹ